تحریر: ایم آر ملک
تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی پڑے گی جس قوم نے اپنی تاریخ کو فراموش کردیا ،اُس سے بے خبری ،عدم دلچسپی ،بے اعتنائی برتی اُس نے اپنے حافظے سے ہاتھ دھو لیئے ہمارے قومی حافظے کا ایک حصہ اسلام کی چودہ سو سال تاریخ پر مشتمل ہے دوسرا حصہ تحریک آزادی اور تشکیل ِ پاکستان سے اب تک پون صدی پر محیط ہے اِن دونوں حصوں میں جو قدر مشترک نظر آتی ہے وہ جداگانہ مسلم تشخص کی تگ و دو تھی اِسی تشخص کے فروغ کیلئے خالد بن ولید اللہ کی تلوار بنے ،طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا ڈالیں ،نوخیز سالار محمد بن قاسم نے مادر ِ وطن سے ظلمت کدہ ہندوستان کا رُخ کیا اور پہلی بار یہاں آکر کفرو شرک کی سر زمین پر توحید کی شمعیں روشن کیں سلطان صلاح الدین ایوبی ،نورالدین زنگی ،سلطان محمد فاتح ،سلطان ٹیپو شہیدسے لیکر مصحف علی میر شہید تک اِسی نظریہ کی ترویج و احیا کیلئے قربانیوںکا تسلسل نظر آتا ہے خوشاب جانے کے لئے جب بھی ”واں بھچراں ”سے میراگزر ہو تا ہے سڑک کنارے آباد شہرِ خاموشاں میں ابدی نیند سوئے ایئر وائس مارشل عبدالرزاق کی لحد پر ایستادہ سبز بورڈ کی عبارت کے شعلے آنکھوں کو جلانے لگتے ہیں۔
وہ حیات جاو داں پا گئے کئی روز تک اس ا ندوہناک سا نحے کا تسلسل نہیں ٹوٹتاایک بھیانک آمریت نے وطن عزیز کی تاریخ کے چہرے پرایسے چرکے لگائے جن کے خدو خال کو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا وہ ہیروز تھے ہیروز کی حادثاتی اموات سے قوموں کو ایسے گھائو لگتے ہیں جو رِستے اورسلگتے رہتے ہیں جن کا درد اور تکلیف قوموں کو لاغر کر دیتا ہے ایک آمر کے دور میں ہونے والا حادثہ جس نے پوری قوم کے احساس پر کاری ضرب لگائی ایک ایسا دکھ جس کے کرب سے پاکستانی قوم آج تک نہیں نکل سکی عزیمت وہمت ،جرات واستقلال کے کوہ گراں مصحف علی میر شہید انکی اہلیہ بلقیس شہید اور سانحہ کوہاٹ کے دیگر شہدا کے بند باب پر سانحہ بہاولپور کے شہدا کی طرح قفل لگے نظر آتے ہیں۔
مصحف علی میر جس کی شہادت نے میری نسل کو زندگی کا ذائقہ دیا جو حق بات کہنے کی جرا ت مجھے ورثے میں دے گیااس بار ماہ فروری آیا ہے تو چاہا کہ کچھ لکھوں مگر میں کچھ نہ لکھ سکا ہر برس ماہ فروری آتا ہے تو میرے کانوں کے پردے اُداسی کی گونج سے پھٹنے لگتے ہیں ،پر کیف دھڑ کنوں کی جگہ اب ہماری سماعت شاید چیخ و پکار اور چنگھاڑ کی عادی ہو گئی ہے ،جانے ہم کس دورِ ناہنجار میں آپھنسے ہیں کہ دل کے محتاج نہیں رہے ،بے اعتباریوں ،بد گمانیوں کی دھند جانے کب چھٹے ،اور اہل ِ وطن کی اُنگلی پکڑ کر وقت کب سر خروئی کی منزل کی جانب چل دے۔
یہ سانحہ لکھتے ہوئے قلم جیسے لہو اگلتا ہے اور لفظ لفظ چاہت کے خون میں ڈوبا محسوس ہوتا ہے میری ساری دلیلیں ،میرے سارے جواز ،میری بے بسی اور لاچارگی کے سامنے گھگھیاتے نظر آتے ہیں ،میری تاویلیں ،میرے عزم ،میرا سب کچھ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ،سوچیں تھکن کا شکار ہو جاتی ہیں مگر یادیں نہیں مٹتیں ،کسی کو فراموش کر دینا اتنا آساں ہوتا تو آفاقی کہانیاں جنم کیوں لیتیں مگر حقیقتیں کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہوں انہیں تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے مناہل فاطمہ ،نبیل میر جیسے کہہ رہے ہوں بابا جانی !اب کوئی ہمیں اپنا نہیں کہتا ہمارے اندر سے ہمیں کوئی چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ تم ہار گئے ہو مگر ہم بے چین دل کی تسکین کی خاطر کھوکھلی ہنسی کے غلام بن گئے ہیں ،ہماری آنکھوں کی چمک ،چہرے کی شادابی کو محبتوں کی ضرورت کی آرزو کے بھنور کا خوف کھا گیا۔
بھٹو ، ضیاء ،بے نظیر ،مصحف علی میر شہید یہ کیسا لا متناہی سلسلہ ہے ،خستگی سے چور کردینے والا یہ کیسا رستہ ہے جس کی کوئی منزل نہیں یہ حادثہ نہیں اندھا قتل ہے ،یہ قتل کسی وقتی ،حادثاتی ،لمحاتی ردعمل کے تحت نہیں ہوا اس کے پس پردہ قاتل ہاتھ ننگے ہیں جن سے لہو ٹپک رہا ہے نواب اکبر بگٹی اور مصحف علی میرشہید کے خون کے چھینٹے غلاظت بھرے ایک ہی ننگ ِوطن کے ہاتھوں پر ہیں اندر کی کہانی یہ ہے کہ وہ مرد مجاہد جیکب آباد کا شہباز ایئر بیس امریکی فوجوں سے خالی کرانا چاہتا تھا جہاں سے امریکی کانگرس کی رپورٹ LB-94041اورRL-316234کے مطابق امریکہ نے افغانستان پر57000ہوائی حملے کئے ،ڈیزی کٹربم پھینکے اور اللہ کا نام لینے والوں کے جسم کے پرخچے اڑادیئے شہید ہیرو مصحف علی میر کی اسلام اور پاکستان کے حوالے سے بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر قاتل قوتیں تشویش میں مبتلا ہو گئیں۔
تختہِ دار پر جھول جانے والے فخر ایشیا کی شہادت کی بھی یہی کہانی ہے وہ حیات جاوداں پا گئے انہوں نے سامراج کی غلامی کے خلاف جو پرچم بلند کیا اس کی پھڑپھڑاہٹ ساری دنیا کی اقوام سن رہی ہیں
سچائی کے اظہار کیلئے لفظ ہمیشہ ہی ناکافی ہوتے ہیں رات کی تاریکی میں ہونے والے اس جرم کو تاریخ ننگا ضرور کرے گی ،وقت کا آئینہ اس بہیمانہ واردات کے تمام مرتکبین کو بے نقاب کرے گا مقتل میں چھپا یہ خون اک روز کوچہ و بازار میں آنکلے گا مرد مجاہد مصحف علی میر شہید کیلئے ایک آزاد نظم !ناکردہ گناہوں کی پاداش میں تیری موت آج بھی اک سوال بن کر شہر کے مرکزی دروازے پر چسپاں ہے۔
تحریر: ایم آر ملک