اردو جہانِ ادب کے نثری حصے کو مختلف اصنافِ سخن سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان اصناف کو کہانی، افسانہ، ناول اور دیگر نام دیے گئے ہیں، تاہم ہمارا خیال ہے کہ تحریر کے دو رخ انتہائی واضح ہوتے ہیں، ایک سنجیدہ اور ایک پُر مزاح۔
سنجیدہ ادب لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، جبکہ مزاح نگاروں کے نام انگلیوں پر گنتی کیے جاسکتے ہیں۔ بعض مزاح نگار تو ایسے بھی ہیں، جنہیں مرحوم ہوجانے یا پھر نصابی ماہرین کی عدم معلومات کے سبب نصاب کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ بعض مزاح نگار ایسے بھی ہیں، جنہیں ان کے جینے کی سزا مل رہی ہے اور شاید ان کی عظمتِ کار کا اعتراف اس وقت کیا جائے گا، جب وہ ہم میں موجود نہیں ہوں گے۔
مشتاق احمد یوسفی برِصغیر کا وہ نام ہے، جس نے اردو ادب میں اپنے نپے تلے الفاظ اور کہیں ملفوف اور کہیں روشن معونیت کے ساتھ بھرپور طنز اور مزاح لکھ کر نہ صرف اردو ادب کو بالا مقام عطا کیا بلکہ عام قاری کے ذوقِ مطالعہ اور حسِ مزاح میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی شخصیت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کی تعلیم فلسفے اور قانون کے گرد گھومتی رہی اور عملی میدان میں وہ بینکنگ کے شہسوار بنے۔ اس شہسواری کے دوران اسپِ اسپِ اردو کو ایسے قابو کیا اور اس میدان میں وہ کارنامے دکھائے کہ دیکھنے اور پڑھنے والوں کا وہی حال ہوا جو حسنِ یوسف دیکھ کر زلیخا کا ہوا تھا۔
ہر قاری ان کا مداح سے بڑھ کر دیوانہ ہوچلا اور یوں ان کے پُرمزاح ادبی سفر کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ دو اور دو چار کرنے والا ایک بینکر اگر لفظ گری پر آئے اور آٹھ آٹھ آنسو رونے والوں کے غموں کو نو دو گیارہ کردے تو الفاظ کے اس جادوگر کا نام صرف اور صرف مشتاق احمد یوسفی ہوسکتا ہے۔
طنز و مزاح سے بھرپور 5 کتابوں کے اس مصنف نے زندگی میں کبھی لفظی بخیلی سے کام نہیں لیا، بلکہ جہاں جس لفظ کی ضرورت پڑی، اسے بلادریغ اپنی معنوی مالا میں ایسے پرویا کہ معترض قاری بھی داد دینے پر مجبور ہوگیا۔ 4 ستمبر 1921ء کو پہلی سانس لینے والے مشتاق احمد یوسفی 1961ء میں 40 برس کی عمر میں اپنی پہلی کتاب ’چراغ تلے‘ کے ساتھ اردو ادب کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے تو زبان و بیان نے ان کے مزاح کے سامنے اس طرح سر جھکایا کہ ان کی آخری سانس تک اردو دنیا میں دور دور تک کوئی ان کے مقابلے پر نہ اتر سکا اور انہوں نے اگلی 6 دہائیوں میں’خاکم بدہن‘، ’زرگزشت‘ اور ’آبِ گُم‘ جیسی 3 مزید کتابیں لکھیں جو اردو دنیا کو آنے والے وقت میں بھی اعتبار بخشتی رہیں گی۔
2014ء میں کراچی آرٹس کونسل کی جانب سے شائع کی جانے والی ان کی کتاب ’شامِ شعرِ یاراں‘ اس معیار پر پوری نہ اترسکی، جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی، تاہم اس کتاب کی مایوسی ان کے مداحوں کی محبت میں کمی کا باعث نہ بن سکی اور لوگ ان سے اسی طرح محبت کرتے رہے۔ پاکستان اور دنیا بھر میں ان کی پذیرائی ہوئی اور ’ستارہ امتیاز‘ اور ’ہلالِ امتیاز‘ جیسے اعزازات رکھنے والے مشتاق احمد یوسفی نے ہر اس ملک اور ہر اس بڑے شہر میں اردو مزاح کی نمائندگی کی اور عالمی سطح پر داد وصول کی۔
بڑے بڑے اداروں اور ثقافتی و ادبی مراکز نے اپنی ادبی کانفرنسوں اور دیگر تقاریب میں ان کی جس طرح پذیرائی کی اور جس طرح ہر ملک اور ہر شہر میں بسنے والے اردو داں طبقے نے ان کے لیے اپنے بازوئے محبت وا کیے، اس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے 10 برس قبل عالمی اردو کانفرنس کا آغاز کیا۔ اس کانفرنس میں پُرمغز مقالے پڑھے اور سنے جاتے اور مختلف سیشنز ہوتے، ان تمام سیشنز میں عوام کی تعداد اتنی ضرور ہوتی کہ ہال کی سیٹیں بھر جایا کرتیں، لیکن مشتاق احمد یوسفی کو سننے کے لیے عوام ایسے امڈتے کہ ہال کی سیٹیں تو سیٹیں، سیڑھیاں اور راستے تک مداحوں سے بھرجایا کرتے اور ہال کے دروازے بند ہونے کے بعد وسیع جگہ پر عوام کا ٹھٹھ انہیں سننے کو موجود ہوتا۔ پانچ فٹ چھ انچ قد کے مشتاق احمد یوسفی بذلہ سنجی میں اپنی مثال آپ تھے اور نقاہت کے باوجود اپنے الفاظ سے مزاح کی وہ پھلجھڑیاں چھوڑتے کہ عقلمند سامعین ان کو تکتے رہ جاتے اور بے عقل سکتے میں رہ جاتے۔
اگرچہ مشتاق احمد یوسفی مطلقاً مجلسی شخصیت نہیں تھے، لیکن اگر وہ کسی کے ساتھ بیٹھ جائیں تو مجال ہے کہ سامنے والا اٹھنے کے بارے میں سوچ بھی سکے: ایک تو ان کی سحر انگیز اور انتہائی پُروقار شخصیت کا اثر اور دوسرے ان کی گفتگو کا سحر۔ اپنی زندگی کی بے شمار باتیں اس آسانی سے بیان کر جاتے جتنا لوگ کسی اور کے بارے میں بات کرنے میں بھی سہولت محسوس نہیں کرتے۔
90 برس کی عمر تک ہم نے انہیں جب دیکھا، سوٹ میں ملبوس اور انتہائی چاق و چوبند پایا، لیکن 9 دہائیاں پار کرلینے کے بعد ان کی جسمانی حالت وہ نہ رہی جو کبھی تھی، لیکن ان کی گفتگو میں کبھی کسی نے کمزوری محسوس نہ کی۔ ان کا وجود سست ہورہا تھا، لیکن ان کے جملے بلا کے چست تھے۔ ان کے بدن سے طاقت دن بدن کم ہورہی تھی، لیکن ان کے لفظ، ان کا لہجہ اور ان کی زندہ دلی کسی طور ہار ماننے کو تیار نہ تھی۔
کئی مرتبہ ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اگرچہ مختلف مواقع پر مختلف شخصیات نے ان سے ملاقات کو مختلف پلیٹ فارمز پر بڑی تفصیل سے پیش کیا، تاہم راقم کو ابھی اس بات کا خیال نہ آیا کہ ان ملاقاتوں کو اپنی فیس بک کے اسٹیٹس پر ہی اپ ڈیٹ کرسکے۔ آج وہ گزرے پل تیزی سے ذہن کے پردے پر کسی فلم کی طرح چل رہے ہیں۔ آرٹس کونسل کراچی کا لان ہے ایک گھیرے کی صورت رکھی کرسیوں پر افتحار عارف، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی جیسی نابغہ روزگار شخصیات براجمان ہیں۔ سنجیدہ گفتگو چل رہی ہے، لیکن افتخار عارف اور ڈاکٹر پیرزادہ قاسم جیسی سنجیدہ شخصیات بھی صرف اس لیے خاموشی اختیار کرلیتی ہیں کہ یوسفی صاحب اب کوئی پھلجھڑی چھوڑیں۔
ایک واقعہ یوسفی صاحب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ایک مرتبہ ہماری ملاقات ایک شوخ چنچل لڑکی سے ہوگئی۔ کافی دیر گفتگو کے بعد بولی، یوسفی صاحب، آپ بات چیت میں تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، لیکن تحریر میں بالکل لچے لگتے ہیں۔‘ پھر ایک قہقہہ لگا کر کہنے لگے، ’ویسے وہ کہتی ٹھیک تھی!‘ ان کے اس جملے پر سب کھلکھلا کر ہنس دیے۔
یوسفی صاحب کی شخصیت کا سحر یہ ہے کہ جہاں وہ خود اپنی گفتگو سے محفل کو زعفران زار بنانا جانتے ہیں، وہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں اتنے مضبوط و مقبول جملے تحریر کیے ہیں کہ یوسفی صاحب کی غیر موجودگی میں بھی دہرائے جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یوسفی صاحب ہمارے درمیان ہی کہیں موجود یہ بات کر رہے ہیں۔مشتاق احمد یوسفی صاحب کا ذوق محض نثر نگاری یا مزاح ہی کی جانب مائل نہیں تھا۔ وہ معروف اشعار میں معمولی تحریف سے شعر میں وہ مزاح پیدا کردیتے کہ سننے والا خوشگوار حیرت کا شکار ہوجاتا۔ غالبؔ کے ایک مصرع ’قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں‘ کو معمولی تحریف کے ساتھ انہوں نے اس طرح باندھا ہے، ’قیدِ حیات و بنتِ عم اصل میں دونوں ایک ہیں‘۔
اگر کوئی اردو کے ذائقے سے آشنا ہے اور وہ یوسفی صاحب کے جملے اور تحریفات پڑھ لے تو مسکرانا تو کجا، ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا، یہی یوسفی صاحب کی کامیابی ہے کہ انہوں نے اپنے قلم کی آنکھ سے چھلکنے والے آنسو سے دل زدوں کے لبوں پر ہنسی بکھیری ہے۔ 92 سال کی عمر سے انہیں جسمانی کمزوری کا سامنا رہا۔ کمزور جسم لیکن طاقتور جملے ایک جانب پڑھنے والوں کے لیے تریاق بنے رہے اور دوسری جانب خود انہیں بھی اکساتے رہے کہ ابھی اور بہت کچھ لکھنا ہے۔ وہ لکھتے رہے، لکھتے رہے، لوگ پڑھتے رہے، پڑھتے رہے، اب بھی پڑھ رہے ہیں اور آئندہ بھی پڑھتے رہیں گے۔
ایک طویل عرصے سے بسترِ علالت پر پڑے اردو کے اس بے بدل مزاح نگار نے آخری ہچکی لی اور راہی ملکِ عدم ہوا۔ زندگی بھر لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹوں کے پھول کھلانے اور چہروں پر ہنسی کی دمک لانے والے مشتاق احمد یوسفی کی موت کی خبر نے آن کی آن میں پوری اردو دنیا کو اشکبار کردیا ہے۔ ان کے مداح انہیں مسلسل خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔ اردو ادب کی دنیا میں ایک جملہ بڑی کثرت سے بولا اور لکھا جاتا ہے کہ ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔ میں اس جملے سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ نصف صدی قبل ہماری دو پشتیں بھی عہدِ یوسفی میں جی رہی تھیں، ہم بھی عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں، اور عہدِ یوسفی صرف ابھی موجود نہیں ہے، بلکہ آنے والا ہر وقت عہدِ یوسفی ہوگا کہ ایسا نگینہ نہ تو اردو ادب نے اس سے قبل کبھی دیکھا تھا اور نہ مستقبل قریب یا بعید میں اس کی کوئی امید نظر آتی ہے۔
اللہ یوسفی صاحب کو ان کی تحریروں اور ان کے مزاح کو ابدی زندگی دے اور انہیں اس انسانی خدمت کے عوض اپنی بے پناہ رحمتوں کے سائے میں رکھے۔ آمین
اقتباس بعنوان ’بندۂ مزدور کے/ کی اوقات، از ’زرگزشت‘ 1976ء
بینکوں میں ان دنوں صبح ساڑھے آٹھ بجے سے رات کے دس گیارہ بجے تک لگاتار کام ہوتا تھا، جبکہ گورنمنٹ دفاتر کے اوقاتِ بے کاری 9 سے ساڑھے چار تک تھے۔ اول تو رات گئے تک کام کرنے کی کوئی شکایت نہیں کرتا تھا اور اگر کوئی سرپھرا آواز اٹھاتا تو اس کا تبادلہ بارش میں چٹاگانگ، گرمی میں سکھر اور سردی ہو تو کوئٹہ کردیا جاتا تھا، جو اس زمانے میں شورہ پشت بینکروں کے لیے کالے پانی کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن جو گردن زنی ہوتے، ان کو لائن حاضر کردیا جاتا تھا۔ یہاں ان کے طرۂ پُر پیچ و خم کے سارے پیچ و خم ایک ایک کرکے نکالے جاتے۔ ہمیں یاد نہیں کہ دو ڈھائی سال تک ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے کبھی 14 گھنٹے سے کم کام کیا ہو۔ دن اور رات کا فرق مٹ چکا تھا اور اگر تھا تو حضرت امیر مینائی کے الفاظ میں صرف تذکیر و تانیث کی الٹ پھیر تک:
دن مِرا روتا ہے میری رات کو
رات روتی ہے مِری دن کے لیے