تحریر: عقیل خان
دنیائے سیاست میں حضرت عمر فاروق سے بڑا سیاستدان کوئی نہیں۔حضرت عمر فاروق نے نظام حکومت کی ابتدا تقسیم کار پر رکھی۔ملک کو صوبوں اور اضلاع میں تقسیم کیا۔ایک طرف خلیفہ دوم کادور اوردوسری طرف ہمارا طرزسیاست ،جہاں اختیارات محدود ہاتھوں میں رہ گئے ہیں۔امراء اور غربا میں بہت بڑا خلیج حائل ہے۔امیر امیر تر ہورہا ہے اور غریب غریب تر،بدقسمتی یہ کہ اس اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا ایک متفقہ آئین بھی ہے، قانون بھی ہے، محکمہ جات بھی قائم ہیں،مسائل کا گلہ دبانے کے لیے مجاز افسران بھی ہیں، جرائم کی روک تھام، عوامی شکایات کے ازالے اور عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے ادارے اور منتخب نمائندے بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجودملک میں کچھ نہیںہو رہا۔ عوامی مسائل جوںکے توں برقرار ہیں۔اس نظام سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ کیوں نہیں مل رہا؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر اس کی سب سے بڑی وجہ اختیارات کی نچلی سطح پر عدم منتقلی ہے۔ مرکز صوبوں اور صوبے اضلاع کو اختیارات منتقل نہیں کر رہے۔
بلدیاتی انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والے ادارے دنیا کی کئی جمہوریتوں میں ترقی کے ضامن رہے ہیں۔مختلف ممالک میں مقامی سطح پر ترقیاتی کام یہی بلدیاتی ادارے کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ صرف ملکی سطح کے پالیسی معاملات اور قانون سازی کے کام انجام دیتی ہے۔پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاںاکثر جمہوری حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے گریزاں رہی ہیں۔ گذشتہ جمہوری حکومت نے جان بوجھ کر بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ اس کی و جہ شاید قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں کوخوف ہے کہ کہیں اس عمل سے ان کے اختیارات چھین نہ لیے جائیں۔اس کے برعکس اکثر بلدیاتی انتخابات فوجی حکومتوں نے ہی منعقد کروائے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہر فوجی آمر نے اپنی سہولت اور مفاد کے لیے نت نئے بلدیاتی نمونوں کو متعارف کروایا۔
عدالتِ عظمیٰ کے اصرار پربظاہر اب پورے ملک میں بتدریج بلدیاتی انتخابات کروائے جا رہے ہیں۔ بلوچستان اور پختوانخواہ میںبلدیاتی الیکشن ہو چکے ہیں۔پنجاب اور سندھ میں مرحلہ وار پروگرام مرتب کردیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں میں کاغذات جمع کرادیے گئے ہیں۔چند شہروں اور دیہاتوں میں الیکشن کی گہماگہمی شروع ہوگئی ہے۔گلیاں اور بازار رنگ برنگے فلیکسوں سے سجنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہوٹلوں اورچوراہوں پر سیاسی گفتگو بھی جاری ہے۔ الیکشن دشمنی میں قتل و غارت کا بازار گرم ہونا شروع ہوگیا۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہاں تک بھی سنا ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے اپنے امیدواروں سے حلف نامے تک لے لیے ہیں۔
اس بار بلدیاتی الیکشن پارٹی بنیادوں پر ہورہے ہیں اس لیے سیاسی پارٹیوں کا بنک بیلنس بھی کافی اَپ ہورہا ہے کیونکہ یونین کی بنیاد پر ہونے والے الیکشن میں بھی چئیرمین اور وائس چئیر مین سے پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے لاکھوں روپے بٹورے جارہے ہیں۔
جہاں اس الیکشن کا عوامی سطح پر بہت فائدہ ہے اتنا ہی دوسری طرف نقصان بھی ہے۔ فائدہ تو یہ ہے کہ چلو چھوٹے موٹے کام یونین سطح پر ہوجاتے ہیں اور عوام کو ذلیل و خوار نہیں ہونا پڑتا ۔ یونین لیول پر جو کام ایڈ منسٹریٹر سے کرانا ہوتا تھا ور اس کی تلاش میں مارے مارے پھرنے سے بہتر ہے اب چئیرمین یا وائس چئیرمین کونسل میں موجود ہونگے اور ان کے ذریعے کام ہوجائے گا۔ ترقیاتی کاموںمیں بھی یونین چئیرمین کو اپنے علاقے کا پتہ ہوتا ہے اس لیے جہاں کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ادھر وہ کام کروادیتا ہے۔(اگرکرانا چاہتے ہوں تو)
بات رہ گئی نقصان کی تو سب سے پہلے تو مقامی الیکشن ہونے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے کا زیادہ ہوتے ہیں۔ ووٹ نہ دینے پر ایک دوسرے سے تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں حتٰی کہ مرناجینا ، خوشی غمی میں آنا جانا ختم ہوجاتا ہے۔
ویسے بھی اس بار بلدیاتی الیکشن کے لیے جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں وہ زیادہ ترایم این ایز اور ایم پی ایز کی خواہشات تو مدنظر رکھ کر کی گئی ہیں۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ وہ گاؤں جو ایک تھا اس کو دوحصوں میں تبدیل کردیا گیا۔ وارڈز کو بلاک میں تبدیل کرکے اس کو بہت بڑا بنا دیا گیاہے۔البتہ وارڈ سسٹم کو ختم کرکے بلاک بنا کر ان بلاک کی تعداد بھی کم کردی گئی ہے،۔یہ سب مسئلے مسائل ایک طرف اندرون خانہ سنا جارہا ہے کہ ہوسکتا ہے بلدیاتی الیکشن ایک بار پھر لیٹ کردیے جائیں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق محرم الحرام کو ایشو بنا کر الیکشن ملتوی کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر یہ الیکشن ملتوی ہوئے تو ایسا پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ پہلے بھی ملتوی ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے ملتوی ہونے والے الیکشن میں بھی کاغذات نامزدگی جمع کرادیے گئے تھے جس کا مالی فائدہ بھی حکومت کو ہوا تھا کیونکہ جن امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تھے ان میں سے کتنے امیدواروں کو دوبارہ پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملا اورکچھ امیدوار وفات بھی پاچکے ہیں۔شائد یہی وجہ ہے کہ ابھی تک بہت کم حلقو ں میں الیکشن کی ہلچل ہے ورنہ بہت علاقوں میں ابھی تک خاموشی کی فضا برقرار ہے۔
اگر سپریم کورٹ ، الیکشن کمیشن اور حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ ہے تو پھر عوام کو بیوقوف نہ بنایا جائے اور نہ ہی الیکشن کی فضا بناکر خاندانوں میں تفریق ڈلوائی جائے ۔ قومی و صوبائی الیکشن کی نسبت ان الیکشن میں دشمنیاں زیادہ بڑھتی ہیں کیونکہ ایک ہی خاندان ، برادری سے کئی کئی امیدوار کھڑے ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ برادری یا خاندان دوحصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور جس کا اختتام لڑائی پر ہوتا ہے۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستا ن کو اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے پرامن الیکشن ہوں۔لوگ الیکشن کو صرف الیکشن سمجھیں ذاتی لڑائی نہ بنائیں۔
تحریر: عقیل خان