تحریر: طارق حسین بٹ
اس میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چائیے کہ ہمارے ہاں بلدیاتی انتخابات ذات، برادری اور قبیلے کی پشت پناہی پر لڑے جاتے ہیں جس میں پیسہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتا ہے۔ پیسے کے بغیر انتخابات کا سوچنا بالکل بے سود ہے۔ غریب آدمی کیلئے انتخابات میں حصہ لینا ایک ایسے شجرِ ممنوعہ کی مانند ہے جس کے سائے تلے بیٹھنا اس کیلئے لا حاصل ہوتا ہے۔وہ لاکھ کوشش کرے کہ وہ فقط کردار کی قوت سے انتخاب جیت جائے تو ایسا نا مکنات میں سے ہو گا لہذا مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس کی فتح کی ساری کوششیں حقیقت کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں اور یوں وہ انتخابات میں کامیابی کی سیرھی چڑھنے سے محروم ہو جاتا ہے۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ایک مخصوص طبقہ ہی انتخابات میں حصہ لیتا ہے جبکہ پاکستانیوں کی اکثریت ان انتخابات سے دور رہتی تا ہے کیونکہ انتخابی اخرجات کو برداشت کرنا ان کی بساط سے باہر ہوتا ہے۔جہاں تک اہلیت کا سوال ہے تو مڈل کلاس کے افراد ہر پیمانے سے اہلیت کے ہر معیار پر پورے اترتے ہیں لیکن دولت کی کمی ان کے آڑے آتی ہے اور یوں نا اہل دولت مند انتخابی مرحلہ سر کر لیتا ہے جبکہ غریب آدمی فقط نعرہ زنی کا رول ادا کرتا رہتا ہے۔
اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ معاشرتی رویوں کا وہ زہر ہے جسے ہر انسان خوشی خو شی پئے جا رہا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس سے معاشرہ زوال پذ یری اور تنزلی کی جانب تیزی سے گامزن ہے جس سے قوم مستقل اقدار سے محروم ہو کر ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہو رہی ہے جہاں اقدار کی نہیں بلکہ دولت کی حکمرانی ہے۔سیانوں کا قول ہے کہ اقدار مر جائیں تو قومیں مر جایا کرتی ہیں۔
مجھے تسلیم ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنا حلقہِ اثر رکھتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں ذاتی ا ثر و رسوخ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جو فتح و شکست کا فیصلہ کرتا ہے۔ہمارے ہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم سارے مشترکہ خاندانی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں جس میں رشتہ داروں کی ایک لمبی لائن ہوتی ہے جو ان انتخابات میں کھل کھلا کر سامنے آتی ہے اور فریقِ مخالف کو نیچا دکھانے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتی ہے جس سے خاندانی دشمنیوں کی بنیاد پڑ جاتی ہے ۔ہر امیدوار یہی سمجھتا ہے کہ اس کیلئے جیت زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لہذا اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان انتخابات میں فاتح ہو کر نکلے تا کہ اس کی عزت بچ جائے اور وہ معاشرے کو منہ دکھانے کے قابل ہو سکے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہر امیدوار نے ایک خود ساختہ مفروضہ گھڑ رکھا ہے جس کی رو سے وہ کسی دوسرے کی جیت کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور یوں اس کی ھٹ دھرمی معاشرے میں بگاڑ کی بنیادیں رکھتی ہے۔یہ سچ ہے کہ جس کا قبیلہ بڑا ہو تا ہے اس کے لئے انتخابی مرحلہ سر کرنا آسان ہو جاتا ہے لیکن اس کے معنی یہ کہاں ہیں کہ ایسا کرنے کیلئے اسلحے کا ستعمال کیا جائے اور مخالف فریق کا جینا دوبھر کر دیا جائے ۔ یورپی ممالک میں مشترکہ خاندانی نظام بالکل ختم ہو چکا ہوا ہے لہذا وہاں پر خاندانی رنجشیں بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے عوام بلدیاتی نظام کے ثمرات سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔مجھے اچی طرح سے یاد ہے کہ ہمارے علاقے میں ایوب خان کے بی ڈی سسٹم سے پروان چڑھنے والی خاندانی دشمنیاں ابھی تک قائم ہیں۔ اب نئے انتخابات سے خاندانی دشمنیوں میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔
بلدیاتی نظام کی افادیت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے لیکن دشمنیوں اور قتل و غارت گری کے ماحول نے اس نظام کی ساری افادیت پر سوالیہ نشان لگا رکھے ہیں ۔ہمارے علاقے میں ابھی انتخابات شروع بھی نہیں ہوئے تھے کہ دنگا فساد نے سارے ماحول کو براگندہ کردیااور لوگوں کو بلا جواز جیل کی ہوا کھانی پڑ گئی انتخا بات کے معنی ہار جیت ہوتے ہیں جس میں کسی ایک کو جیتنا ہوتا ہے لیکن جب ذاتی فتح کو انا کا مسئلہ بنا لیا جائے تو پھر وہی ہوگا جو ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔غیر مہذب رویے اور جمہوری روح کے فقدان نے بلدیاتی انتخابات کی ہمیت کو گہنا دیا ہے لہذاضرورت اس امر کی ہے کہ سارے امیدوار ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور جمہوری رویوں کو مضبوط کرنے کی روش اپنائیں تا کہ معاشرہ خون خرابے سے بچ جائے ۔،۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلدیاتی انتخابات کسی بھی جماعت کی مقبولیت کا پیمانہ نہیں ہوتے جس کا واضح ثبوت آزاد امیدواروں کا کثیر تعداد میں منتخب ہو جانا ہے ۔یہ با ت نوشتہِ دیوار ہے کہ مسلم لیگ (ن ) پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ جماعت پچھلی کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہے اور اس کا حلقہِ اثر بہت وسیع ہے ۔اسے ان تمام با اثر خاندانوں کی حمائت حاصل ہے جن کے مفادات حکو متِ وقت سے جڑے ہوتے ہیں۔فی الحال مسلم لیگ (ن) کے مدِ مقابل کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو اس کے اقتدار کو چیلنج کر سکے۔
کسی زما نے میں پی پی پی پنجاب کی سب سے مضبوط جماعت ہوا کرتی تھی لیکن محترمہ نے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ جماعت زوال پذیر ہو چکی ہے۔آصف علی زرداری کی ذات میں وہ کرشمہ نہیں ہے جو بھٹو خاندان کی ذات کا حصہ تھا لہذا جیالوں کی اکثریت پارٹی سے دور ہو چکی ہے اور پھر آصف علی زرداری کی سیاست کا ایک خاص انداز ہے جسے جیا لو ں نے دل سے قبول نہیں کیا۔جیالے جس طرح کی عوامی سیاست کو فروغ دینا چاہتے ہیں آصف علی زرداری کی شخصیت اس طرح کی سیاست سے کوسوں دور ہے لہذا سوچ کی اس خلیج نے پارٹی قیادت اور جیالوں کو ایک دوسرے سے بہت دور کر دیا ہے اور شائد اسی دوری کا نتیجہ ہے کہ پی پی پی پنجاب سے بالکل ختم ہو گئی ہے۔وہ چند علاقے جہاں سے پی پی پی کے کچھ امیدوار جیت جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ امیدوار اپنے علاقوں کے بے تاج بادشاہ تصور ہوتے ہیں لہذا ان کے لئے کسی جماعت میں ہونا یہ نا ہونا برابر ہوتا ہے۔
ان کا اپنا نام ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے لہذا وہ ہر انتخاب میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اب یہ سیاسی جماعت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ایسے با اثر اور اہم افراد کو کس طرح اپنے دام میں پھانستی ہے۔؟پاکستان تحریکِ انصاف کے چیرمین عمران خان نے بڑی کوششیں کیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے پنجاب سے میاں برادران کے اقتدار کا تایا پانچا کر دیں لیکن تا حال ان کی کوششیں بارآور نہیں ہو سکیں۔یہ سچ ہے کہ عمران خان نو جوا نوں میں مقبول ہیں اور پاکستان کے ترقی پسند حلقے بھی انھیں نجات دہندہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی ۔ اس حقیقت سے انکار کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان طبقاتی تقسیم میں الجھا ہوا ایسا معاشرہ ہے جس میں با اثر طبقات فیصلہ کن حیثیت کے مالک ہیں لہذا جس جماعت میں یہ با اثر افراد شامل ہو جاتے ہیں وہی جماعت اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان ہو جاتی ہے۔جنرل پرویز مشرف ،میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو انہی با اثر افراد کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے جھولے جھولتے رہے ہیں۔اب اگر عمران خان کو بھی اقتدار کی دیوی کو قابو کرنا ہے تو انھیں بھی ان با اثر افراد کے بارے میں نرم گوشہ پیدا کرنا ہو گا۔
یہ ممکن نہیں کہ دریا میں رہیں اور مگر مچھ سے بیر۔یہ طبقات ہماری سیاست کے مگر مچھ ہیں جن کے بغیر سیاست میں کا میابی انتہائی مشکل ہے۔ہر سیاستدان ذولفقار علی بھٹو نہیں ہوا کرتا کہ وہ معمولوں کو شہباز سے لڑا دے۔پھر اس دور کی سیاست کا رنگ ڈھنگ بھی دوسرا تھا جس میں دولت کا عمل دخل اس طرح نہیں تھا جس طرح آج کل ہے۔یہ بھی حیران کن بات ہے کہ دسمبر ١٩٧٠ کے فاتح لیڈر کو بھی مارچ ١٩٧٧میں انہی با اثر خاندانوں کی اعانت اور مدد کی ضرورت پیش آ گئی تھی کیونکہ ان سات سالوں میں سیاست کا آہنگ بدل گیا تھا۔
عمران خان کو اس بات کا ادراک کر لینا چائیے کے مثالیت اور زمینی حقائق میں بڑا فرق ہوتا ہے۔مفکر،فلاسفر ،ادیب اور شاعر مثالیت پسند ہوتا ہے لیکن سیاست دان عملیت پسند ہوتا ہے اور عملیت پسندی کا تقاضہ ہے کہ عمران خان اپنی جماعت کے دروازے ملک کے با اثر افراد کے لئے کھلے رکھیں تا کہ ان کی فتح کے امکانات مزید روشن ہو جائیں ۔اگرعمران خا ن نے ایسا نہ کیا تو یہ پاکستان کی بدقسمتی ہو گی کیونکہ اس طرح قوم ایک مخلص اور دیانت دار سیاست دان کو ضائع کر دے گی۔،۔
تحریر: طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم )