تحریر : محمد فہیم شاکر
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلم اور ہندو کلچر نہ صرف مختلف بلکہ متضاد تھے ،دونوں قوموں کی معاشرت ، تمدن، زبان ، رسم الخط، عقیدے ، روایات، سوچنے اور غور و فکر کا انداز ، لباس وضع قطع، اٹھنا بیٹھنا، شادی بیاہ، اور پیدائس و اموات کی تقریبات سلام کرنے کے طریقے اور ان کے الفاظ الغرض کوئی بھی چیز مشترک نہ تھی۔ مسلم اور ہندو ثقافت میں تضادات کے حوالے سے ہمایوںاختر نے مئی 1946 میں بمبئی کے روزنامہ سٹار میں ایک نہایت شاندار مضمون لکھ کر روز مرہ زندگی میں مسلم ہندو کلچر کے فرق اور تضاد کی وضاحت کی تھی۔ مسلمان، ہندو، مسلمان ایک دوسرے کو ملتے وقت السلام علیکم کہتے ہیں ،
ہندو رام رام پکارتے ہیں
مسلمان کا نعرہ اللہ اکبر ہوتا ہے
ہندو کا نعرہ بندے ماترم ہوتا ہے
اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرتے ہیں ہزاروں جانداروں اور بتوں کی پوجا کرتے ہیں مسلمان اسلامی اخوت اور عالمگیر بھائی چارے کی تلقین کرتے ہین ہندو مت ذات پات کے اصول پر مبنی ہے مسلمان بت شکن ہے ہندو بت تراش اور بت پرست ہے مسلمان کے نزدیک تخلیق کا مقصد جھوٹ اور سچ میںفرق کی نشاندہی کے لئے ہے ہندو کییہاںرام لیلا کا تصور ہے ، یعنی خدا نے کھیل کود کے لئے تخلیق کی گناہ صرف خدا معاف کر سکتا ہے گنگا میں نہا لینے سے ہی گناہ معاف ہوجاتے ہیں مسلمان اپنی عبادت سنجیدگی اور خاموشی کے ماحول میں ادا کرتے ہیں
ہندو کی عبادت ایسے ماحول میں ہوتی ہے جہاں گھنٹیاں ، ڈھول اور کونج بجائے جاتے ہیں ،ناچ گانا ہوتا ہے مسلمان سود کو حرام اور اللہ سے جنگ سمجھتے ہیں ہندو اس آمدنی کو عزیز تر جانتے ہیں بیوہ عورت کے ساتھ درد مندی اور تلطف اور التفات کیا جاتا ہے بیوہ عورت کو دیوتا کی ناراضگی سے منسوب کیا جاتا ہے اور ستی ہونا پڑتا ہے بیوہ عورت کو دوبارہ شادی کی اجازت ہے بیوہ کو دوبارہ شادی کی اجازت نہیں ہے مسلمانوں کیاکثریت گائے کا گوشتکھاتی ہے ہندووںکی اکثریت گائے کی پوجا کرتی ہے اردو زبان دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے ہندی زبان بائیں سے دائیںلکھی جاتی ہے مسلمان غسل اور وضو سے پاکی حاصل کرتے ہیں ہندو گوبر اور گائے کے پیشاب جیسی نجاستوں سے پاکی حاصل کرتے ہیں ختنے مسلمانوںکی ابتدائی رسومات اور لازم ہیں ختنوں کی اجازت ہیں نہیں اسلام میںجسم فروشی کی سخت ممانعت ہے ہندووں میں دیو داسی کی شکل میں جاری ہے درختوں کو اسلام میں مذہبی طور پر کوئی اہمیت حاصل نہیں پیپل، کیلے اور تلسی کیدرخت کو مذہبی اعتبار سے متبرک سمجھا جاتا ہے اور ان کی پوجا پاٹ بھی کی جاتی ہے سوال یہ ہے کہ اگر ان دونوں کا تعلق ایک قوم سے تھا تو ان کی تہذیب و ثقافت میںاس قدرتضاد کیوں ؟ 1937 ء میں پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی ایک تقریر میں مسلم کلچر نامی کسی چیز کے وجود سے انکار کیا تھاحالانکہ ان ہی پنڈت جی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مذہبا ً تو ہندو تھے لیکن کلچر کے لحاظ سے مسلمان تھے۔ ہندووں کیطرف سے مسلمانوں کے کلچر سے انکار اور پھر اس کو مٹانے کی کوششوں سے مسلمانوں میں یہ ردِ عمل پیدا ہوا کہ وہ ہندوستان کو تہذیبی دائروں میں تقسیم کرنے کی بات کرنے لگے۔تاکہ مسلمان اور ہندو دونوں کو اپنی اپنی روایات ، معاشرت اور مذہب و تاریخ کے مطابق ترقی کے مواقع میسر آ سکیں ۔
یاد رہے کہ اس ” ثقافتی” جنگ سے کافی عرصہ قبل چند مسلمان مسلم ثقافت کو ہندو اثرات سے بچانے کی خاطر ‘ اپنی ایک سلطنت کے قیام کی آرزو” کر رہے تھے۔ 1926ء میں سید سلمان ندوی نے معارف کے فروری کے شمارے میں ہندوون کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کے شادی بیاہ کے مراسممیں فضول خرچی اوراظہار شان میں کے بارے میں لکھا تھا کہ ”ہندوستان میں ایک مدت سے علمائے اسلام اور اسلامی انجمنیں ان پر وعظ و پند کہہ رہی ہیںمگر نتیجہ صفر، ایسے ہی موقع پر سلطنت کی آرزو پیدا ہوتی ہے” ( شذرات سلیمانی، جلد اول ،ص 66) تاریخ ِ ہند پہ ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کی مذہبی شدھی کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیبی شدھی بھی ہندو دھرمکا حصہ بن چکی تھی، قیام پاکستان انکی یہ کوشش رہی کہ ہندو ثقافت مسلمانوں پہ جبری طور پر ٹھونس دی جائے ، اس لئے انہوں نے اپنے تہذیبی اداروں کے نام ہندی ساہتیہ سمیلن، گرام سدھار اور اچھوت ادھار رکھے تھے۔
ہندووں کے اسی طرزِ فکر و طرزِ عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سید سلمان ندوی نے جولائی 1946 میں لکھا تھا کہ ” اب ہندووں میں جوان سے لے کر بوڑھے تک پراچین/ ہندو تہذیب، سنسکرت تہذیب، زبان اور علوم زندہ کرنے میں مصروف ہے” اور آپ آج پاکستان کے اندر دیکھ لیجئے، ہندوستان کی فلمیں اور ڈرامے پاکستانی مسلمان بچوں کوہندی تہذیب و ثقافت ک دلدادہ بنانے میں دل و جان سے مصروف عمل ہیں ، اور آپ کو کراچی کا وہ واقعہ یاد ہوگا جس میں شادی کی ایک تقریب میں ایک بچی نے کہا تھا کہ پاپا فیرے تو ہوئے نہیں شادی کیسے ہو گئی؟ قابل غور بات تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی سیکولر بھارت کے مسلمانوں تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ان ہی خطرات کا سامنا ہے جو متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو تھا ۔ ان تو بھارت کے آئین کے تحت مسلم کلچر و ثقافت کو تحفظ ملنا چاہئیے تھا لیکن ہندو اب بھی اس مسلم کلچر کو مٹانے پر تلا ہوا ہے 1950 میں یو پی اسمبلی کے اسپیکر اور صوبائی کانگریس کے صدر شوتم داس ٹنڈن نے مسلمانوں سے ہندو کلچر اختیار کرنے ورنہ پاکستان کی راہ لینے کو کہا تھا، سید سلیمان ندوی نے ہند کی تاریخ کو ایک جملے میں سمو دیا کہ ٹنڈن جی کی یہخواہش کہ مسلمان ہندو کلچر اختیار کر لیں ، مسلملیگ کے اس دعوی کی تصدیق ہے کہ مسلمان اور ہندو دو قومیں ہیں اور دونوں کے دو کلچر ہیں ، اور پاکستان اسی کلچر کو حفاظت دینے کے لئے لیا گیا تھا ، آئیے عہد کریں کہ جو پاکستان لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اسے لا الہ الا اللہ کا گہوارا بنا دیں اور اپنی نسلوں کی تربیت اس ڈھنگ پہ کریں کہ وہ اس ملک کی نظریاتی ، ثقافتی اور زمینی سرحدوں کی حفاظت کر سکے۔
تحریر : محمد فہیم شاکر