دور حاضر یقینا ترقی یافتہ دور ہے۔ مگر ہم اخلاقی سطح پر پوری طرح سے تنزلی کا شکار ہیں ۔انسانی خون ہمارے معاشرے میں انتہائی ارزاں ہے۔جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں یہاں روزانہ کی بنیاد پر متعدد واقعات پیش آتے ہیں۔ان واقعات میں معصوم جانیں ہلاک کر دی جاتی ہیں۔
جن کا کوئی بھی پرسان حال نہیں ہوتا۔اگرچہ مرکزی شہروں میں بھی معمولی واقعات اخبارات کی شہ سرخی بن جاتے ہیں ٹی وی چینلز پر ان واقعات کو بطور خاص ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے ۔جن پر چیف جسٹس وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ صاحب نوٹس لے کر متعلقہ محکمہ کے سر براہ سے رپورٹ طلب کر لیتے ہیں یا اعلیٰ حکومتی اور سرکاری عہدیداران موقع پر پہنچ کر اپنی ہی نگرانی میں کارروائی کراتے ہیںمگر ایوان ہائے اقتدار سے انتہائی دور ضلع ڈیرہ غازی خان سرکار کی عدم توجہی کا شکار ہے ۔یہاں سرداروں جاگیر داروں اور بدمعاشوں کی حکومت ہے ۔قانون نام کی کسی چیز کا نفاذ نہ ہے ۔مقامی تھانوں میں مدعی کو ہراساں کیا جاتا ہے ۔حتیٰ کہ مدعی /مظلوم بے چارا پولیس اور جاگیردارانہ نظام کے تشدد کا بر سر عام شکار ہوتا ہے۔
قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ناانصافی کی تلوار ہمیشہ مدعی پر لٹکتی ہے جبکہ شک سمیت تمام تر فائدے مجرم کو ملتے ہیں۔9مارچ 2017ء کا دن چوٹی زیریں کے لیئے سیاہ دن تصور ہو گا کیونکہ اس دن حدود تھانہ چوٹی زیریں میں نہایت ہی لرزہ خیز واقعہ رونما ء ہوا۔
آرمی پبلک سکول پشاور میں تو لاتعداد معصوم بچوں کو دہشت گردوں نے بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا تھا۔9مارچ 2017ء کو بھی حدود تھانہ چوٹی زیریں۔موضع نواں شمالی میں تیسری جماعت میں زیر تعلیم دس۔گیارہ سالہ معصوم حسیب کو بھی دن دیہاڑے تیز دھار آلات کے ساتھ پے در پے وار کر کے شہید کر دیا گیا۔
مقامی پولیس نے اسی روز مقدمہ نمبر 62/17بجرم 302/34ت پ درج کر دیا ۔اس وقت نامزد ملزمان بھی پولیس حراست میں ہیں ۔اہالیان علاقہ نے امید ظاہر کی کہ ایماندارانہ تفتیش ہو گی اور ساتھ ہی مجاز حکام سے یہ امیدیں بھی وابستہ ہیں کہ معصوم حسیب کے قاتل بھی بے نقاب ہوں اور اس قتل کی وجوہات کا بھی انکشاف ہوگا ۔جو متعلقہ تفتیشی حکام پر منحصر ہے۔
شہریوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے پر زور شکایت کرتے ہوئے کہا کہ کیا ضلع ڈیرہ غازی خان پاکستان کا حصہ نہیں ہے یا ضلع ہذا ء پنجاب کا ضلع نہیں ہے کہ انہوں نے مذکورہ قتل پر کوئی نوٹس نہیں لیا۔۔۔۔۔۔؟