تحریر: انجینئر افتخار چودھری
میں دیکھ رہا ہوں اے آر وائی پر ڈاکٹر دانش جنرل مشرف کے گند کو دھونے کی کوشش کر رہا ہے غلط کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب دو غلطیاں درست نہیں قرار دی جا سکتیں نواز شریف کی ناکامی کو جنرل مشرف کی کامیابی نہیں قرار دی جا سکتی۔ پاکستان کی بیٹیوں کا بیوپاری ٹن ہو کر ناچنے گانے والے مشرف کی نہیں قوم عمران خان کو چاہتی ہے۔جو کوئی بھی عمران کان کی جگہ تیسری طاقت کی شکل میں جنرل مشرف کو آگے کر رہا ہے غلط کر رہا ہے۔جنرل سرفراز سے جنرل راحیل تک کا سفر قابل غور سفر ہے۔بد ترین جمہوریت کا حل ویسے تو بار بار کی جمہوریت کہا جاتا ہے مگر کھری اور سچی بات ہے پاکستان میں ڈکٹیٹر وں کی موجیں لگی ہوئی ہیں کبھی وردی میں اور کبھی بغیر وردی کے۔ عمران خان انہیں سول ڈکٹیٹر کہتے ہیں)میں کئی روز سے دیکھ رہا ہوں قوم جنرل راحیل شریف سے وہ توقعات رکھ رہی ہے جس سے تآثر ملتا ہے کہ بس وہ آئیں اور اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں۔ میں کسی حد تک اس جمہوریت سے بھی نالاں ہوں جو پاکستان کو سوائے مسائل کے کچھ نہیں دے سکی لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ فوجی آمریت تو میری توبہ توبہ۔ اپنی بد قسمتی دیکھئے ہمیں جو سیاست دان ملے رج کے ٹھگ اور جو فوجی حکمران ملے الحفیظ الامان۔ پاکستانی بڑا پیار کرنے والی قوم ہے۔میں آج نوجوان نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہمارے شیر دل نوجوان دشمن کا مقابلہ کرنے نکلتے تھے تو پوری قوم ان کے پیچھے دعائیں کرتی تھی۔چلئے آپ کو ایک ایسا واقعہ سناتے ہیں جو میں بار بار سناے کے بعد بھی سناتا ہوں۔ ٧٠ کے الیکشن میں میجر جنرل سرفراز نے لاہور سے ذوالفقار علی بھٹو کا مقابلہ کیا این اے ٣ لاہور سے شاید علامہ اقبال کے فرزند جاوید اقبال بھی ان کا مقابلہ کر رہے تھے الیکشن میں بھٹو صاحب نے انہیں پچھاڑ دیا،اسی الیکشن کی کمپین جاری تھی۔میں اس وقت ١٥ سال کا تھا۔عطا محمد اسلامیہ ہائی اسکول گجرانوالہ کا طالب علم۔ پاکستان میں پہلی بار ون مین ون ووٹ کے تحت الیکشن ہورہے تھے عوام میں بہت جوش و خروش پایا جاتا تھا۔یقین کیجئے ویسا جذبہ ٢٠١٣ میں نظر آیا بہر حال اس الیکشن کو تو ایک ٹرائکا کھاگئی جس کا کردار شرمناک حد تک گردانا گیا تھا۔میجر جنرل سرفراز نے ٦٥ کی جنگ کا ایک واقعہ سنایا یقین کیجئے فرط جذبات سے ہم اپنی جگہ اچھل اچھل گئے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے۔کہنے لگے میں لاہور بارڈر کو کمانڈ کر رہا تھا ایک دن میں اپنی جیپ میں اگلے مورچوں کے معائنے کے لئے گیا تو راستے میں مجھے ایک بوڑھی عورت نظر آئی جو کچے راستے پر چھڑکائو کر رہی تھی۔میں اس کے پاس سے گزر گیا۔
تھوڑی دور جا کر احساس ہوا کہ یہ عورت اس راستے پر چھڑکائو کیوں کر رہی ہے اس سے پوچھنا چاہئے میں نے ڈرائیور سے کہا گاڑی پیچھے لے۔ اماں کے پاس جا کر میں نے پوچھا ماں جی یہ آپ کیا کر رہی ہیں ۔اس نے جواب دیا بیٹا ترونکا(چھڑکائو) میرا اگلا سوال تھا کس کے لئے؟ماں جی بولیں آپ کے لئے۔میری حیرانگی دیکھ کر لاہور کے مضافاتی قصبے کی اماں نے جواب دیا بیٹا لوگوں کے پاس پیسا ہے انہوں نے دفاعی فنڈ میں رقم دی ہے مال دیا ہے چینی کمبل اور راشن مگر یہ سب کچھ میرے پاس نہیں ہے میں نے سوچا میں اس راستے پر پانی کا چھڑکائو کر دوں تا کہ اڑنے والی دھول محاذ جنگ پر جانے والوں کی آنکھوں میں نہ پڑے۔اور وہ بھارتی فوجیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں شکست دیں۔میجر جنرل سرفراز اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔میں گجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ میں ان کا جلسہ سننے آیا تھا۔میرا خون کھول اٹھا اور جی چاہا کہ مادر وطن کے لئے میں بھی قربانی دوں میں بھی دس بیس کو مار کر مر جائوں۔لیکن یہ رتبے میرے جیسے لوگوں کے نصیب میں کہاں ہوتے ہیں۔یہ قوم فوج سے بڑا پیار کرتی ہے اس کے گن گاتی ہے۔شاید اس لئے کہ کتابوں میں جنگ بدر احد حنین کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کیا گیا تھا کہ ہر کوئی اپنے آپ کو اسلامی دنیا کا فرد تصور کرتا تھا اس کے نزدیک کلمہ گو سب بھائی تھے اسود ،احمر اور ابیض سب بھائی ایک کلمہ پڑھنے والے۔ہم بھی اسی فوج کی محبت میں جوان ہوئے۔بارڈروں پر جانے دینے والوں نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ مائوں نے راجہ عزیز بھٹی کے نام پر بچوں کے نام رکھ دیے۔ شاعروں نے قومی نغمے اور گلو کاروں نے اپنی آوازیں غازیوں شہیدوں کے لئے وقف کر دیں۔ اس فوج کے لئے جو مقصد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔جنگی مشقیں جاری رہتی تھیں۔میرے بڑے بھائی امتیاز گجر کمانڈو ٹریننگ کے لئے ٧٤ میں چیراٹ گئے تو ہمیں فخر ہوا کہ کمانڈو ہمارے گھر سے گیا ہے۔وہ جب اپنی ٹریننگ کی کہانیاں سناتے تو ہمیں اپنی زندگی پھیکی پھیکی سی لگتی تھی۔ہم کیوں نہیں فوجی بنے یہ خیال تا دیر ہمارے دماغوں میں رہا۔فوجیوں کی چھاوئنیاں شہروں سے باہر ہوتی ہیں۔ان کی دنیا الگ ہوتی ہے۔مگر وہ ہماری دنیا کے شہزادے ہوتے ہیں۔
پاکستان کی فوج کے بارے میں کہا جاتا ہے دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ایک ہے۔میں نے فوج سے پیار اور محبت کی بات ذرا تفصیل سے اس لئے بتائی ہے کہ نوجوانوں کو پتہ چلے کہ پاکستانی کس قدر پیار کرتے ہیں۔آج ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جنرل راحیل شریف کی نامزدگی پر لوگوں نے خوشیاں منائیں اور بہت سے بھائی ان سے ان کے دائرہ کار سے بڑھ کر کچھ کر گزرنے کی امید رکھتے ہیں۔جنرل ہارون اسلم کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں اس لئے آرمی چیف نہیں بنایا گیا کہ وہ ١١١ بریگیڈ کے کماندار تھے جس نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔فوج میں روایت رہی ہے کہ وزیر اعظم اپنی مرضی سے چیف کا انتحاب کرتے ہیں۔اگر چیف خیریت سے وقت گزار دے تو اسے یہ کہہ کر پیچھے کر دیا جاتا ہے کہ شریف آدمی ہے اس نے کچھ کر کے نہیں دکھایا۔اور جو کر گزرے اسے آمر۔ایک صاحب تو بڑی دور کی کوڑی لائے کہ اب تک جنہوں نے مارشل لاء لگایا ہے ان کی مونچھیں تھیں لہذہ اب میاں نواز حکومت کی خیر نہیں۔دوستو!یاد رکھئے ڈکٹیٹر بڑی ظالم چیز ہوتے ہیں۔مارشل لاء تو آج کل جنگل میں بھی نہیں لگتا اور افریقی ممالک بھی اس سے دور ہو گئے ہیں۔خدا را فوج کو اس جانب نہ لائیں۔کبھی کسی نے فوج کو یہ یاد نہیں دلوایا کہ ٧١ کا قرض ابھی باقی ہے،کوئی اسے نہیں کہتا کہ خدارا اسلام آباد فتح نہ کرنا اس لئے کہ یہ پہلے ہی سے مفتوحہ ہے۔میں نے تلخ تجربات دیکھے ہیں،جدہ کے لوگ ایک سابق جرنیل اسد درانی کی چیرہ دستیوں کو ابھی نہیں بھولے۔اس دن عظمت نیازی سے بات ہوئی یہ وہ پاکستانی ہے کہ جسے جنرل درانی نے گرفتار کروایا اور پاکستان بجھوا دیا تھا۔اس وقت کے مخیر پاکستانیوں میں سے تھا اسے رگڑا لگا دیا گیا۔اس طرح اور لوگ بھی اس کی سفاک سرگرمیوں کا نشانہ بنے۔خدا را کبھی مارشل لاء نہ مانگئے۔جنرل راحیل اگر آئے ہیں تو انہیںاپنا کام کرنے دیجئے۔پاکستان کے ایک حساس حصے میں آپریشن جاری ہے۔تین جنگوں سے زیادہ فوجی شہید ہو چکے ہیں۔انہیں بیرونی ایجینڈے سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔امریکیوں کو کسی طالبان سے لینا دینا نہیں وہ پاکستان کی فوج کو ادھ مواء کرنا چاہتے ہیں طالبان کی صورت میں بھارتی حمایت یافتہ لوگ فوج اور پاکستان سے دشمنی کی کوئی موقع نہیں جانے دیتے۔افغانستان سے ہندوستان کاروائیاں کر رہا ہے وہ جو بھائی کا نعرہ لگاتا تھا سنا ہے وہ بھی ہمارے پاکستان میں راکٹ مار گیا ہے۔
ایران نے بغل میں چھپی چھری کو نکالنے کی کوشش کی ہے پہلے تو اس کا خیال تھا کہ پنڈی میں ہنگامہ کروا کے شیعہ سنی فسادات کروا کے شیعہ برادری کی حمایت میں کود پڑوں مگر اس میں ناکامی کے بعد نئے بہانہ تراش رہا ہے۔ان حالات میں ہمیں ایک ایسے سربراہ کی ضرورت ہے جو جمہوری حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرے اور پاکستان کی بہتری کے لئے نئی جہتیں تلاش کرے۔بھلے سے میاں نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی سے ہمیں اختلاف ہے مگر ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ قوم کو کوئی نیا طالع آزماء ایک نئی آزمائش میں ڈال دے۔ایک پیشہ ور فوجی کی حیثیت سے جنرل راحیل اپنی کارکردگی سے ثا بت کریں گے کہ ان کا بنیادی مقصد پاکستان کے بارڈروں کا دفاع ہے۔جنرل کیانی اپنے ساتھ بڑھی تلخ یادیں لے کر ریٹائر ہوئے ہیں۔ایک تو ایک غاصب جنرل کے خلاف کسی بھی ایکشن کے راستے کی دیوار نہ بنے۔کسی نے خوب کہا ہے کہ فوج میں کوئی ریٹائر نہیں ہوتا اس کا مظاہرہ ہم نے جنرل مشرف کی با عزت رخصتی اور با عزت جیل کی صورت میں دیکھ لیا ہے۔جنرل درانی کا کیس دبا دیا گیا۔سلالہ چیک پوسٹ کا اندوہناک واقعہ ہوا ایبٹ آباد آپریشن ہوا۔اور امریکنو کے کہنے پر متعدد آپریشن کئے گئے۔کاش جن طالبان کا شور مچایا گیا ان کے ساتھ بھی نہیں نبٹا گیا جی ایچ کیو کے سامنے جنرل شہید کر دیے گئے پشاور میں ہمارے بچے اڑا دیے گئے۔مہران بیس اور کامرہ بیس کے واقعات نے بڑے سوال اٹھائے رکھے۔جنرل راحیل کیا کرتے ہیں کیسے کرتے ہیں دیکھتے ہیں پاک توپخانے کا افسر کس طرح ان چیلینجز کا مقابلہ کرتا ہے۔قوم آج بھی آپ کے راستے کی اڑنے والی دھول پر چھڑکائو کے لئے تیار ہے مگر خدا را یہ جان لیںکسی ایوب خان ضیائالحق مشرف کو برادشت نہیں کرے گی۔ بارڈروں کی طرف جاتے جنرل سرفراز ہمارے سر آنکھوں پر اور جنرل مشرف ،جنرل درانی جیسے لوگ نا منظور۔ میں دیکھ رہا ہوں اے آر وائی پر ڈاکٹر دانش جنرل مشرف کے گند کو دھونے کی کوشش کر رہا ہے غلط کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب دو غلطیاں درست نہیں قرار دی جا سکتیں نواز شریف کی ناکامی کو جنرل مشرف کی کامیابی نہیں قرار دی جا سکتی۔پاکستان کی بیٹیوں کا بیوپاری ٹن ہو کر ناچنے گانے والے مشرف کی نہیں قوم عمران خان کو چاہتی ہے۔جو کوئی بھی عمرا ن کی جگہ تیسری طاقت کی شکل میں جنرل مشرف کو آگے کر رہا ہے غلط کر رہا ہے۔قوم کے نزدیک اگر نواز شریف غلط ہیں تو جنرل مشرف مہا غلط دونوں نامنظور۔
تحریر: انجینئر افتخار چودھری