تحریر : علی عمران شاہین
بھارت میں ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے زبر دست ہلچل بپا ہے۔ حریت رہنما مسرت عالم بٹ کی رہائی پربی جے پی مقبوضہ کشمیر کی جانب سے احتجاج کے بعد 9مارچ کو بھارتی پارلیمان لوک سبھا میں زبر دست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ہنگامہ آرائی کے وقت پارلیمان میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی موجود تھے جنہوں نے رہائی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ان کے ساتھ کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا ،اور وہ اس فیصلے پر سختغصے میں ہیں۔ مودی نے پارلیمان سیخطاب میں کہا کہ : ”میں اس علیحدگی پسند رہنما کی رہائی پر احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہوں۔میں اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ وفاقی حکومت ایسے کسی اقدام کو قبول نہیں کرے گی۔ ہم ملک کی وحدت اور سا لمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔”مودی نے کہا کہ اس سلسلے میں ریاست جموں کشمیر کی حکومت سے وضاحت طلب کر لی گئی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جموں و کشمیر میں مودی کی ہندو مذہبیبنیادپرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے مقامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس رہائی کے بعد دونوںپارٹیوںمیں نظریاتی خلیج وسیع تر ہو گئی ہے۔
ایوان کی کارروائی میںبھارتی اپوزیشن نے بار بار رخنہ ڈالتے ہوئے مسرت عالم کی رہائی پر احتجاج اور مطالبہ کیا کہ اگر قومی سلامتی جیسے اہم فیصلوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مشورہ نہیں کیا جاتا تو بی جے پی کو پی ڈی پی کی حمایت ترک کر دینی چاہیے۔یہ ہنگامہ اس ممتاز حریت رہنما اور مسلم لیگ مقبوضہ کشمیر کے صدر مسرت عالم بٹ کی رہائی کے حوالے سے ہے جسے 18اکتوبر 2010کو گرفتار کیا گیا تھا 42سالہ مسرت عالم کو بظاہر پی ڈی پی کی حکومت بننے کے بعد سیاسی قیدیوں کی رہائی کے اعلان پر عمل درآمد کے تحت رہا کیا گیا ہے لیکن مسرت عالم اسے رہائی نہیں مانتے ۔رہائی کے بعد وہ کہتے ہیں کہ جیل سے نکلنے کے بعد انہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے چھوٹی جیل سے نکل کر بڑی جیل میں آ گئے ہیں کیونکہ مقبوضہ کشمیر بھارتی فوجی قبضے کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔جیل میں رہوں یا باہر ،میرے لئے انہونی بات نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میں کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ بچپن سے وابستہ ہوں اور یہ وابستگی اس وقت تک کبھی ختم نہیں ہو سکتی جب تک مسئلہ کشمیر یہاں کے عوام کی مرضی سے حل نہیں کر دیا جاتا۔
مقبوضہ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے علاقہ زیندار محلہ حبہ کدلسے تعلق رکھنے والے مسرت عالم بٹ نے ابتدائی تعلیم سری نگر کے بسکو سکول سے حاصل کرنے کے بعد ایس پی کالج سرینگر سے سائنس کے مضامین میں گریجویشنمکمل کی۔ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے مسرت عالم نے 1987میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام کے دوران اپنے باقاعدہ سیاسی کیرئر کا آغاز کیا۔انہوں نے اس زمانیمیں بھارت مخالف عوامی ریلیوں میں بھرپور شرکت کی تو ہر طرح کی آزمائشوں نے ان کا پیچھا کیا۔اس وقت بھی ان کا خاندان انتہائی غربت و عسرت کے دن گزاررہا ہے۔ 1987 میںمقبوضہ کشمیر میں میں ہونے والے انتخابات میں جب بڑے پیمانے پر دھاندلیاں سامنے آئیں اور کشمیری عوام نے جب محسوس کیا کہ بھارت ان کی کسی بھی آرزو اور خواہش کو قبول کرنے پر تیار نہیں تو انہوں نے بھارتی قبضے کے خلافہتھیار اٹھا لئے۔ساری وادی تکبیر کے نعروں سے گونجنے لگی۔ہزاروں کشمیری عورتیں بچے اپنے ساتھ لئے ہزاروں فٹ بلند برفانی چوٹیاں عبور کرتے آزاد کشمیر آنے لگے تو لاکھوں بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر جانے کا حکم ملا۔کشمیری قوم آگ اور خون کے دریا پار کرنے کو تیار تھی۔نوجوان جوق در جوق میدان جہاد کا رخ کر رہے تھے تومسرت عالم1990 میں اس جہادی تحریک کا حصہ بن کر حزب اللہ نامی تنظیم کے مرکزی کمانڈر بن گئے۔
انہوںنے اسعرصہ میں بھارتی فوج پر بڑے بڑے حملے بھی کئے۔راہ جہاد میں زخم اٹھانے والے مسرت عالم گزشتہ 25برسوں کے دوران لگ بھگ 14 سال تک پابند سلاسل رہے۔ انہیں بار بار گرفتار اور رہا کیاجاتا رہا۔ایک بار رہائی پانے کے مسرت عالم کی جب شادی ہوئی تو 3 روز بعد ہی انہیں پولیس نے گرفتار کرکے کوٹ بلوال جیل جموں منتقل کیا تھا۔ یہاں سے رہائی ملی تو ایک بار پھر بھارت سے آزادی کے لئے متحرک ہو گئے۔28مئی2008کوبھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے خلاف اور ہندواثرات کو غالب کرنے کے لئے ایک انوکھا فیصلہ کیا۔علاقہ پہلگام جہاں ہندئووں کا ایک مقدس مقام ”امرناتھ غار ” واقع ہے اوریہاںبھارت کے علاوہ دنیا بھر سے ہندو موسم گرما میں یاترا کے لئے آتے ہیں ،میں99ایکڑ زمین” امرناتھ شرائن بورڈ ”بنا کرہندو انتظامیہکے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا تاکہ یہاںہندو یاتریوں کے لئے رہائشی منصوبے شروع کئے جا سکیں۔یہ ایکبڑی خوفناک سازش تھی جسے کشمیری قوم نے بھانپ لیا اور اس کے خلاف زبردست احتجاجی میدان سجا کر من موہن سرکار کی اس سازش کو ناکام بنایا۔ مسرت عالم اس بھارت مخالف تحریک روح رواں تھے۔انہوں نے اس تحریک میں بھارت کے خلاف ”رگڑا” متعارف کرایا ۔کشمیری نوجوانوں کو یہ سلوگن اتنا پسند آیا کہ فیصلے کی واپسی تک ہر طرف بھارت اور بھارتی حکمرانوں کے خلاف ”رگڑا، رگڑا”ہی گونجتا رہا۔
11جون 2010 کا دن کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس روزسرینگر کے ایم پی سکول کا 12ویںجماعت کا طالب علم طفیل احمد متو جو سکول سے گھر روانہ ہوا تھا ۔ غنی میموریل سٹیڈیم کے قریب وہ جب پولیس نے کشمیری مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائیں توایک گولی طفیل متو کے سر میں لگی اور وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گیا۔اس کے بعد بھارت کے خلاف ایک ایسی تحریک شروع ہوئی جو 6ماہ تک بھارت کے لئیدرد سر بنی رہی۔یہ وہی تحریک ہے جس میں بھارت نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ کشمیری بچے اور نوجوان شہید کئے تھے۔بد ترین ریاستی دہشت گردی میںہزاروں زخمی تو ہزاروں گرفتار ہوئے۔یہ وہی تحریک ہے جس کے بارے بھارت کا اب بھی کہنا ہے کہ اس کے اثرا ت کو قبول کر کے اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد ایک بار پھربھارت کے خلاف میدان جہاد کا رخ کر رہی ہے۔اس تحریک کے دوران ہی ساری حریت قیادت قید میں ڈال دی گئی تھی۔تحریک کے دوران ساری کشمیری قوم خاص طور پر نوجوانوں کو متحرک رکھنے کا بیڑا مسرت عالم نے ہی اٹھایا تھا۔20جون 2010کو جب سید علی شاہ گیلانی ساتھیوں سمیت کپواڑہ میں گرفتارہوئے تو مسرت عالم نے24جون کو سرینگر پائین شہر کے ایک خفیہ مقام پر پریس کانفرنس کرکے بھارت کے خلاف ”جموں کشمیر چھوڑ دوتحریک”اور ”گو انڈیا گو”کا نعرہ دیااورپہلا احتجاجی کلینڈر جاری کیا۔اس کے ساتھ ہی وہ خود روپوش ہوگئے۔2010 کی اس لازوال تحریک میں ”ہڑتال اور ڈھیل” دینے کا منفرد احتجاجی پروگرام دینے کا سہرابھی مسرت عالم کے سر جاتا ہے
کیونکہ حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی کی نظر بندی کے دوران مسرت عالم ہی اس اتحریک کے روح رواں تھے۔بھارتی پولیس جب انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہی تو ان کی گرفتاری پر انعامات کا اعلان کیا گیا اوران کے سر پر 5لاکھ روپے کا انعام رکھا گیاتھا۔ انہوں نے حیران کن طور پر خفیہ مقام پر رہ کر اس تحریک کو 4ماہ تک انتہائی کامیابی سے چلایا۔ وہ بار بار اچانک سامنے آتے ،مظاہروں میں شریک ہوتے،تحریک کے لئے احتجاجی پروگرام کا اعلان کرتے اور پھر خفیہ مقام پر چلے جاتے۔4ماہ کی روپوشی کے بعد بالآخر سرینگر کے تیل بل علاقے سے پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ نے انہیںگرفتارکیا تو سارے بھارت میں اس کا جشن منایا گیا۔یہاں سے گرفتار ہونے کے بعدان پر8مرتبہ کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا۔اس عرصے میںکئی بار کٹھ پتلی عدالت نے بھی ان کی رہائی کے احکامات صادر کئیلیکنانہیں دوبارہ کسی نہ کسی فرضی کیس میں ملوث کرکے پبلک سیفٹی ایکٹ لگا کر گرفتار کیا جاتا اورقید و بند کو طویل کیا جاتا رہا۔7مارچ کو انہیں رہائی ملی تو ہنگامہ بپا ہو گیا۔ساری کشمیری قوم اور قیادت کی طرح بھارت مسرت عالم کا سر بھی جھکانے میں نامراد ہے تو اسے نوشتہ دیوار بھی پڑھنا چایئے۔
تحریر : علی عمران شاہین