تحریر: عقیل خان
میں جمعہ ادا کرنے مسجد پہنچا تو مولانا صاحب واعظ فرما رہے تھے ان کا موضوع الیکشن تھا۔ وہ فرما رہے تھے کہ مسلمان کو الیکشن میں کس قسم کے لوگوں کو ووٹ دینا چاہیے۔ کیسے لوگ تمہارے لیے بہتر ہیں۔ اسلام کس قسم کے لوگوں کو ووٹ دینے کا حکم دیتا ہے؟ مولانا صاحب جب بیان فرما رہے تھے اسی وقت میرے ذہن میں اپنے سیاستدانوں کے متعلق فلم چلنا شروع ہوگئی اگر میں مولاناصاحب کا بیان سن کر ان کی بات پر عمل کروں تو مجھے ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اوراگر پھر بھی مولانا صاحب کی دوسری بات پر عمل کروں تو ووٹ ڈالا جاناضروری ہے۔ بقول مولانا صاحب کہ” ووٹ اس کو دو جوایماندار ہو ،اسلام کا داعی ہو، شرافت کا پیکر ہو، انصاف پسند ہو ،حق کی بات کرتا ہو۔قرآن و سنت پر عمل کرتا ہو”۔
اگر میں یہ سب کچھ دیکھوں تو آج کے دور میں مجھے بہت کم بلکہ کوئی بھی امیدوار نظر نہیں آتا کیونکہ ہمارے سیاستدان تو پیشہ لوٹ کر دوسرے ملکوںمیں جمع کرتے ہیں۔اور اگر مولانا صاحب کے اس بیان پر عمل کروں ”کہ اگر ایسا شخص نہ ملے تو پھر اس کو ووٹ دوجو ان سب میں سب سے زیادہ افضل ہو” دوسرے ووٹ قوم کی امانت ہے توبھی ووٹ دینا ضروری ہوگیا۔افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جھوٹ کے سہارے کے بغیر ادھورے ہیں۔ انہوں نے عوام کو سہانے سپنے ضروردکھانے ہوتے ہیں مگر ان کی تکمیل ضروری نہیں سمجھتے۔لوکل گورنمنٹ سے لیکر قومی و صوبائی اسمبلی تک سیاسی میدان میں ہیرا پھیری چلتی ہے۔
بلوچستان اور کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات پہلے ہی ہوچکے ہیں ۔اب جب کہ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے اور رزلٹ بھی سب کے سامنے آرہے ہیں جس کے مطابق پنجاب میں ن لیگ ٹاپ پر ہے۔ میں الیکشن رزلٹ کی کوریج دیکھ رہا تھا ۔ نجی چینل پر ایک سیاسی پارٹی کے رہنما بہت دیدہ دلیری سے اپنی شکست کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا رہے تھے۔ بقول ان کے کہ حکومت کی چھتری کے نیچے یہ الیکشن ہوا ہے تو جس کی حکومت ہے اسی نے جیتنا ہے۔ کوئی ان صاحب سے پوچھے کہ کے پی کے اور بلوچستان میں الیکشن کس کی نگرا نی میں ہوئے؟ وہ الیکشن کمیشن کے زیرنگرانی نہیںہوئے توکیا صوبائی حکومتوں کی نگرانی میں ہوئے تھے؟ وہاں کون کونسی پارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی ؟
کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جس طرح کے پی کے اور بلوچستان میںتوقع کے مطابق نتائج سامنے آئے اسی طرح پنجاب اور سندھ میں ویسے ہی نتائج آئیں گے۔ .بلدیاتی انتخابات کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کاسلسلہ جاری ہے۔ پنجاب میں ن لیگ کی نشستوں کی تعداد ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے جبکہ نمبر دو پرآزاد امیدوار ہیں ۔ تحریک انصاف کا نمبر تین ہے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی سرفہرست ہے جبکہ ادھر بھی دوسرے نمبر پر آزادامیدواروں ہیں جب کہ فنکشنل لیگ تیسرے پوزیشن پر ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹی کے بجائے دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار کیوں آرہے ہیں؟اسکی اصل وجہ جاننے کی ضرورت ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بلدیاتی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ شفافیت کے بجائے ذاتی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیے گئے۔بہت سی جگہوں پر مخلص کارکنوں کی بجائے رشتے داروں اور امراء میں بندربانٹ کی گئی۔ الیکشن مہم کے دوران سروے میں معلوم ہوا کہ بہت سے شہروں میں” ن” اور” جنون” کے دو دو امیدواروں کو میدان میںہیں ۔ آزاد الیکشن لڑنے والوں میں بہت کم ایسے لوگوں کو پایا جو واقعی آزاد امیدوار ہیںبلکہ ایک اور بات جو سامنے آئی وہ یہ بھی تھی کہ کچھ ایسے امیدوار بھی تھے جن کوانہی سیاسی پارٹیوں کی اندروں خانہ حمایت حاصل تھی پر وہ آزاد الیکشن لڑرہے ہیں۔
بلدیاتی الیکشن میںسب کو پتا چل گیا کہ کونسا شہر، تحصیل اور ضلع کس پارٹی کاہے۔کسی پارٹی نے بلدیاتی الیکشن میں توقع سے ہٹ کر رزلٹ نہیں دیا۔ پی ٹی آئی جو بلدیاتی الیکشن میںکامیابی کے بلند و بانگ دعوے کررہی تھی اس نے توقع سے بہت زیادہ برا رزلٹ دیا۔نہ وہ پنجاب میں اور نہ ہی ہی سندھ میں کوئی خاص نتائج دے سکی ۔ تحریک انصاف کو نمائشی جلسوں کی سیاست اور پرتعیش کمروں میں بیٹھ کر ”نو رتنوں” کے تراشیدہ فیصلے کرنے کی روایت چھوڑ کر گلی محلوں میں داخل ہونا پڑے گا ورنہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی تحریک انصاف سے جیت کی گاڑی چھوٹ سکتی ہے۔ کپتان اگر واقعی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں کچھ کرنا ہے تو پھر انہیں اپنے دامن کو جھاڑنا ہوگا ورنہ ضمنی اور بلدیاتی الیکشن کی طرح 2018کے جنرل الیکشن میں بھی رزلٹ اسی طرح کا ہوگا۔
دوسری طر ف ”ن ” نے پنجاب میں حکمرانی تو ضرور حاصل کرلی ہے مگر پارٹی قائدین کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ آزاد امیدواروں کا اتنا زیادہ جیتنا بلکل اسی طرح ہے جس طرح اوکاڑہ کے ضمنی الیکشن میں ہوا تھا۔ آج بھی بلدیاتی انتخابات میں بہت سے ن لیگ سے وابستہ امیدواروں نے آزاد الیکشن لڑا کیونکہ ان پر” رشتے داروں” یا ”موٹی”آسامیوں کو ٹکٹ دیا گیا جس کی وجہ سے رزلٹ ”ن” کے خلاف آیا۔ اگر میاں صاحب جس طرح آپ نے اوکاڑہ کے الیکشن پر موقف دیا تھا کہیں دوبارہ آپ کو وہی موقف نہ دھرانا پڑے۔ اس طرح کے فیصلوں سے نہ صرف پارٹی کا نقصان ہے بلکہ 2018 کے الیکشن میں بھی برا اثر پڑسکتا ہے۔
باقی دوسری پارٹیوں کا کردار بلدیاتی انتخابات میں آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پی پی پنجاب میں کسی بھی ضلع میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کرسکی البتہ سندھ میں کارکردگی بہتر ہے جبکہ صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم کا کرداربھی نظر نہیں آیا۔اگر پہلے مرحلے کے بعد ساری صورتحال پر تبصرہ کیا جائے تو پھر” ن ”لیگ پنجا ب ،” پی پی” سندھ اور ”پی ٹی آئی” کے پی کے تک محدود ہوکر رہ گئیں ہیں۔باقی پارٹیاں تانگہ پارٹی بن کر رہ گئیں ہیں۔
تحریر: عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com