تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پرویز مشرف جس پر مقدمات ،جرائم کی تفصیل بہت دراز ہے اکبر بگٹی کا قتل ،لال مسجد کی سینکڑوں حفاظ طالبات کو گیسوں سے بھسم کرکے ان کی لاشوں اور ہڈیوں کو گٹروں میں بہا ڈالنااور اسی جرم میں ان کے بلا ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری تھے۔آئین کی دفعہ چھ کے مجرم جس کی سزا صرف موت ہے ایسا کمانڈو جس نے امریکی صدر کی ایک کال پر فوری فیصلہ کرکے ان کی تابعداری کے عزم کا اظہار کیا۔جس کی وجہ سے پاکستان کی سرزمین سے برادر ملک افغانستان پر 78ہزار سے زائد حملے کیے گئے۔آج تک ہم اس کے فیصلے کے نتائج بھگت رہے ہیں اس فیصلہ سے ہماری مغربی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو گئیں ۔جو افغانستانی باشندے اور افغان طالبان ہماری دوستی کا دم بھرتے تھے وہ اب من حیث الجماعت ہماری جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
یہ سب کچھ مشرف کا کیا دھرا ہی نہیں تو اور کیا ہے ؟بے نظیر بھٹو کے قتل میں نامزد ملزم ہیں۔ ججوں کو گرفتار رکھا۔ مال متال ہضم کرکے درجنوں مطلو بہ”دہشت گردوں “کوسامراجیوں کے حوالے کیا۔غرضیکہ اس کے جرائم کی تفصیل تاریخ عالم اسلام میں کہیں نہیں ملتی۔اور شریفوں کا اسے چھوڑنا کہ باہر بھاگ جائو کوئی اچنبھے کی بات نہ ہے۔شریفوں نے ملک توڑنے والے غاصبوں کے وزیر اعظم کو گھر پر مدعو کیا خود ہندو انہ پگڑی پہنی مائوں بہنوں نے بھی اس سے پردہ نہ کیا۔
تقریباًبغیر پاسپورٹ کے 150ہندوستانی افراد ان کے ہاں مقیم رہے۔پاک سرزمیں پردندنا تے پھرے اور خود بھی اس کی تقریب حلف وفاداری میں بن بلائے اور بغیر سیکورٹی کلئیرننس کے جا دھمکے ہوں ۔تو ان سے ملک سے غداری اور آئین توڑنے،اکبر بگٹی یا بے نظیر کے قتلوں کے نامزد ملزم و مجرم مشرف سے دوستی کا ہاتھ بڑھا لینااو راس کی امداد پر تل جانا کوئی انو کھا کام نہ ہے اس نے انھیں سعودیہ جانے دیا تھا انہوں نے اسے جانے دیا۔ مک مکا ہو تو ایسا ہو۔حساب کتاب برابر ہوااحسان کا بدلہ احسان اور معاف کردینا بھی اصل بہادری ہے! اسے باہر جانے دینے میں ہی بھلائی محسوس کرتے ہوں گے بھاڑ میں جائے سونا جو کانوں کو کانٹے۔اورہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں اگر آئین توڑنے اور اہم راہنمائوں کے قاتل کو باہر بھاگ جانے دینے کے عمل سے سیکورٹی فورسز راضی ہوئیں تو بھی یہ سودا مہنگا نہیں۔
شریفوں کا ایسا ہی خیال ہے اور اسی کو اپنا کمال سمجھتے ہیں ویسے بزدلوں کے بھی سر پر سینگ نہیں ہوتے۔وہ بھی ہماری ہی طرح کے گوشت پوست کے ہی انسان ہوتے ہیں۔شریفوں کا اگر اس سے اقتدار بھی قا ئم رہے سامراج بھی راضی رہے تو ان کے لیے یہ سودا بہت سستا ہے اور قطعاً قابل شرم نہ ہے صنعتکار یا کاروباری حضرات تو ہمیشہ اپنا ڈھیروں منافع اور نفع نقصان کا تخمینہ لگا کر ہی کاروبار کرتے ہیں ۔ان کی نظر میں یہ عمل ایک اچھا منافع بخش کاروبار ہے مگر خدا وند قدوس دیکھ رہے ہیں۔اور موجودہ سبھی مقتدر افراد کوخواہ وہ مرکز کے ہوں یا کسی صوبے کے باربارتباہ کن زلزوں اور سیلابوں سے انتباہ ضرور کرتے رہے ہیں ۔مگر اِدھر بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہے اور زمین جنبدو آسمان جنبد مگرنہ جنبد گل محمد کی طرح ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔غریب لوگ مارے بھوک کے خود کشیاں کر رہے ہیں۔
کسان مزدورجاں بلب ہیںصاف پانی،گیس،بجلی،علاج ناپید ہیں۔مہنگائی و بیروزگاری آخری حدوں کو چھورہی ہے روز بروز بڑھتی ہوئی اشیاء کی قیمتوں کاشیطان ننگا ناچ ناچ رہا ہے اور متاثرین پر ہنس ہنس کر دھراہورہا ہے کہ اس کا راج ہر جگہ پر قائم و دائم ہے۔ لاقانونیت ،دہشت گردی اور بے انصافی ہماری لازم خوراک کا حصہ بن چکی ہیں۔مگر حکمران ہیں کہ لال پیلی گاڑیوں کے چکروں سے ہی نہیں نکل پارہے اقتدار سلامت رہے اور روزانہ کی دیہاڑی لاکھوں ،کروڑوں کی لگتی رہے۔غریب پستے رہیں اور ان کا کچومر نکل جائے ۔مریضوں کو ادویات دستیاب نہ ہوں اور وہ بے وقت موت مرتے رہیںمہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان گھن کی طرح پس کر رہ جائیں بھلا انھیں کیا۔
زرداری،عمران ،نوازصاحبان کو پتہ ہی ہے کہ لوگوں نے پیسے لے کر انھیں ہی ووٹ دینے ہیںاور اقتدار ان کا باری باری کا کھیل ہے ۔پھر کوئی ان کا بال بیکا کیسے کر سکے گا۔احتساب کیونکر ہو گانیب توانھی کی پالتو لونڈیا ہے زرادری لوٹ کر بھاگ گیا باقی تیار بیٹھے ہیں80 ارب ڈالر کے مقروض ملک کے عوام خو د بھگتیں گے کیونکہ ان کا تو بنک بیلنس بھی باہر ،کاروبار پلازے اورصنعتیں بھی باہر موجود ہیں۔مگر خدا کی لاٹھی بے آوازہوتی ہے اس کی پکڑ سے ڈرو وگرنہ تمہارا نام تک بھی نہ ہو گا داستانوں میں نمرود شداد فرعون جیسے حکمران نہ رہے اب بھی سبھی کو جانا ہے۔
ادھر مشرف صاحب نے باہر جانے کے ترلے بہت کیے جب بھی عدالتی سمن گرفتاری کے جاری ہوئے انھیں بیماری نے آن لیایہ انو کھی بیماری ہے جو کہ جیل میں جانے کے خوف سے آن لگتی ہے۔مگر میر کیا سادے ہیںکہ بیمار ہوئے جس کے سبب۔اسی عطارکے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔بیماری جن کی وجہ سے انھیں لگتی ہے انھی سے انھوں نے دوا لی یعنی اجازت لی اور باہر کو چل دیے ۔ باہر پہنچتے ہی صحت یاب ہوجائیں گے ۔اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔
اگر آئے تو پھر مستقل دھر لیے جائیں گے۔جاتی امرائی کے وارث بھی بچا نہ پائیں گے ۔یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے الطاف حسین کے باہر بیٹھے دن روشن اور راتیںر نگین ہیں ۔کہ پاکستان کا رخ غلطی سے کر بیٹھے تو جاں کے لالے پڑجائیں گے۔اب تو ادھر ہی کفار کی سرزمین پر دفن ہو جانے میں ہی” عزت مأب” بچ سکتی ہے۔ اور یہ کہ آخر ڈکٹیٹر اور خدا کی زمین پرخود خدا بن بیٹھنے والوں کا یہی حشر ہوا کرتا ہے۔
شہنشاہ ایرا ن کو بھی کوئی ملک دفن کی جگہ دینے کو تیار نہ تھا ۔حسن والے حسن کا انجام دیکھ۔ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ ۔بھٹو نے پھانسی کی رسی کو چومااور اف تک نہ کی اور یہ ہیں کہ جیل سے ڈرتے ہیں ۔بزدل آدمی روزانہ سو بار مرتا ہے مگر بہادر آدمی صرف ایک دن مرتا ہے جس دن اس کی موت آتی ہے۔اللہ اکبر(اللہ کی کبریائی)کی تحریک مقتدر ہو کر رہے گی۔اورتمام کا قصہ تمام ہو جائے گا۔