اسلام آباد(ویب ڈیسک)سپریم کورٹ نے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے لفظ دہشتگردی کی جامع تعریف اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ سیون اے کے تحت درج کئے گئے فوجداری مقدمات کے قابل صلح یا ناقابل صلح ہونے کامعاملہ طے کرنے سے متعلق کیس کی طویل سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جبکہ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ قتل اور دہشتگردی دو الگ الگ جرائم ہیں،اگر قتل میں صلح ہوبھی جائے تو دہشتگردی کا جرم ختم نہیں ہوتا ہے ، اگر صلح کی وجہ سے سزا معاف بھی ہو جائے تو جرم موجود رہتا ہے ،یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے، ایک جانب قانون ہے اور دوسری جانب ہمارے پاس اسی قانون کے دیے گئے محدود اختیارات ہیں ، انصاف قانون کے مطابق ہوتا ہے ،یہ قانون سے ماوراء نہیں ہوتا ہے ،انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کسی بھی مرحلے پرکسی بھی فیصلے میں اپنے طور پر درستگی کرنا چاہے تو اس پر ری وزٹ کرسکتی ہے لیکن کسی درخواست گزار کو نظر ثانی کی درخواست نمٹائے جانے کے بعد نئی درخواست دائر کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا ہے ،حصول انصاف کے لئے بھی ہم خود کوئی دائرہ کار ایجاد نہیں کرسکتے ہیں، ہم آئین میں دیے گئے فریم کے اندر ہی رہ کر کھیل سکتے ہیں، نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ جاری ہونے کے بعد کیس حتمی صورت اختیار کرلیتا ہے ،چیف جسٹس کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے کہاکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سیون اے کے تحت درج کئے گئے مقدمات میں صلح نہیں ہو سکتی ، صلح کی صورت میں بھی ہم قانون کو تبدیل نہیں کرسکتے ہیں، اس سلسلے میں پارلیمنٹ ہی کوئی راستہ بناسکتی ہے ،عدالت کے پاس اس کا کوئی اختیار نہیں ہے عدالت کے پاس یہی ایک راستہ ہے کہ وہ صدر سے سزا میں نرمی کی سفارش کرسکتی ، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں بھی نئے شواہد پر سپریم کورٹ نے کیس ری اوپن نہیں کیا تھا بلکہ صدر کو سفارش کی تھی کی وہ رحم کی اپیل پر سزا میں نرمی پر غور کر یں، شاہد نذیر ایڈوکیٹ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں فرقہ ورانہ دہشت گردی اور بہیمانہ جرائم کو اکٹھا کرنے کی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہوا ہے ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ اس قانون میں مختلف اوقات میں پانچ ترامیم کرکے تعزیرات پاکستان کے سارے جرائم ہی انسداد دہشت گردی ایکٹ میں شامل کردیے ہیں،اب کوئی کیسے اس قانون کی تشریح کرے ؟انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے اس میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جلسے جلوس پر حملہ بھی دہشت گردی ہے ، انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں متعدد بار ترامیم کرکے اس میں ابہام پیدا کردیا گیا ہے ، ہر جرم دہشت گردی نہیں ہوتا ہے ، اغواء برائے تاوان یا ریپ کا دہشتگردی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ پولیس صرف مدعی کو مطمئن کرنے کے لئے ان وارداتوں میں بھی سیون اے ٹی اے لگا دیتی ہے،انہوں نے کہاکہ انسداد دہشت گردی قانون کی وسیع تشریح کرنا پڑے گی، کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معاشرے میں عدم تحفظ پھیلا نا ہی دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے، ویسے تو ہر جرم سے ہی معاشرے میں عدم تحفظ پھیلنے کا باعث بنتا ہے، اگر کسی محلے میں چوری ہو جائے تو پورا محلہ ہی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے، تاہم اگر کوئی جرم معاشرے میں مجموعی طور پرعدم تحفظ پھیلانے کی نیت کیا جائے تو یہ دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے، جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کو ذاتی دشمنی کی بنیاد پر بازار کے اندر قتل کرنے کے لئے فائرنگ کرتا ہے اور اپنے شکار کے علاوہ بھی پندرہ لوگوں کی جان لے لیتا ہے تو یہ بھی دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے ،جسٹس منصور علی شا ہ نے کہاکہ ایک شخص نے منصوبے کے تحت قتل کیا تو وہ دہشت گردی ہوگی، اگر کسی شخص کا دشمن پٹرول پمپ پر کھڑا ہے، اور وہ اس پر گولی چلاتا ہے، جوکہ اسے لگ کر پٹرول کے ٹینک کو لگ جاتی ہے،پٹرول پمپ پر دھماکہ ہوجاتا ہے،تین چار گاڑیاں تباہ ہوجاتی ہیں تو کیا یہ دھشت گردی نہیں ہوگی؟ نتائج کو کنٹرول کرنا کسی مجرم کے اختیار میں نہیں ہوتاہے، انہوں نے مزید کہاکہ یہ یہی گولی گورنمنٹ سیکریٹریٹ پر کھڑے پٹرول کے ٹنک کو لگ جائے تو کیا اسے حکومت گرانے کی سازش سمجھا جائے گا؟انہوں نے کہاکہ جرم کے نتائج سے نیت کو نہیں جانچا جا سکتا ہے، دوران سماعت برہان معظم ایڈوکیٹ نے کہاکہ دہشت گردی کے اصل مقدمات تو فوجی عدالتوں میں بھی بھیجے جاتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اقوام متحدہ بھی ابھی تک دہشت گردی کی جامع تعریف نہیں کر سکا ہے جبکہ امریکہ بھی ابھی تک دہشت گردی کی تعریف سے متعلق حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکا ہے ،انہوں نے کہا کہ جب کسی واردات کے بارے میں میڈیا پر بہت شور اٹھے