تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
ممتاز حسین قادری کی پھانسی پر پاکستان میں بہت سے طبقات سوالات اٹھا رہے ہیں۔ان میں مذہبی طبقہ سب سے زیادہ پریشانی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیرکا قتل بعض حلقوں کے لئے زیادہ تعجب خیز اسلئے نہ تھا کیونکہ اُن کا خیال یہ ہے کہ سلمان تاثیر گستاخیِ رسول کے مرتکب ہوے تھے۔اور اپنے پیارے پیغمبر کی گستاخی کوئی مسلمان کسی بھی درجے کا ہو برداشت کر ہی نہیں سکتا ہے۔۔ممتاز قادری ذاتی طور پر مذہبی طبقے سے تعلق کی بناء پر انتہائی جذباتی بھی تھا۔جس نے مذہبی جذبات اورحُبِ نبی سے مغلوب ہو کر موقعہ ملتے ہی سلمان تاثیر کی زندگی کا چراغ اپنے سرکاری اسلحے کے فائر سے گُل کر کے رکھدیا۔اپنے اس فعل کو وہ اپنی نجات کا راستہ تصور کرتا تھا۔یہ ہی وجہ تھی کہ اُس کو اپنے اس فعل پر کوئی ندامت نہ تھی۔جب اسے گرفتار کیا گیا تو اُس نے سلمان تاثیر کے قتل سے انکار نہیں کیا۔ لہٰذا خوشی خوشی پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں پہنا اورحُبِ رسول میں اسلام کی پہلی شہیدہ سُمیہ کی طرح قربان ہو گیا۔
مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں قتل کے ہر مجرم کو یہ ہی سزا دی گئی ہے؟ یہاں تو یہ بھی دیکھاگیا گیا ہے کہ اسٹیٹ اور قوم کے مجرموں کو اور کئی کئی قتل کر دینے کے باوجود ہے کہ قتلکے مجرموں کو جنہوں نے کئی کئی قتل کئے اور اداروں نے انہیں پیسوں کےعوض چھوڑ کر ملک سے فرار کرا دیا۔مقتول کے خاندان کے لوگ بے بس نظر ۤئے۔جس کی سب سے واضح مثال ریمنڈ ڈیوکی ہےجس نے تین عمدِ قتل کئے اور میری مملکت کے لوگوں نے کسی خوف یا اپنے مفادات کے پیشِ نظر اسے کلین چٹ دے کر اس مملکت سے بغیر کسی سزا و جزا کے نکال باہر کیا گیا!! یہ شخص پاکستان کا دشمن جاسقسی کے حالے سےتو تھا ہی مگر اس مملکت کے لوگوں کے بھی قتلِ عمد کا مجرم تھا۔ جسے لالچی حکمرانوں نے اس ملک کی سرحدیں خود پار کرا دی تھیں۔
ہر محب پاکستانی کے لئے انتہائی تکلیف دے اقدام تھا۔ ہم تو ایسے بے حس ہیں کہ اپنے مغربی اقاوں کی خوش نودی کے لئے ہر برے سے برا اقدام کرنے سے بھی چوکنے والے نہیں ہیں۔اس ضمن میں چاہے ہمارااۤئین ہی کیوں نہ پامال ہو رہا ہو۔ “بات پر وان زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی”انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں ممتاز قادری کوراولپنڈی کی اڈیالہجیل میں پیر کی صبح یکم اپریل 2016 کوتختہِ دار پرپاکستان کے مروجہ قانون کے تحت لٹکا کر موت کی نیند سُلا دیا۔مگر یہاں پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں تمام ہی قاتلوں کے ساتھ یہ ہی رویہ روا رکھا جاتا ہے یا مختلف لوگوں کے ساتھ مختلف رویئےروارکھے جاتے ہیں۔
عشقِ رسول رکھنے والوں کی روحیں اس وقت کانپ اٹھعدالتوں کے فیصلوں کے خلاف صدر مملکت کے پاس اپیل بھیجی گئی اور ایک مسلمان پاکستانی صدرِ مملکت نے بھی اپنے نبی کی محبت کا اظہار کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے ہوے ممتاز قادری کے پھانسی کے حکُم کو برقرار رکھا۔یہاں قانون اور محبت کی جنگ میں ہمارے صدرِمملکت ہار گئےاور قانون جیت گیا۔ عشقِ رسول میں ایک سچا مسلمان اپنے بنائے ہوے اُصولوں کی بھی پرواہ نہیں کرتا ہے۔مگر بلال جیسی حقیقی محبت ہم لائیں کہاں سے؟؟؟
روالپنڈی کے لیاقت باغ میں اس محب نبی کے جنازے میں ہر طبقہِ فکر کےلوگوں کا ایک جمِ غفیر موجود تھا۔ جہاں لوگوں نے ۤاَںسو بھری نگا ہوں سےاس محبِ رسول کی نمازِ جنازہ پڑھی ممتازقادری کی پھانسی کی خبر نے ہر پاکستانی مسلمان جو اپبے نبی سے بےحد و حساب محبت کرتے ہیں کو سکتے میں مبتلا کر دیا۔
پورا پاکستان خاموشی کے ساتھ احجاج کی تصویر پیش کر نے لگا۔ہر شہر قصبہ ودیہات خاموش احتجاج کرتا ہوا دیکھا گیا۔ہر جگہ احتجاج میں دوکانیں اور بازر بند کر دیئے گئے۔پاکستان کے ہر قریئے میں ممتاز قادری کی غائبانہنماز جنازہ پڑھی گئی۔ہر پاکستانی اپنے حکمرانوں کے دوہرے معیار پر سوال کرنے میں حق بجانب ہے۔قوم بار بار یہ سوال کرتی رہے گی کہ ہمارے حکمرانوں کا ہر حوالے سے دوہرا معیار کب تک قائم رہے گا؟علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ “نہ سمجھو گے تو مٹ جا وء گے اے پاکستان کے حکمرانوں تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں” علماےء کرام اور تمام مذہبی حلقوں نےممتاز قادری کی پھانسی پر ناصرف اس پھانسی کی مذمت کی۔
بلکہ عوام کے ہر طبقہِ فکر کو پر امن رہنے کی بھی اپیل کی جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ممتاز قادری پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے سابق اہلکار تھے۔جو سبق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی سیکورٹی پر متعین تھے۔جب سے ان کے علم میں یہبات ۤئی تھی کہ موصوف توہیںِ رسلت کے مرتکب ہوے ہیں ہیں اُس وقت سے ہی وہ موقعے کی تلاش میں تھے۔
ممتاز قادری نے موقعہ ملتے ہی 4 جنوری 2011کواسلام اَ باد کے سیکٹر ایف 6 میں سابق گورنر سلمان تاثیر کو اپنی سرکاری گن سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔جس کی بنا ء پر انکو گرفتار کر کے روالپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں وہ نا صرف مطمعن تھے بلکہ عدالت میں انہوں نے اپنے ارتکابِ قتل کا بھی اعتراف کر لیا۔عدالت نے جرم ثابت ہونے پر اُنہیں 2011 میں ہی دو مرتبہ سزاےء موت کی سزا سنادی۔سزا کے بعد اسلام اَباد ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گیءں ان عدالتوں نے بھی خاص طور پر سُپریم کورٹ نے بھی دسمبر 2015 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے دی گیء سزا کو برقراررکھا۔
اس کے بعد صدرِ مملکت ممنون حسین سے رحم کی اپیل کی گئی مگر صدر کی جانب سے بھی اپیل مسترد کر دی گئی۔جس کے بعد اس محبِ رسول ممتاز حُسین قادری کو یکم مارچ 2016 کی صبح تختہِ دار پر لٹکا دی گیا۔ ممتاز قادری کو پھانسی دیئے جانے پر ایمنیسٹی انٹر نیشنل کی جانب سے مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ سلمان تاثیر کے قتل پر انصاف فراہم کرنے کے لئے پھانسی کوئی راستہ نہ تھا۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل کے سائوتھ ایشیا کے ریجنل اَفس کی ڈائریکٹر چسمیا پینل کا کہنا تھا کہ سزائے موت جرم کی نوعیت اور صورتِ حال کے مشاہدہ کئے بغیر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ہمارا بھی یہ ماننا ہے کہ اظہارِ رائے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔یہ نہیں کہ جس کا جی چاہے جو کچھ کہتا پھرےاور اُس کا محاسبہ کہیں بھی نہ کیا جائے۔گُستاخیِ رسول کی تو سزا ہی موت ہے۔البتہ ہر شخص کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ خود سزا کا تعین کرتا پھرے۔
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbirahmedkarachi@gmail.com