تحریر : عرفانہ ملک
انسان سُرساز کا اتنا شیدائی ہے کہ جب کئی ڈھول پڑے یا گھنگروں کی چھن چھن سنائی دے تو وہ اس میں روحانی گرفتہ نظر آتا ہے۔ کچھ کا تو روزگار اس پیشے سے منسوب ہو کر رہ گیا ہے یوں ہر شخص نے کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کر رکھا ہے کوئی ناچتا ہے تو کوئی نچواتا ہے۔ حقیقت میں سب اس پاپی پیٹ کے پجاری ہیں۔
پیشہ تو ایک ہی ہے مگر شکلیں ضرور جداجداہیں۔ جیسے آج کل کی شادیاںبھی اس جدید طرز کی بنیاد پر طے پاتی ہیں۔کہ لوگ اپنے پروگراموں کے لئے ایک ماہ قبل ہال وغیرہ کی بکنگ کر بیٹھتے ہیں۔لوگوں کے اس رویے نے کئی افراد کا روزگار چھین لیا ہے۔اوراوپر سے ہالوں میں جدید طرز کے بینڈز نے ان لوگوں کو آگے آنے اور معاشرہ میں بڑھنے سے یکسرروک لیاہے جن کو معاشرہ میںکسی شعبہ میں نہیں چھوڑاجاتا۔ہاںمیرا اشارہ ایسی مُورت کی طرف ہے جو اپنی صورت کو اوراپنے آپ کو جتنابھی سجالے ۔مگر اس کے وجود کونہیںمانا جاتا۔یہ کون ہیں نہ مرد ہے نہ عورت ۔پھرکون ہیں؟اس کون سے انہیں کوئی نہیں نکال سکتا۔
اس میں کچھ تو شوقیہ اس کام کو اپنائے ہوئے ہیں۔کچھ فطری طورپر اورکچھ اوروںکی دیکھادیکھی بن جاتے ہیں۔مگر جو فطری طورپر ہیں ان کامقام ضروربلند ہے۔کچھ کا تو کہناہے کہ ان کی دعائیں بددعائیں ضرورپوری ہوتی ہیں۔اورپوری کیونکر نہ ہونگی ان کی زندگی جواتنی لعن طعن کی چکی میںپس رہی ہے۔کہ جب وہ ہمارے ہمارے سامنے ناچ گانا کرتے ہیں۔توان کی ایک آنکھ ہنستی اورایک روتی ہے۔کوئی توتھوڑی دیرکے لئے قبول کرلیتاہے۔اورنہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کہتاہے یہ گیت سنا دو۔اس پر ناچ اورجب کوئی دونوں صورتوںمیںنہیں کر تا تو بے چاروںکو دھکے دے کر محفل سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس پر وہ بے چارے بڑے پیارسے جواب دے کر دادوصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی ا ن کا ذریعہ معاش ہے۔اصل میں ان کا ذریعہ معا ش تو وہ دھکے ہیں وہ لعن طعن ہے جو زمانہ انہیں دیتاہے ۔مگر افسوس ہماری خودغرض انہیں دیکھ نہیںپاتی۔یہ ایک کڑوا سچ ہے وہ ہماری طرح ہی تو انسان ہیں۔پھر فرق کیاہے؟جو ہمیں اس رویے پر مجبور ہوناپڑتاہے میری ملاقات کچھ دن پہلے ایک خواجہ سراء سے ہوئی جس نے مجھے اپنے روزمرہ کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں کہ باجی ہم میں بہت پیار،تہذیب اورمحبت پائی جاتی ہے مگر لوگوںکو نظرنہیں آتی ۔یہ ہم نے کہاں سے سیکھی آج تک کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیںکی۔ہمیں لوگوںکے دھکے دل پر لگتے ہیںمگر کیاکریں جینا بھی ہیں ۔اس لئے برداشت کرلیتے ہیں۔ہم خوارہوکر کچھ پیسے کماتے ہیں،پھر وہ پیسے اپنے گروکے سامنے رکھتے ہیں۔
سب مل کردعا کرتے ہیں پھر ان پیسوں کا ایک حصہ اللہ کے نام کا نکالتے ہیں۔اورباقی ہم اپنے اپنے چھوٹے موٹے اخراجات کے لئے رکھ لیتے ہیں۔تاکہ دواداروں وغیرہ بھی ہوسکے۔اورروز کا خرچہ بھی۔اتنے میں کوئی جرم کی زندگی نہیں اختیار کر سکتا ۔ایسی کٹ پتلی کہ ناچ میںہمارا گزاراہوجاتاہے۔مگر جدید میوزیکل پارٹیوںنے ہمیں اس فیلڈ سے بھی نکال دیا۔اب لوگ ہمیں ان کے مقابلے میںکہاں پسند کرسکتے ہیں۔
ہماری زندگی کی تو ہر صبح ایک نئی ذلت اپنے ساتھ توکئی اندھیرے لے کر آتی ہے۔ہمارے پیچھے لوگوںکی آوازیں کسنا اورمذاق کئے بنا نہ رہنا کوئی نیا نہیں۔معاشرہ کے لوگ خود بھی نہیںجانتے کہ وہ انکے معیار پر اترنے کے لئے جواب پھر بھی پیارسے دیتے ہیں۔ہمیںگھرسے اتنی تہذیب سکھا دی گئی ہے ۔کہ ہماری صبح کا آغاز اسی مراة العروس سے ہوتاہے اوراسی پرختم بھی ہو جاتا ہے۔
تحریر : عرفانہ ملک