تحریر: ع.م بدر سرحدی
یہ کوئی انہونی نہیں کہ انہیں دوبارہ منخب کیا گیا ہے اور مبارک باد ویں، مبارک میاں نواز شریف وزیر آعظم پاکستان کے لئے اوردیگر اُنکی اتحادی جماعتوں،زرداری پارٹی، جے یو آئی فضل الرحمن، جناب امیرسراج الحق جماعت اسلامی جو کل تک عمران خان کے ساتھ دیکھے گئے مگر … ق لیگ، ان کے علاوہ آزاد نمائندے، یہ لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
میرے نزدیک جناب ایاز صادق کا منتخب ہونا وہ تو ہونا ہی تھا مگر مبارک شفقت محمود اور عمران خان بھی کے وہ واحد اپوزیشن جماعت ہے میرے نزدیک اپوزیشن ایک آئینہ ہوتا ہے ،اس دور ہی میں کیا یہ آئینہ ہر زمانے میں انسان کی ضرورت رہا البتہ اس دور میں اسکی گھر اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے ،اپ جب صبح واش روم میں جاتے ہیں تو پہلے سامنے آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر خود کا جائزہ لیتے ہیں شیو کرتے ہیں میں نے دیکھا ہے نسوار لے عادی لوگوں کے نسوار رکھنے کی ڈبیا میں ایک چھوٹاسا آئینہ ہوتا ہے اور نسواری جب اسے کھولتا ہے تو پہلے خود کو دیکھتا ہے اور پھر چٹکی لیتا ہے میں نے یہ بھی دیکھا ہے باریش لوگوں کے پاس بھی ایسا ہی آئینہ ہوتا ہے جس سے وہ بوقت ضرورت داڑھی میں کنگی کرتے ہیں۔
آج کے دور میں تو ہر عورت کے پرس میں آئینہ پہلی ضرورت ہے کہ وہ ہر لمحے خود کو ….اگر آئینہ نہ ہوتا تو کوئی بھی اپنے چہرے کے خدو خال اور وقت کے ساتھ پڑے ڈینٹ نہ دیکھ سکتا اور نہ ہی اُسے سنوار سکتا ،میں دیکھتا ہوں چہرے پر وقت نے ڈینٹ بنا دئے تو یہیینہ کا قصور نہیں کہ میں اُسے توڑ دوں …..یہی حال وقت کے ساتھ جمہوری دور میں اپوزیشن بھی ایک آئینہ ہوتا ہے ،اور اگرآئینہ
(ا پوزیشن)تو حکومت کے لئے اپنے خد وخال کو سنوارنا ناممکن ہوتا، اِس طرح ایک فعال اپوزیشن کا ہونا جمہوریت ،جمہوری حکومت اور ملک میں پھیلے ہوئے تمام اداروں کی تعمیر و ترقی کے لئے ضروری ،اور عوام کے لئے بھی اس کا کردا ر انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ،٢٠٠٨،٢٠١٣،میں فرینڈلی اپزیشن کا کردار بظاہر جمہورت کے لئے کہا جاتا ہے مگر سچ تو ہی کہ جمہوری استحکام کے لئے محض دکھلاوا تھا اصل میں اپنے استحاکم اور اگلی باری میں تنہا حکومت کرنے کے لئے تھا ،تو نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے آج کی اپزیشن پی پی پی وہی کردار ادا کر رہی ہے۔
حکومت کو بھی فری ہینڈ دیا گیا کہ جا چاہے جس چاہے کرے ….اور اب اپوزیشن کا کا کردار چھوٹی سی اپوزیشن پی ٹی آئی ادا کر رہی ہے ،مگر دوسری طرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق جو کل عمران خان کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ںنظر آرہے تھے آج حکمرانو ں کا دیا لالی پوپ چوس رہے ہیں ،کل یہ ق لیگ جو حکومت کی مخالف نظر آ رہی تھی اُس کے منہ میں بھی چوسنی ٹھونس دی گئی ہی ،جو فاٹا ارکان تھے یا آزا د ممبران وہ تو کسی گنتی میں نہیں آتے ،سب ہی پکے ہوئے پھل کی طرح نون لیگ کی جھولی میں گرتے چلے گئے اور میدان میں صرف پی ٹی آئی رہ گئی ،جبکہ کامیابی کا صفر امکان بھی نہیں تھا،اُس نے اپنا پرنالہ وہیں رکھا جہاں پہلے تھا وہ رتی بھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئی ،تاریخ میں وہی لوگ امر ہوئے جو بادِ مخالف سے گھبرا کر اپنی سمت نہیں بدلتے اور بدستور اپنی پرواز اُسی سمت جاری رکھتے ہیں۔
ایک دن کامیابی و کامرانی اُن کے قدم چومنے پر مجبور ہوجاتی ہے ،شفقت محمود صاحب اور خان صاحب ،.Failer is nothng but low aim is a crime خان صاحب یہ آپ کی شکست نہیں بلکہ کامیابی کی طرف پہلا زینہ ہے، پرانی بات مگر ہر زمانے پُر عزم انسانوں کی رہنمائی کے لئے، استاد سبق پڑھا کر امتحان لیتا ہے دنیا امتحان لیکر پھر سبق دیتی ہے آج کے امتحان نے جو سبق دیا وہی کل کی کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے، آج آپ کے دوست اور ابن الوقت واضح ہو گئے ہیں۔
دوسری طرف آرمی چیف نے کور کمانڈر کانفرس میں کہا کہ جاری اپریشن کے لئے قوم کی حمائت کی تعریف کی ،نیز طویل المدت فوائد اور ملک بھر میں دیر پا امن کو یقینی بنانے کے لئے گورننس بھی اسی طرح ہونی چاہئے..آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرس میں ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز ، نیشنل ایکشن پلان اور فاٹا اصلاحات کا جائزہ لیا گیا اس حوالے سے فوج کے سربراہ کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے لئے قائم کی گئی ٹیمیں تر جیحی بنیادوں اپنی تحقیقات مکمل کریں تاخیر اپریشن کو متاثر کر رہی ہے ،دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کے لئے فاتا ریفارمز پر عمل در آمد کو یقینی بنایا جائے، صرف یہی ایک بات کہ جس طرح فوج مستعدی کے ساتھ دن رات ایک کر کے ہر قسم کے حالات میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کام کر رہی ہے۔ سول حکومت اسی طرح اپنی زمہ داری پوری کرے ،اس پر فرینڈلی اپوزیشن لیڈر نے کہا فوج کا ھکومت کے لئے اشارہ ہے۔
سراج الحق نے کہا کور کمانڈر کانفرس میں درست بات کی لیکن ملک میں محض اپریشن سے مسائل حل نہیں ہو نگے ،فوج اور حکومت میں فاصلے بڑھے تو نقصان عوام کا ہوگا ، (عوام کا نقصان نہیں ہوگا وہ حکمرانو ں یا کرپٹ لوگوں کا …..)عوام سے ان کی کیامراد ہے آج تک کسی طرف سے کبھی اُس عوام کی تعریف و تشریح نہیں کی گئی کہ عوام کون ہیں …..حکومتی ترجمان نے یہ کہ کر بات ہی ختم کر دی کہ حکومت عوام کو جواب دہ ہے ادارے اپنی حدود میں رہیں ،اس کا مطلب یہ ہے کہ فوج اپنی حدود سے نکل کر ایسی باتیں کر رہی ہے اُسے اپنی حد میں رہنا چاہئے ،خیر آج تک تو اپنی حدود میں ہے ،ترجمان کس عوام کی بات کر رہے ،مگر عوام تو صبح شام اُس کے لئے دست بہ دعا ہیں آرمی چیف نے تو ایسا کچھ نہیں کہا انہوں نے تو محض آئینہ دکھایا ہے۔
تحریر: ع.م بدر سرحدی