تحریر : عفت
مرشد نے بارہا مجھے ایک ہی نصیحت کی کہ عام لوگوں کی بات کرو عام لوگوں کی بات لکھو ۔وہ خود بھی ساری عمر عوامی رہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے رہے اور کر رہے ہیں ۔ہم اہل ِقلم کا ہتھیار قلم ہی ہے جو لوگوں کے حال کو بزبان ِقلم صفحہ قرطاس پہ بکھیرتا ہے ۔مگر نہ ملک کی تقدیر بدلتی نظر آئی نہ غریب عوام کی ۔ اب ملکی حالات اس نہج پہ پہنچ گئے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے بند،مختلف اداروں کے احتجاجات، گیس بجلی پانی کی لوڈ شیڈنگ اور عوام سڑکوں پہ ان حکمرانوں کو کوسنے دیتی ہوئی،توڑ پھوڑ کرتی ہوئی ،ہر طرف دہشت کا بازار گرم ہے اس پہ طرہ یہ کہ ہمارے سیاست دان حسب ِ معمول بے تکی باتوں پہ بحث کرتے نظر آتے ہیں ۔کبھی سگریٹ نوشی پہ بحث کبھی انگوٹھی پہ کہاں سے آئی کس نے پہنائی پہ ،کبھی مذمتیں نہ کرنے کی دہائی ،کراچی میں ایم ۔کیو ایم ،الطاف بھائی کی تحریر و تقریر پہ پابندی کے نتیجے میں سڑکوں پہ نکلنے پہ تیار ،،سارا ملک بلاوجہ انتشار کی زد میں ہے درحقیقت فوج کے علاوہ کسی کو اس ملک کے بارے میں کسی قسم کی تشویش نہیں۔
اب وہ سرحدوں کی حفاظت بھی کرے اندرونی معاملات سے بھی نمٹے اور عوام کی حفاظت بھی کرے تو ایسی صورتحال میں سب وزراء گھر بیٹھ جائیں ۔کیونکہ وہ سوائے ایک دوسرے پہ پھبتیاں کسنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے جب یہی کرنا ہے تو اس کے لیے ایوان سجانے کی کیا ضرورت ہے ان کے پروٹوکولز پہ جو تخمینہ لگتا اس سے کئی گھروں کا چولھا جل سکتا ہے۔جب ملک حالت ِ جنگ میں ہے تو کیا ان فضول حرکات کے بجائے ملکی حالات پہ توجہ دیں تھر میں بھوک اور بیماری سے بلکتے بچوں کو دیکھیں ۔عوام کے اور ملک کے تحفظ کے جو وعدے وعید کیے اور عوام کے ووٹوں کے کاندھے پہ چڑھ کر جب اسمبلیوں میں پہنچے اور وہاں جو حلف اٹھایا اس کا پاس کریں نہ کہ اپنی تو تو میں میں میں لگے رہیں ۔سیاسی جوڑ توڑ اور آپس کے اختلافات کو کسی اور موقعے کے لیے اٹھا رکھیں۔
وہ چوک پہ کھڑا تھا اس نے اپنے گلے میں ڈوری کے ساتھ ایک بینر سا لٹکا رکھا تھا جس پہ لکھا تھا ڈگریاں برائے فروخت۔اور نیچے (،ایف ۔ایس ۔سی۔،بی ایس سی۔ایم ایس سی۔ایم اے ۔ایم فل ،پی،ایچ ڈی۔)قطار میں لکھی ہوئی تھیں ۔اور ہر گذرنے والا اسے دیکھتے ہوئے گذر رہا تھا کسی کے لبوں پہ تحریر پڑھ کے مسکراہٹ بکھر جاتی اور کوئی افسوس ذدہ نظر ڈال کر گذر جاتا۔
اسی اثناء میں کسی وی، آپی کی آمد کا غلغلہ مچا اور پولیس آ موجود ہوئی ٹریفک روک دی گئی ۔اور شاہراہ کو بند کر دیا گیا اس پہ یہ قیامت مچی کہ پولیس والے اس ملگجے لباس والے نوجوان کو مشکوک قرار دے کر بری طرح پیٹتے ہوئے گاڑی میں ڈال کر لے گئے تھے نوجوان کے چہرے پہ بے بسی کی تحریررقم تھی کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہ تھا وہ کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتا تو پولیس والے مکوں اور ٹھڈوں سے اس کی تواضع کرنے لگتے۔نوجوان کے بہتے آنسو اس کی بے بسی کے غماز تھے جو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے میرا قصور غریب پاکستانی ہونا اور اس سے بڑھ کے بیروزگار اعلی تعلیم یافتہ ہونا ہے اگر میں بھی مڈل پاس ہوتا اور الیکشن جیتا ہوتا تو آج مجھے بھی پروٹوکول مل رہا ہوتا اگلے دن اخبارات چیخ چیخ کر اعلان کر رہے تھے ۔ ایک دہشت گرد پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
تعلیمی ادارے سردیوں کی چھٹیوں وجہ سے بند ہوگئے اور یہ خبر رات گئے نشر کی گئی۔لیکن قیامت کی نظر رکھنے والے تاڑ گئے کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔اور اگلے دن ہی صورتحال سامنے آگئی ۔کئی ادارے سیکیورٹی کے نامناسب انتظام کی وجہ سے سیل کر دئیے گئے ۔ایک سوال میرے ذہن میں بار بار اٹھتا ہے کہ کیا ہر بات کی ذمہ داری فوج پہ ہے ؟کیا ہمارا کردار اس میں محض تماشائی بنے رہنے کا ہے؟ہماری نسل ِنو خوف کا شکار ہے تدریسی ادارے دشمن کے اہداف ہیں اور آسان ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں ۔شاید دشمن ہماری کمزوری بھانپ گیا ہے ،لیکن اب ان حالات کو سمجھتے ہوئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچے بچے کو دشمن سے نمٹنے کی تربیت دیں اور ہر شخص ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرے۔
بالخصوص ہمارے نوجوان تو لازمی شہری دفاع کی ٹریننگ لیں تاکہ وہ اپنا اور دوسروں کا تحفظ کر سکیں ۔مگر ہمارے ملک میں یہ بدقسمتی عام ہے کہ اس قسم کی کام کی باتوں پہ توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کے بیانات اور ان کے جوابات اور الزام تراشیوں کی سیاست سے فرصت نہیں ۔اور اگر ایسے پروگرام شروع ہو جاتے تو ان کو مکمل ہونے سے پہلے کھوہ کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ۔بحر طور مجموعی طور پہ ہمیں ہمیں خود انتظامی انتظامات کرنے چاہیے تاکہ ہم اپنی افواج کے کندھے کا بوجھ بانٹ سکیں اور اپنا حق ادا کر سکیں ۔اور یہ نہ صرف وقت کا تقاضا بلکہ ہماری اہم ضرورت ہے۔
تحریر : عفت