امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق وارمبیئر تقریباً ڈیڑھ سال پہلے شمالی کوریا گیا تھا جہاں اس پر ہوٹل کی لابی سے سیاسی پوسٹر چرانے کا الزام لگا کر اسے حراست میں لے کر قید میں ڈال دیا گیا تھا۔
ڈیڑھ سال تک شمالی کوریائی جیل میں قید رکھنے کے بعد گزشتہ ہفتے وارمبیئر کو رہا کردیا گیا تھا لیکن اس کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ پچھلے ہفتے جس دن سے وہ امریکا پہنچا تھا، اسی دن سے مسلسل بے ہوش تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق، شمالی کوریائی جیل میں اس پر انتہائی نوعیت کا جسمانی تشدد کیا گیا تھا جبکہ خصوصاً اس کے سر پر شدید ضربیں لگائی گئی تھیں جن کے نتیجے میں وارمبیئر کے دماغ پر گہری چوٹ آئی تھی۔ اس سے پہلے کہ اس دماغی چوٹ کا درست تعین ہو پاتا، وارمبیئر بے ہوشی کی حالت میں زندگی کی بازی ہار گیا۔ وارمبیئر کے اہلِ خانہ نے امریکی میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ شمالی کوریا میں جو بے رحمانہ سلوک کیا گیا، اس کا نتیجہ صرف موت ہی کی صورت میں نکل سکتا تھا۔ امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اوٹو وارمبیئر کی موت سے شمالی کوریا اور امریکا کے مابین تلخ تعلقات میں مزید تلخی آئے گی کیونکہ اس وقت بھی مختلف الزامات کے تحت کم از کم مزید 3 امریکی شہری، شمالی کوریا میں قید ہیں جن کی رہائی کےلیے بات چیت جاری ہے۔