لاہور; نامور خاتون کالم نگا ر طیبہ ضیاء چیمہ اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔بیوی کی قدر کرنا سیکھیں۔ بیوی بڑی کام کی چیز ہے۔شوہر کی کامیابی میں بیوی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ کوئی مری ہوئی بیوی کا نام لے لے کر صدر بن گیا۔
کوئی بیمار بیوی کا نام لے کر سزا سے بچنا چاہتا ہے۔ کوئی بیوی کے اشاروں پر چل کے وزیراعظم بننا چاہ رہا ہے۔ عقلمند اور روحانی وہی قرار پایا جاتا ہے جو بیوی کو مرشد و مسیحا مان لے۔ ایک بے عقل شوہر نے بیوی کی خیریت پوچھنے کے لئے واٹس ایپ پر لکھا “ کیسا ہے سر درد ؟ لیکن غلطی سے لکھا گیا “ کیسی ہو سر درد ؟ بس پھر کیا تھا چار برس ہو گئے ہیں وہ شوہر آدھے سر درد کے عارضے میں مبتلا ہے۔ زن مریدی میں ہی عافیت ہے۔ ہر کامیاب مرد کے پیچھے بیوی ہے اور ہر برباد تباہ حال کے پیچھے بھی بیوی ہے۔بیوی نما مخلوق گھر لاتے ہی توہم پرستی کا آغاز ہو جاتاہے۔۔جب دلہن اپنے سسرال پہنچتی ہے تو دولہا اور دلہن کو گھر میں داخل ہونے سے پہلے روک لیا جاتا ہے۔ پہلے تیل کو سر پر سے وارا جاتا ہے اور پھر وہ تیل دروازے کے دونوں کونوں میں ڈالا جاتا ہے۔اس سے یہ شگون لیا جاتا ہے کہ دلہن کے قدم خیر وبر کت کا سبب بنیں۔۔دلہن کی رخصتی کے وقت دلہن کے ایک برتن میں چاول دیے جاتے ہیں جو وہ گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے اپنے
پیچھے پھینکتی ہے اس کے پیچھے یہ خیال ہے کہ دلہن اپنے ماں باپ کارزق انہی کے گھر چھوڑے جا رہی ہے۔ اور ساتھ کچھ نہیں لے کر جا رہی۔۔قرآن کے سائے تلے بیٹی کو رخصت کرنے کا ایک یہ بھی تصور پایا جاتا ہے کہ اس سے اس کی آنے والی زندگی خوشگوار گزرے گی۔ایک آدمی نے مولوی صاحب سے سوال کیا ”کیا روزے کی حالت میں بیوی کو I LOVE U بول سکتے ہیں؟ مولوی صاحب نے کہا “دو باتوں کا خیال رکھنا لازمی ھے۔ اگر کسی اور کی بیوی ہو اور اس کے شوہر کو پتہ چل گیا تو پٹائی کے دوران خون نکلنے سے روزہ ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر بیوی آپ کی ہے تو یاد رکھیں کہ جھوٹ بولنے سے روزہ مکروہ ہو سکتا ہے”۔۔۔سحر اور جادو کو بھی روحانیت کہا اور سمجھا جانے لگا ہے۔عمران خان نے اپنی تیسری شادی روحانیت کے اشاروں کی روشنی میں کی ہے جس کے بعد وہ اپنی زندگی میں مذہبی رنگ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز وہ اپنی زوجہ کے ہمراہ پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر پہنچے۔ دونوں میاں بیوی ننگے پاو¿ں مزار تک گئے اور داخلے سے پہلے بیوی نے چوکھٹ پر متھا ٹیکا جس
کے بعد عمران خان نے بھی سجدہ نما متھا ٹیکا لیکن سیال شریف گئے تو وہاں ایسی کوئی حرکت نہیں کی کیونکہ بیگم ساتھ نہ تھی ورنہ مزید ویڈیوز منظر عام پر آجاتیں۔ کروڑوں مشرکین کو مشرف بہ اسلام کرنے والے معتبر اولیا اللہ کی درگاہوں پر عقیدت سے متھا ٹیکنے کا کلچر برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں معیوب نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی اسے سجدہ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکپتن میں بابا فرید الدین گنج شکرؒ کی درگاہ پر یہ منظر معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ لیکن عمران خان چونکہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر اور رول ماڈل سمجھے جاتے ہیں لہٰذا اس واقعے نے میڈیا میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ مسلک ذاتی عقیدہ پر مبنی حساس معاملہ ہوتا ہے لیکن پاکستان کیا دنیا بھر میں لیڈر پبلک پراپرٹی سمجھے جاتے ہیں، ذاتی زندگی مذہب مسلک ہر ایکشن پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خاتون صحافی نے خبر دی تھی کہ عمران خان کی بیوی بنی گالہ کی چھت پر باقاعدگی سے گوشت رکھواتی ہیں جو ان کے کہنے کے مطابق جنات کھاتے ہیں۔ عوامی لیڈر کی جانب سے توہم پرستی اور ضعف الاعتقادی کا یہ پہلا واقعہ
نہیں ہے۔ پاکستانی سیاست میں توہم پرستی نئی نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ گدی نشین خاندانوں کی سیاست میں موجودگی ہے۔ سیاستدان بھی اس کمزوری سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ عوامی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے کسی نہ کسی درگاہ پر پہنچے نظر آتے ہیں۔عمران خان صاحب کو کچھ عرصہ قبل چار مقدمات میں ضمانت ملی۔ خوشی ان کے چہرے سے عیاں تھی اور اسی جوش خطابت میں فرمایا کہ تمام نجومیوں نے کہہ دیا ہے کہ اگلی حکومت تحریک انصاف کی ہو گی۔ اس سے آپ ہمارے بڑے سیاستدانوں کی توہم پرستی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ عاصم حفیظ لکھتا ہے کہ کاش کوئی انہیں سمجھاتا کہ محترم عمران خان صاحب حکومت کے لئے محنت کریں، کوشش کریں، عوام کے پاس جائیں، انتخاب جیتیں، ایمان تو خراب نہ کریں، نجومی اگر کسی کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوتے تو خود سڑکوں پر طوطے فال نہ نکال رہے ہوتے، اگر ان کی پیشن گوئیاں سچ ہوتیں تو کوئی بھی غریب ومحروم نہ رہتا کیونکہ یہ بیچارے تو پیسہ دیکھ کر پیشن گوئی بدل دیتے ہیں ، سیاسی جنگ کو سیاست سے لڑنا چاہیے ، توہم پرستی سے نہیں۔ عمران خان صاحب اس حمام میں اکیلے نہیں ہیں۔ زرداری صاحب
نے اپنے مرشد کو ایوان صدر میں ہی مستقل ٹھکانہ دیا ہوا تھا۔ وہ ہر روز مرشد کے مشورے سے ہی معمولات سرانجام دیتے۔ بلکہ اکثر اوقات تو عجیب و غریب معاملہ بھی بن جاتا کہ مرشد انہیں کراچی میں قیام کا مشورہ دیتے تو زرداری صاحب اہم حکومتی فرائض چھوڑ کر سمندری پانی کی قربت سے بلاو¿ں کو ٹال رہے ہوتے۔ ایوان صدر سے رخصت ہوتے ہوئے ان کی گاڑی کو دم کرنے کی تصویر تمام ملکی اخبارات میں چھپی تھی۔ اسی طرح زرداری صاحب اپنی منت پوری ہونے پر سرکاری خرچے اور پروٹوکول سے بھارت اجمیر شریف کی درگاہ بھی گئے تھے۔ سنا ہے یہی پیر صاحب اس سے پہلے صدر مشرف کو بھی فیضیاب کرتے رہے اور بعدازاں نواز شریف نے بھی درخواست کی تھی لیکن انہوں نے زرداری صاحب کی محبت میں انکار کر دیا۔ پی پی دور کے ہی ایک وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سرکاری ہیلی کاپٹر پر اپنے مرشد کو سلام کرنے جاتے تھے۔ نواز شریف اور بے نظیر دونوں ایک ہی پیر سے چھڑیاں کھا کر حکومت کے حصول کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ، شاہ محمود قریشی، فیصل صالح حیات اور دیگر کئی سیاستدان تو خود گدی نشین ہیں۔ جیسے ہی عرس
وغیرہ کا موقعہ آتا ہے تو یہ سب روایتی پگڑیاں پہن کر نذرانے وصول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کچھ عرصے پہلے سندھ تشریف لے گئے تو ان کے مریدین نے عقیدت کے اظہار کے لئے پیر صاحب کی مہنگی گاڑی کے گزرنے کے لئے گھر کی چادریں راستے میں بچھائیں تھیں۔ اسحاق ڈار صرف ماہر معاشیات اور دبئی وغیرہ میں پلازے بنانے کے ہی ماہر نہیں بلکہ وہ لاہور داتا دربار کے متولی بھی ہیں۔ بلکہ ان کے اثاثہ جات میں جس ٹرسٹ کو بھاری رقوم کی منتقلی کا تذکرہ ہو رہا ہے وہ بھی اسی سے منسلک ہے۔ پیر پگاڑا ہماری ملکی سیاست کے اہم ترین کردار رہے ہیں۔ ان کی پیشن گوئیاں بھی زبان زدعام رہتی ہیں۔ کسی کو اپنی سیاست چمکانی ہوتو وہ خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں۔ حتی کہ ملک کو چلانے کی ذمہ داری تک اٹھانے کا وعدہ کر بیٹھتے ہیں۔ اپنے سیاسی جلسے جلوسوں کو “حسینی لشکر” قرار دینے سے نہیں چوکتے اور تمام مخالفین کو “یزیدی”۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں یزیدیوں سے معاہدہ کرنے میں بھی برائی محسوس نہیں کرتے۔ ہماری سیاست کے روپ نرالے ہیں اور سیاستدان انتہائی
خوش قسمت۔ جب چاہیں جو چاہیں روپ دھار لیتے ہیں۔ امریکہ یورپ جاتے ہیں تو پورے مغربی بن کر انہیں اپنائیت کا احساس دلاتے ہیں۔ رمضان، ربیع الاول اور محرم میں عوامی خواہشات کے مطابق مذہبی روپ دھار کر متاثر کر دیتے ہیں۔ ماڈرن بننے پہ آئیں تو مغرب کے کہنے پر روشن خیالی کی لہر چلا دیتے ہیں ، مذہبی روپ دکھانا ہو تو اپنے ہاتھوں سے میلاد کی نیاز بانٹ کرمتاثر کرتے ہیں ، کبھی بہشتی دروازے کے وی آئی پی روٹ سے گزرتے نظر آتے ہیں تو کبھی کسی محفل نعت میں جھوم کر اپنے عشق کا اظہار کرتے ، حتیٰ کہ اب تو کبھی حج و عمرے پر بھی تشریف لے جائیں تو ساتھ اچھا فوٹو گرافر لے جانا نہیں بھولتے تاکہ ان کی خشوع و خضوع سے کی گئی عبادات سے “پاکستانی عوام” محروم نہ رہ سکیں۔ ہمارے سیاستدان واقعی خوش قسمت ہیں کہ بھولے بھالے عوام انہیں ہر روپ میں سرآنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں ۔ سب بھول جاتے ہیں اور پھر سے اعتماد کر لیتی ہے۔ آج بھی ہمارے بڑے بڑے لیڈر توہم پرستی کے ذریعے اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ رہے ہیں اور عوام یقین کئے جا رہی ہے۔ اقتدار ملنا یا نہ ملنا الگ بات ہے کم سے کم ایمان کا خیال تو رکھنا چاہیے کیونکہ نجومیوں کی پیشن گوئیوں اور تعویذ و دم سے حصول اقتدار کی خواہش رکھنا کچھ اتنا بھی قابل تعریف نہیں ہے۔