اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزیر اعظم عمران خان نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز میں ایک مضمون کے ذریعے مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو دنیا جوہری جنگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔ ذیل میں ہم وزیر اعظم کے لکھے گئے مضمون کا اردو ترجمہ تحریر کر رہے ہیں۔جب وزیر اعظم بنا تو کوشش کی کہ جنوبی ایشیا میں امن لایا جائے اور بھارت کے ساتھ تمام تاریخی اختلافات کے باوجود مل کر غربت، بیروزگاری ، ماحولیاتی تبدیلی اور گلیشیئرز کے پگھلنے جیسے خطرات سے نمٹا جائے۔ میری خواہش تھی کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرکے تجارت کے ذریعے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں۔وزیر اعظم بننے کے بعد قوم سے خطاب میں اور بعد میں تین خطوط کے ذریعے میں نے مودی کو مذاکرات کی دعوت دی لیکن انہوں نے ہماری تمام کوششوں کو یکسر نظر انداز کردیا۔ 14 فروری کو جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج پر خود کش حملہ ہوا تو اس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ، ہم نے اس کا ثبوت مانگا تو مودی نے اپنی ایئر فورس پاکستان بھیج دی ۔ جس کے جواب میں ہم نے ایک انڈین طیارہ مار گرایا اور ان کے پائلٹ کو پکڑ لیا لیکن دو ایٹمی طاقتوں میں امن کی خاطر ہم نے کسی شرط کے بغیر ہی انڈین پائلٹ واپس کردیا۔جب مودی نے الیکشن جیتا تو میں نے ایک بار پھر انہیں مبارکباد کا خط لکھا لیکن انڈیا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جب ہم انڈیا کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کر رہے تھے تو ایسے میں وہ لوگ ہمیں ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کرانے کیلئے لابنگ کر رہے تھے تاکہ پاکستان کو دیوالیہ کرایا جاسکے۔مودی نے ہماری امن کی خواہش کا غلط مطلب نکالا جس کے بعد ہم نے ان کی حکومت کی مخالفت کی۔ ہم ان کی حکومت کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ اس نئے انڈیا کی مخالفت کر رہے ہیں جس پر ہندو نسل پرست آر ایس ایس کا قبضہ ہے۔مودی سمیت کئی بھارتی وزرا اس آر ایس ایس کے باقاعدہ رکن ہیں جس کے ہیرو مسولینی اور ایڈولف ہٹلر ہیں۔ مودی خود بھی آر ایس ایس کے دوسرے سپریم لیڈر ایم ایس گولوالکر کیلئے محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں پوجا کے قابل قرار دے چکے ہیں۔ مودی وزیر اعظم بنے تو مجھے لگا کہ شاید وہ بدل گئے ہوں گے اور اب 2002 جیسے نہیں رہے ہوں گے جب ان کی زیر نگرانی گجرات کے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور ان پر امریکہ کے سفر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ لیکن مودی کے پہلی بار وزیر اعظم بننے کے بعد پورے بھارت میں مسلمانوں ، عیسائیوں اور دلتوں پر ہجومی تشدد کے واقعات دیکھنے میں آئے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کے خلاف ریاستی تشدد میں اضافہ ہوا ، پہلی بار مقبوضہ وادی میں پیلٹ گنز کا استعمال کرکے نوجوانوں کی آنکھوں کی بینائی چھینی گئی۔5 اگست کو مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت فراہم کرنے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کردیا جو کہ انڈیا کے آئین کی بھی خلاف ورزی ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بھارت کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مودی کے ’ نئے انڈیا‘ میں اس کام کو کشمیر میں کرفیو کے ذریعے ساری آبادی کو قیدی بنانے ، ان کے ٹیلی فون کاٹنے ، انٹرنیٹ اور ٹی وی کنکشن منقطع کرکے انجام دیا گیا ہے۔ کشمیر کے محاصرے کے دوران ہزاروں لوگوں کو انڈیا کے عقوبت خاتوں میں قید کردیا گیا اور جب بھی کرفیو اٹھایا جائےگا تو مقبوضہ وادی میں قتل عام کا خدشہ ہے۔پہلے بھی حالات یہ ہیں کہ جو کشمیری گھر سے باہر آتا ہے اس کو قتل کیا جارہا ہے۔اگر دنیا کشمیر اور اس کے لوگوں پر بھارتی مظالم کو نہیں روکتی تو اس کے نتائج پوری دنیا کو بھگتنا ہوں گے کیونکہ دو ایٹمی طاقتیں براہ راست جنگ کے انتہائی قریب پہنچ جائیں گی۔ بھارتی وزیر دفاع پہلے ہی یہ کہہ کر پاکستان کو ایٹمی حملے کی دھمکی دے چکے ہیں کہ مستقبل میں بھارت حالات کو دیکھتے ہوئے نیوکلیئر ہتھیاروں کے پہلے استعمال کی پالیسی پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔ اسی طرح کے بیانات انڈین لیڈرز کی طرف سے مسلسل آتے رہتے ہیں ۔ایک ایسے وقت میں جب ایٹمی جنگ کے سائے جنوبی ایشیا پر گہرے ہوتے جارہے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کو کشمیر ، سٹریٹجک معاملات اور تجارت پر مذاکرات کی طرف بڑھنا چاہیے۔ کشمیر پر مذاکرات میں تمام سٹیک ہولڈرز بالخصوص کشمیریوں کو شامل کیا جائے ۔ ہم پہلے بھی اس پر مختلف حل نکال چکے ہیں تاکہ کشمیریوں کے ساتھ سکیورٹی کونسل اور انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی جانب سے یقین دلائے گئے حق خود ارادیت کا وعدہ وفا کیا جاسکے۔مذاکرات کے ذریعے تمام سٹیک ہولڈرز ایک ایسا حل نکال سکتے ہیں جس کے ذریعے کشمیریوں پر دہائیوں سے جاری مظالم کا خاتمہ ہوسکے اور خطے میں امن قائم کیا جاسکے۔ مذاکرات صرف اسی صورت ہوسکتے ہیں جب انڈیا کشمیر پر اٹھایا گیا اپنا غیر قانونی اقدام واپس لے ، کرفیو اور لاک ڈاﺅن کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کو واپس بیرکوں میں لے جائے۔یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ عالمی برادری کو صرف تجارت اور تجارتی فوائد سے آگے جا کر سوچنا ہوگا کیونکہ دوسری جنگ عظیم میونخ میں خوشامدانہ پالیسی کی وجہ سے شروع ہوئی تھی ، اسی طرح کا خطرہ اب بھی دنیا کو گھیرے میں لیے ہوئے لیکن اب کی بار فرق یہ ہے کہ یہ خطرہ نیوکلیئر کے سائے میں ہے۔