تحریر : انجینئر افتخار چودھری
مصر نے گویا تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اخوان المسلمون پر قیامت ڈھاتا رہے گا۔ابھی جمال عبدالناصر کے ہاتھوں لگائے گئے زخموں سے اخوان نہیں سنبھلے کہ ایک اور قیامت ان پر ڈھائی جا رہی ہے۔لعنت ایسے نظام اور سیاست پر اور ان ادارو ںملکوں پر جو محمد مرسی کو سزائے موت سنائے جانے والے فیصلوں پر خاموش ہیں۔کدھر ہے محافظان جمہوریت جنہیں ایک کتے پر ہونے والے ظلم کی تو خبر ہوتی ہے لیکن مرسی جو جمہوریت کو سینے سے لگائے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے تھے کی خبر پر کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اخوان کی جیت زمانے کی آنکھ کا شہتیر بن گئی اور انہیں انتہائی غیر جمہوری انداز سے ہٹا دیا گیا۔گویا اگر کوئی اسلام پسند ووٹ لے کر آ جائے تو اسے برداشت نہیں کرنا۔اس سے پہلے کے دیر ہو جائے امت مسلمہ کے قلعے پاکستان سے آواز بلنگ ہونی چاہئے۔نواز شریف حکومت کو تو دو قدم آگے بڑھ کر اس پر احتجاج کرنا چاہئے اس لئے کہ وہ فوج کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوئے تھے۔
مصر کی فوجی عدالت کے فیصلے کسی بھی ما ما جی کی عدالت کے فیصلوں سے کم نہیں ہیں۔تیسری دنیا کے چوتھے درجوں کی ان عدالتوں سے آئے روز قتل ہو رہے ہیں،جس کی زندہ مثال بنگلہ دیش کی عدالتیں ہیں جو پاکستان کے وفاداروں پر آئے دن مقدمات بنا کر کیپٹل سزائیں دے رہی ہیں ان میں بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے اعلی عہدے دار پھانسیوں پر جھول کر راہ وفا پر نثار ہو گئے۔کوئی ہے جو جنرل سیسی کو لگام دے حسینہ واجد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔بد قسمتی سے پاکستان جو عالم اسلام کا شہزادہ ملک تھا جنرل مشرف کی سب سے پہلے پاکستان کی فضول سوچ کا داعی بن چکا ہے۔کہاں وہ وقت تھا جب دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمان پر ظلم ہوتا تھا تو پاکستان سب سے پہلے بولتا تھا۔اس جن پاکستان کو آٹو ورکشاپ کا وہ چھوٹو بنا دیا گیا ہے جس کا کام استاد کے لئے ہاف سیٹ چائے تین پیالوں کے ساتھ لانے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔
مرسی کو اگر دنیا نے پھانسی چڑھنے سے نا روکا تو یاد رکھئے جس طرح صدام کے بعد عراق کیا پورا عرب آگ کی بھٹی میں جونک دیا گیا ہے مصربھی اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔یہ بات اب رکنے والی نہیں ہے۔ اس سارے فسانے میں اسرائیل موجیں مار رہا ہے۔ہمیں لڑیں شیعہ سنی مسئلے پر اور بی فاختہ انڈے کھائے ۔اس وقت عالم اسلام کو شیعہ سنی فسادات اور لڑائی کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مصر کے عیسائی ایک قبطی ریاست کے لئے سرگرداں ہیں۔دیکھ لیجئے گا جب یہ آگ مرسی کے پھانسی کا جھولا جھولنے کہ بعد بڑھکے گی تو اس کے دامن سے یہی کچھ برآمد ہو گا۔
بد قسمتی سے ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت اس خطے کو ایک نئی آگ کی لپیٹ میں لے لی گی۔قطیف جو سعودی عرب کے مشرقی علاقے کا ایک شیعہ اکثریتی شہر ہے جو دمام سے ایک سو کلو میٹر پر واقعہ ہے آج وہاں شیعہ عبادت گاہ میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ٤٥ جانیں ضائع ہوئی ہیں۔قطیف دمام الاحساء الحفوف اور اس کے ساتھ جڑے شہروں میں ایک اچھی خاصی تعداد میں شیعہ رہتے ہیں یہ تمام علاقے اگر اس جنگ کی نظرہو گئے تو کوئی وجہ نہیں سعودی جغرافیائی حدود میں تبدیلی آ جائے ۔جس کا پلان برسوں پہلے بنایا جا چکا ہے۔سعودی عرب کو گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔حوثی اقلیت نے سعودی عرب کے جنوبی علاقوں کے قریب یمن میں اپنی حیثیت منوا لی ہے۔گویا سعودی عرب کا جنوبی اور اب مشرقی علاقہ خطرے کی زد میں آ چکا ہے۔ایسے میں سعودی عرب کے نئے حکمران کو گھر کے اندر سے ہی کافی مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے نئے سعودی فرماں روا کو تلخ فیصلے کرنا پڑے ہیں۔
آج کے ہونے والے دھماکے نے سعودی عرب میں امن و آشتی کی فضاء کو بھک سے اڑا دیا ہے۔میں چوںکہ عرصہ دراز سے سعودی عرب میں مقیم رہا ہوں مجھے پوری امید ہے کہ سعودی حکومت دہشت گردی کی اس لہر کو بآسانی قابو کر لے گی۔سعودی عرب نے ٹیکنالوجی کی مدد سے جنگ خلیج میں داخلی امن کو برقرار رکھا ہے۔اس بار ہونے والے حج میں بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے پیش بندی کے لئے دنیا بھر سے شیعہ ھضرات کی آمد کو بھی نظر میں رکھنے کے بندوبست کر لئے گئے ہیں۔
عرب بہار جب عرب ملکوں میں ابھری تو سعودی عرب نے اس کا مقابلہ کرتے ہوئے خزانے کہ منہ کھول کر اپنے لوگوں کی جیبیں گرم کر دیں وزیر محنت نے ایک ایسی اسکیم متعارف کرائی جس کے نتیجے میں کمپنیاں سعودیوں کو ملازمت دینے کے لئے ان کی منت سماجت کرنے لگیں
نقات پروگرام کے تحت وزارت عمل نے تاجروں کو مجبور کر دیا کہ وہ سعودی شہریوں کو نوکریاں دیں ابتدائی طور پر کسی بھی کمپنی میں اگر سعودی شہری بیس فی صد سے کم ہے تو اس کو کاروبار کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر کے رکھ دیا گیا۔ اب یہ تناسب جو آہستہ آہستہ تیس اور بعض کمپنیوں میں چالیس فی صد ہو گیا ہے ۔اب حالت یہ ہے کہ لوگ سعودیوں کو گھروں سے نکال نکال کر ملازمتیں دے رہے ہیں۔٢٠١٢ میں آنے والے اس طوفان کے سامنے بند تو باندھ دیا گیا مگر سعودی عرب کے دشمن اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔سعودی عرب کی سیکورٹی ایجینسیاں بڑی متحرک ہیں وہ داخلی معاملات کو سنبھالنا جانتے ہیں۔٨٠ کی دہائی میں ایرانی حکومت نے منی عرفات میں بڑے مظاہرے کئے گئے جسے پوری قوت سے کچل دیا گیا تھا۔اس بار قطیف میں ہونے والے بم دھماکے کی آواز تو سب نے سنی ہے ابھی تہران سے جو شور اٹھنے والا ہے اسے مد نظر رکھئے گا۔
وہاں سے سعودی عرب کو واضح دھمکیاں بھی ملی ہیں۔مرسی کی پھانسی کے اثرات خطے میں دور رس ہوں گے۔مصری سنی اکثریت سعودی عرب کی جانب سے جنرل سیسی کی بلا وجہ حمائت پر سیخ پاء ہے ایسے میں اگر انہیں پھانسی ہو جاتی ہے تو سعودی عرب کے لئے سنی مکتب فکر کی جانب سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ایسے میں پاکستان کا کردار کیا ہونا چاہئے؟وہ ایک صلح جو کردار ہو گاویسے تو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے ہیں لیکن زمینی خدائوں کے فیصلوں کے آگے کوئی پر نہیں مار سکے گاپاکستان کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں۔
سعودی عرب کی داخلی سلامتی کو خطرہ پڑا تو بیس لاکھ پاکستانیوں کا کیا ہو گا؟کم از کم سعودیوں کے نہیں اپنوں کے تو بنیں۔بہتر یہی ہے کہ اسلامی کانفرنس اپنا کردار ادا کرے مصر کو مجبور کرے کہ اخوان کو کچلنے سے باز آ جائے۔اگر پاکستان ترکی مل کر یہ کوشش کریں تو ایران اور سعودی عرب کی صلح ہو سکتی ہے۔اگر یہ ہو جائے تو پاکستان کا بھی بھلا ہو جائے گا اور پورے عرب و عجم میں ٹھنڈ پڑ سکتی ہے۔
یاد رہے اگر کئی اور وجوہات کو مد نظر نہ رکھا جائے تو ٢٠ لاکھ پاکستانیوں کا ہی خیال کیا جائے جو معاش کے سلسلہ میں سعودی عرب میں موجود ہیں ہر فرد کے ساتھ کم از کم پانچ افراد تو براہ راست منسلک ہیں،یعنی اگر سعودی عرب کو متزلزل کیا جاتا ہے تو ایک کروڑ پاکستانی براہ راست متآثر ہوں گے۔حرمین شریفین کا تقدس بھی اہم نکتہ ہے۔مکہ اور مدینہ کو جو آزاد شہر بنانے کی بات ہو رہی ہے وہ ایک فتنے سے کم نہیں۔ایسا ہوا تو ملک عبدالعزیز سے پہلے والے دور کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔اللہ پاک عالم اسلام کو شیطانی سازشون سے بچائے۔آمین۔بات صرف مرسی کی ایک گردن کی نہیں یہاں سوال عالم اسلام میں بھونچال آنے کا ہے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری