تحریر : ملک نذیر اعون
بعثت نبوی سے پہلے عرب کی سر زمین پر صرف سترہ افراد پڑھے لکھے تھے ان میں سے حضرت عمر ِ بھی تھے ۔ آپ کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا ۔ آپ جس محفل میں جاتے رونق محفل بن جاتے تھے ۔ آپ کا شمار عرب کے متمول خاندان میں ہوتا تھا۔زمانہ جاہلیت میں آپ سخت مزاج ضرور تھے مگر سنگدل ہر گز نہ تھے۔ قُبول اسلام سے پہلے عرب قوم پر آپ کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ اسلام لانے سے پہلے آپ کو عرب عزت و احترام کی نگا ہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ بہت قابل اورذہین شخصیت کے مالک تھے۔بعثت نبوی کو چھ سال گز ر چکے تھے مگر اسلام کو طاقت اور قوت نہ مل سکی ۔آپ کے ایما ن لانے کا واقع مشہورو معروف ہے۔ اور آپ کا اسلام لانا حصور پاک ۖ کی دعاوُں کا ثمر اور معجزہ تھا۔ اس لئے حصورپاک ۖ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ عمر ایمان لے آئیں تاکہ اسلام کو مزید تقویت مل سکے۔
حضرت ابو بکر صدیق نے اپنی زندگی کے آخر ی دنوں میں حضرت عمر کو اپنا جانشین مقرر کیا اور صحابہ کرام سے رائے لی تو صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر کو سخت گیری کے بارے میں بتایا کہ خلیفہ بننے کے بعد وہ سخت ہو جائیں گے۔ تو ابو بکر صدیق نے فرمایا کے وہ سخت مزاج ہیں لیکن جب خلافت کا بار ان پر آئے گا تو وہ نرم ہو جائیں گے۔ اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے حضرت عمر کا انتخاب بھی ضروری ہے اس طرح صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق کی رائے سے اتفاق کر لیا۔ اور پھر تاریخ اسلام کے اوراق نے یہ ثابت کر دکھایا کہ خلیفہ اول اور صحابہ کرام کا فیصلہ حضرت عمر فاروق کے انتخاب میں بالگل درست تھا۔ حضرت عمر فاروق نے جب خلافت سنبھالی تو اس وقت نظام عرب میں کوئی خاص نظام نہیں تھا۔
حضرت عمر فاروق نے مختلف مفتوحہ علاقوںکو صوبوں میںتقسیم کر کے وہاں عمال مقرر کر دیے اور انیں بے حد اختیارات سپر دکیے ۔لیکن اس کے باوجود وہ ان سے عوام کی طرف سے کوئی رعایت نہیں برتتے تھے ۔ اور ایک عام آدمی کی شکایات پر ان اعمال کو طلب کر لیتے تھے ۔ اور ان کا احتساب کر لیتے تھے۔ان کے ہاں قانون کا احترام مکمل طور پر بحال تھا۔ اور کوئی بھی شخص اس سے بیچ نہیں سکتا تھا۔ حضرت عمر فاروق کا دور خلافت مسلمانوں کے طرز حکومت کا بنیادی خاکہ قیام امن کے لیے انہوں نے بولیس کے محکمے قائم کیے۔ آپ کی خلافت سے پہلے عرب محکمہ جیل سے واقف نہ تھےآپ نے جیل خانے قائم کیے عدالتیں قائم کیں اور اس طرح معاشرے کو ایک پر امن نظام دیا آپ مختلف قسم کی آمدیوں کا حساب کتاب۔ آب پاشی کا نطام بیت المال کی وسعت اور اس کا صیع محنوں میں نظم و ضبط علم وقرآن وحدیث و سنت ان سب کے لیے ان کے عہد خلافت ہیں ۔ باقاعدہ اہتمام کیا گیا حضرت عمر کو حضور اکرم ۖ کی بہت قربت حاصل رہی تھی۔
حضرت عمر نے 3600علاقے فطح کیے اور آپ 900جامع مسجد اور 4000عام مساجدتعمیر کرائیں ۔ حضور پاک ۖ نے کئی بار آپ کو اسلامی افواج کا سپہ سالار بھی بنایا دشمنوں پر آپ کی ایسی دھاک بیٹھی تھی کہ وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کر جاتے تھے۔آپ عکسری معاملات میں براہ راست حضور پاک ۖ کے تربیت یافتہ تھے ۔ لہذا خلافت کے منصف پر فائز ہونے کے بعد افوج اسلام کی صیح معنوں میں بنیادیں استوار کیں ۔آپ نے فوجی چھاونیاںبھی بنائٰیں ۔ آپ کے ساڑھے دس سالہ دور خلافت میں کئی بڑے علاقے اور ملک فتح کیے یکم محرم 24ھ شنبہ کے دن حضرت عمر فاروق کی شہادت کا حادثہ پیش آیا وضیت کے مطابق حضرت صہیب نے نماز جنازہ پڑھایا اور حضور ۖ کے پہلو مبارک میں دفن ہوئے حضرت عمر فاروق عدل وانصاف کے پیکر تھے آپ رات کو اٹھ کر گلیو ں میں چکر لگاتے تھے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سویا ہے۔اور آپ نے عدل و انصاف کی مثال قائم کر دی آپ فرماتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے پر کوئی کتا بھی بھوکا اور پیاسا مر گیا تو اس کا بھی عمر جوابدہ ہو گا ۔ اور آپ کے انصاف کی بے شمار مثالیں قائم ہیں اور آپ اپنے گھر میں بھی انصاف کا دامن قائم رکھتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کے میں مسجد نبوی میں حضرت عمر کی بارگاہ اقدس میں حاضر تھا اس دوران ایک عورت اپنے بچے کو پیش کر کے رونے لگی حضرت عمر نے وجہ پوچھی تو اس عورت نے جواب دیا اے امیرالمومنین میں ایک دفعہ بنی نجار کے باغ میں سے گزر رہی تھی آپ کا بیٹا ابو شحمہ نشے کی حالت میں وہاں سے گزرا اور مجھے ورغلا کر باغ میں لے گیا اور مجھ سے برائی کی میں شرم و حیا سے بچنے کے لیے اس کو پوشیدہ رکھا۔ یہا ں تک کے میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا میں نے سوچا کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں مگر مجھے ممتا غالب آئی۔ آپ نے یہ واقعہ سن کر عورت کو کہا کہ آپ منتشر نہ ہوں میں اپنے گھر سے ہو کر آتا ہوں آپ اپنے گھر میں پہنچے تو بیٹا کھانا کھا رہا تھا آپ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ یہ آپ کا آخری کھانا ہے آپ کی باتیں سن کر اُن کے بیٹے کے اوسان خطا ہو گئے ۔آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کے آپ نے شراب پیا ہے بیٹے نے کہا میں نے پیا ہے مگر میں نے توبہ کر لی ہے ۔ اور پھر حضرت عمر نے فرمایا کہ نشے کی حالت میں کسی عورت سے برائی کی ہے تو بیٹے نے شرم و حیا سے اپنا سر نیچے کر لیا۔
آپ نے اپنے بیٹے سے کوگریبان سے پکڑا کہ میرے بیٹے نے اقبال جرم کر لیا ہے ۔ آپ اپنے بیٹے کو مسجد نبوی میں لے گئے اور اس کو 100کو ڑے مارنے کا حکم صادر فرمایا ۔ اور اسی طرح ابوشحمہ کو 100کوڑے پورے کیے گئے۔ ابھی اُن کی ہمت نہ رہی اور ان کے منہ سے چیخ نکلی جو فضا کی پہنایوں میں گم ہو گئی اور یا ابی اسلام علیک کہہ کر وہ گرے اور ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ یہ بھی عدل انصاف کی عظیم مثال ہے ۔کاش آج بھی حضرت عمر فاروق جیسے حکمران ہوں تو یہ ملک دنیا کی مثال ترین سلطنت کا روپ دھار سکتی ہے مگر یہ اس لیے نہیں ہو سکتا کہ بدعنوانوں رشوت خوروں بلیک میلوں اور بدمعاشوں کی ہمداردیاں لینا سیاست دانوں کی مجبوریاں بن جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئی حکمران بھی حضرت عمر فاروق جیساعدل و انصاف مہیا نہیںکر سکتا ۔عمر کے ایمان سے اسلام کو شوکت ملی۔اہل ایمان کو سکون قلب کی دولت ملی۔اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ملک نذیر اعون