تحریر : میاں وقاص ظہیر
بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کے اہم رہنماؤں کے حلقے میں پنچایت یا میونسپل کی سطح کے انتخابات میں بی جے پی کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے،ضلع وارانسی میں بلدیاتی 48 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کے 47 نامزد امیدواروں میںسے صرف آٹھ ہی کامیاب ہو سکے ہیں، یہاں حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ مودی نے جس گاؤں کو ترقی دینے کے لیے گود لیا تھا وہاں بھی بی جے پی کے حمایت یافتہ امید وار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جیا پور گاؤں میں بی جے پی کے پنچایت رکن کے امیدوار ارون سنگھ عرف رن، بی ایس پی کے حمایت شدہ امیدوار گڈو تیواری سے ہار گئے، بی جے پی وارانسی کے صدر ناگیندر ناگ ونش کا انتخابی نتائج کے بارے میں کہنا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی نشان کو دیہات کے لوگوں تک صحیح طریقے سے نہیں پہنچا سکے،اعظم گڑھ میں اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین نے ایک سیٹ جیت کر بلدیاتی انتخاب میں انٹر ی مار دی ہے۔
بلرام پور میںوزیرشیوپرتاب یادو کی بیوی،بہو اوربیٹا کوبھی عبرت ناک شکست ہوئی،وزیر منوج پانڈے کے بھائی اورممبر اسمبلی دیوندرپرتاب سنگھ کے بھائی رائے بریلی میں انتخابات ہار گئے،وزیر اودھیش پرساد کی بیوی سونا دیوی اوربیٹا بھی اپنی نشست نہیں بچا سکے،سماجوادی پارٹی کے ایم ایل اے اودے راج کے والد اناؤ بھی شکست سے نہیں بچ سکے،وزیر رام پال کرن آریہ کے بیٹے کو بستی میں شکست ہوئی ،وزیر رام پال سنگھ کی دونوں بیٹیاں سیتا پور میں شکست سے دوچار ہوئیں ،ممبر اسمبلی ابھے نارائن پٹیل کی بہو نے آم گڑھ میں نشست کھو دی اس کے علاوہ سینکڑوں مقامات پر مخالفین نے بی جے پی کے امیداروں کو ہلنے نہیں دیا۔
لکھنو ،اتر پردیش،حیدرآبادمیں بھی حکمران جماعت کو منہ کی کھانا پڑی،اتنی بڑی تعدادمیں بھارت حکمران جماعت جماعتوںکو ضلعی اور علاقائی سطح پر انتخابات ہارنا تو اس بات کی طرف واضح اشارہ دے رہاہے ،کہ بھارتی عوام کی بڑی تعداد ”پردان منتری ”نریندر مودی کی پالیسیوں اور رویے کو پسند نہیںکرتے وہ بھی اپنے ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں ،مہنگائی ،بیروزگاری،بھوک ننگ اور قتل وغارت کے مسائل بھارتی قوم کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا ء پسندی اور حکومتی عدم برداشت کے رویے سے نہ صرف ہمسائیہ ممالک بلکہ بھارتی ادیب ،فنکار سائنسدان ،سیاستدان اور عام آدمی بھی تنگ ہیں ،بھارتی مصنفین، گلوکاروں، سائنسدانوں اور تاریخ دانوں نے اپنے اعزازات احتجاجاً حکومت کو واپس کردیئے جب کہ پاکستانی فنکاروں، گلوکاروں، مصنفین اورکھیلوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کے ناروا سلوک کے خلاف بھارتی اہم شخصیات سراپا احتجاج ہیں،اس صورتحال کے بیش نظر تیزی سے بڑھتی انتہا پسندی، عدم برداشت اور اس پر حکومتی خاموشی کے خلاف کانگریس بھی میدان میں کود گئی اور مرکزی قیادت کی جانب سے راشٹرپتی بھاون کے اعلان کے مطابق ایوان صدرکے سامنے احتجاجی ریلی نکالی جارہی ہے جب کہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے علاوہ دیگر مرکزی قیادت بھی احتجاج مارچ میں شرکت کرینگے۔
کانگریس رہنماؤں نے صدر پرناب مکھر جی سے اپیل کی کہ وہ اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملک میں تیزی سے پھیلتی عدم برداشت کی فضا کو ختم کرنے کے لئے کردارادا کریں، اب تو سرحد پار سے یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ پاکستانی فنکاروں کو بھی ہندؤانتہاء پسند جماعتوں کی جانب سے بالی ووڈ میں کام سے روکا جا رہا ہے۔
مجھ ناقص العقل کو تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ مودی اس طرح کی حرکات کرکے دنیا کے سامنے کیا تاثر پیش کرنا چاہتا ہے ،”پردان منتری”مودی اور تمام انتہاء پسند جماعتوں نے اپنے تیور نہ بدلے تو وہ دن دور نہیں جب مودی تاریخ کے بیشمار افراد کی طرح حرف غلط کی طرح مٹ جائیں گے۔
عوام کے دل بندوق کی گولی سے نہیں ،بہترین کردار سے جیتے جاتے ہیں ،حالیہ بلدیہ الیکشن سے بھی مودی اور اس کے حواریوں نے ہٹ دھرمی،بغض،حسد،کینہ پروری اور انتہاء پسند رویہ ترک نہ کیا ،تو وہ وقت دور نہیں جب بھارتی عوام ہی ان انتہاء پسندوں کیخلاف اٹھے گی اور عوامی ریلے میں ان سب کو بہا لے جائے گی،مودی کو چھوٹے سے عوامی اشارے سے سبق سیکھنا ہوگا۔
تحریر : میاں وقاص ظہیر