تحریر : عقیل خان
الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ اسلام نے تمام انسانوں کو برابر کے حقوق دیے ہیں مگر افسوس ہم نے ان میں فرق ڈال دیا ہے۔ آج امیر غریب کا فرق وہ فرق ہے جس نے انسان کی انسانیت کو ذلیل کر رکھا ہے۔ آج امیر کے لیے سب کچھ ہے اور غریب کا اس دنیا میں کوئی نہیں۔اگر غریب کا کوئی ہے وہ بس اس کا خدا ہے۔ آج حسب عادت میں ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ ایک بریکنگ نیوز آئی۔ نیوز کچھ یوں تھی کہ لاہور پریس کلب کے سامنے کسان بھائیوں کے احتجاجی مظاہرے پر پولیس کالاٹھی چارج اور کریک ڈاؤن ۔ سو سے زائد کسانوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ کسان ناصر باغ جا کر اپنااحتجاج ریکارڈ کرانا چاہتے تھے مگر وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پولیس کے گلوبٹوں نے انہیںگھیر لیا۔ جب میں نے یہ نیوز دیکھی تو میرے ذہین میں ایک خیال نے جنم لیااورمجھے کچھ سوچنے پر مجبورکردیا۔ ہم کیسے مسلمان ہیں جو اپنے بھائیوں سے دُھرا سلوک کررہے ہیں۔ کیاہم سب مسلمان نہیں؟کیاپاکستان کے قوانین سب کے لیے یکساں نہیں؟کیا ہمارے قانون میں کوئی امتیازرکھا گیا ہے؟اگر قانون پر عمل کرانا ہے تووہ صرف غریبوں سے کرانا ہے؟کیاامیرلوگ اس قانون سے بالا تر ہیں؟ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہمارے دارالحکومت اسلام آباد میں قادری صاحب اور خانصاحب نے دھر نا دیا تھا۔
اس دھرنے میں پولیس کی موجودگی میں پارلیمینٹ اور پی ٹی وی پر حملہ ہوا اور کسی پولیس والے کی مجال نہیں تھی کہ وہ ان پر ہاتھ اٹھاتی اور آج ان غریب کسانوں پر یہ پولیس والے ایسے جھپٹے جیسے کئی دن کا بھوکا شکاری اپنے شکار پر چھپٹتا ہے۔ کیا سیاستدان مظاہر ہ یا دھرنا دے تو جائز اورغریب اپنے حقوق کے لیے آوازبلند کرے تو ناجائز ۔ویسے ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں اورہمارے ملک میں جمہوری حکومت قائم ہے مگر یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جہاں اپنا حق مانگناجرم سمجھا جائے۔ اگر ہم ایک نظر پاکستان پر ڈالیں تو پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ پاکستان کی معیشت میں زراعت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے کل آبادی کا تقریبا ً72 فیصد لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں جن کا ذریعہ آمدنی زراعت پر ہے پاکستان کی برآمدات میں ایک بڑا حصہ زراعت کا ہے پاکستان کی سر زمین بڑی زرخیز ہے پانچ دریاؤں کی سرزمین ہونے اور نہروں کے وسیع نظام کی وجہ سے پاکستان کی زمینیں سونا اگلتی ہیں۔ زراعت سے ہی ملک غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوتاہے
اگر کسی ملک کی غذائی ضروریات ملک کے اندر پوری ہورہی ہو تو وہ ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہو جاتا ہے۔اگر ملک میں زراعت مضبوط بنیادوں پو استوار نہ ہو تو پھر زرعی اجناس دوسرے ملکوں سے درآمد کرنا پڑتی ہیں ۔ الحمد للہ پاکستان غذا کی فراہمی میں خود کفیل ہے۔ پاکستان کی زرعی معیشت میں ہاری اور کسان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح صنعتی شعبے میں مزدور کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہے۔ لیکن یہ دونوں طبقات معاشی بدحالی اور وڈیروں، صنعتکاروں کے مظالم کا شکار ہیں۔پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود مربوط زرعی پالیسی تاحال وضع نہ کر سکا۔ 60 فیصد پانی آج بھی ضائع ہو رہا ہے۔افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
زرعی اعتبار سے پاکستان کا صوبہ پنجاب سب سے زیادہ زرخیز ہے اور تقریباًپورے ملک کو زرعی اجناس پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر افسو س کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں کسانوں کے ساتھ آئے روز زیادتی کی جارہی ہے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں کسان بھائی احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ابھی چند دن پہلے میں ایک بارات میں وہاڑی گیا ہوا تھا جب واپسی ہوئی تو ہمیں اطلاع ملی کی ساہیوال بائی پاس پر کسانوں نے روڈ بلاک کیا ہوا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت تک پولیس نے روڈ کو کھلوادیا گیا تھا۔ جب ساہیوال سے نکلے تو پھر اوکاڑہ بائی پاس بھی کسانوں نے بند کیاہوا تھا۔ٹریفک کی کافی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔کئی گھنٹوں بعد ہم وہاں سے نکلے۔ اب ذہن میں بار بار وہ سین آرہا تھا اس وقت بھی سننے میں آیا کہ ادھر بھی پولیس نے کسانوں پر ڈنڈوں کی برسات کی تھی۔کیا یہ کسان بس ڈنڈوں کے قابل ہیں؟
کسان ہمارے اس زرعی ملک کی شان ہیں۔ یہ ہمارے لیے دن رات ایک کرکے غذائی اجناس پورا کرتے ہیں۔ کبھی ان حکمرانوں نے سوچا ہے کہ ہم ان کو کیا سہولیات دے رہے ہیں؟ اگرکسان کے اخراجات کا اندازہ لگایا جائے اور انکم دیکھی جائے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ سارا فائدہ تو یہ آڑھتی اور منشی لے جاتے ہیں۔ کسان تو صرف دووقت کی روٹی بمشکل پوری کرپاتا ہے۔ وہ کسان جو دن رات، بارش ، آندھی وطوفان اورخوشی ہو یا غمی ہر حال میں اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے مگراس کے بدلے میں ہم کیا دے رہے ہیں وہ آپ سب کو پتہ ہے۔
حکمران پاکستان کو چاہیے کہ وہ کسان بھائیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دے ناکہ ان کے حق پر ڈاکہ ڈالے۔ٹریکٹر سے لیکر کھادوں تک،بجلی سے لیکر زرعی آلات تک کسانوں کوبلاسود آسان اقساط پرمہیا کریں۔ زمیندار اور کسان میں واضح فرق ہے ۔ زمین تو ہر پیسے والا شخص خرید سکتا ہے مگروہ کسان والامحنت طلب کام نہیں کرسکتا ۔ کسان بھائی پاکستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کسان بھائی کپاس، گنے کی پیداوار نہ کریں تو یہ بڑے بڑے صنعت کار بھوکے مرجائیں ان کے انڈسٹریر اور فیکٹریا ںبند ہوجائیںگی جس سے ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com