تحریر: ایم سرور صدیقی
اسلام کو دین ِ فطرت کہا گیاہے جو ہرقسم کی انتہا پسندی کے خلاف ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوںہے کہ اسلام اور انتہا پسندی اور دہشت گردی ایک دوسرے کی ضد ہیں اب اسلام کے نام پر قتل و غارت والا فلسفہ کسی کی سمجھ میںنہیں آسکتا اور نہ مسلمانوں کی اکثریت دہشت گردوںکو اسلام کے وارث تسلیم ہی کرسکتی ہے اس لئے عام لوگوں میں یہ تاثرپایا جاتاہے کہ انتہا پسند اسلام کی غلط تشریح کررہے ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کی سبکی ہورہی ہے مغربی دنیا اور اسلام دشمن قوتوںکے زہریلے پروپیگنڈے کے باعث مسلمان کے ساتھ دہشت گردی کو نتھی کردیا گیاہے حالانکہ بیشتر مسلم ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت سماجی اور معاشرتی اعتبار غربت کے ہاتھوں انتہائی مجبور ہے وطن ِ عزیز پاکستان میں تو 12 کروڑ سے بھی زیادہ شہری غربت سے بھی نچلی سطح پر زندگی گذار رہے ہیں غربت کی سب سے خوفناک شکل یہ ہے کہ سینکڑوں لوگ اپنے گردے بیچنے سے بھی دریغ نہیں کررہے، غربت سے تنگ لوگ اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں آئے روز اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔جن علاقوں میں انتہا پسندوں کا اثرورسوخ زیادہ ہے
ان میں عام آدمی کی حالت انتہائی قابل ِ رحم ہے وہاں نہ کوئی انڈسٹری ہے نہ صنعت۔۔۔ایک سیاحت وہاں کا واحد ذریعہ ٔ روزگار تھا جو دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ شمالی علاقہ جات کے شہری ان حالات کی وجہ سے زندگی سے عاجزآئے ہوئے ہیں سندھ پنجاب،بلوچستان کے زیادہ تر شہریوں کی حالت بھی سب کے سامنے ہے ملک کے چاروں صوبوں کے پوش علاقوںکو چھوڑ کر باقی شہروں کی بیشترآبادیوںمیں لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوںکو ترس رہے ہیںبھارتی، بنگلہ دیشی، فلسطینی، برما، افریقی، افغانی، عراقی مسلمانوں کی حالت ِ زار ایک الگ داستان در داستان ہے سب کے سب مسالک اور عوام کی اکثریت ملک میں شریعت کا نفاذ کرانا چاہتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے نظام ِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم توہر مسلمان کے دل کی آواز ہے یہ ملک بھی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور اس میں اسلام کی حکمرانی کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہونا چاہیے نظام ِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے نفاذ کیلئے امن ہی سب سے بہتر اور سب سے اچھا فارمولا ہے اسلام میانہ روی کا حکم دیتاہے
لیکن اسلام کے نام پر اپنے کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹنا، اسلام کے نام پر دہشت،خوف وہراس ، دین کے نام پر بم دھماکے،خودکش حملے،اسلام کے نام پر مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا،ٹرینوںپر حملے اور بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔۔ ایک اور اہم بات جو اسلام کی اصل روح ہے جب تک سٹیٹ کو ایک رفاہی ، فلاحی مملکت نہیں بنایا جاتااسلامی تعزیرات کو نافذنہ کیا جائے اس کیلئے بتدریج اسلامی قوانین پر عمل ہونا ضروری ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اسلامی نظام نافذ ہو بھی جائے پھر بھی جرائم اورغربت کی وجوہات ختم کئے بغیراسلامی سزائوںکیلئے ٹھوس حکمت ِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مختلف مکاتب ِ فکر کے علماء کرام، دانشوروں،اسلامی سکالرزاور ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔
ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ دیاہے ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتحاد، اتفاق ،مفاہمت سے اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذکر سکتے ہیں لیکن طاقت کے بل بوتے یابندوق تان کریا دہشت گردی کے زور پر کئے گئے فیصلے ملک و قوم کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں پاکستان میں سیاسی، لسانی،مسلکی الغرض کہ ہرقسم کی مسلح جدوجہد اسلام اور ملکی مفاد میں ہرگز، ہرگز، ہرگزنہیں ہے اب اپریشن ضرب ِ عضب کے ذریعے ملک بھر سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمہ کے لئے جو جدو جہد جاری ہے اسے پوری دنیا میں سراہا گیاہے انشاء اللہ مستحکم، خوشحال اور پرامن پاکستان آنے والی نسلوں کی امیدوںکا مرکز ثابت ہوگا اگرہم اپنی ساری انرجی،کوششیں، جدوجہد اور کاوشیں اسلام کی سربلندی، پاکستان کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کیلئے وقف کردی جائے تو اس سے نہ صر ف ہمارے ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوںکا تحفظ ہو گا بلکہ پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ بنانے کا خواب بھی پورا کیا جا سکتاہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخروکاشغر
تحریر: ایم سرور صدیقی