تحریر: ممتاز حیدر
مسلم میڈیکل مشن نے مقبوضہ کشمیر میڈیکل ٹیم بھیجوانے کے لیے بھارتی ہائی کمیشن میں ویزہ کے حصول کے لیے درخواست جمع کروا دی، پاکستانی ڈاکٹروں کی ٹیم بھارتی فوج کی فائرنگ سے زخمی کشمیریوں کے علاج کے لیے مقبوضہ کشمیر جانا چاہتی ہے، درخواست میڈیکل مشن کے نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر خالد حسین قریشی اورچیف کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر ناصر ہمدانی نے جمع کروائی۔ درخواست میں تیس افراد کے لیے ویزہ جاری کرنے کی درخواست کی ہے جس میں میڈیکل سپیشلسٹ ، آئی سپیشلسٹ ، آرتھوپیڈک سپیشلسٹ اور پیرامیڈیکل سٹاف کے افراد شامل ہیں درخواست جمع کروانے کے موقع پر مختلف شہروں سے آئے ہوئے سینئر ڈاکٹرز پروفیسر ڈاکٹر منصور علی خان ،پروفیسر ڈاکٹر سلطان عبداللہ،ڈاکٹر جاوید اقبال ،ڈاکٹر محمد الیاس ،ڈاکٹر شکیل ، ڈاکٹر عثمان، ڈاکٹر خاور اقبال ،ڈاکٹر احسان باری ،ڈاکٹر حافظ حسان و دیگر پیرا میڈیکل سٹاف بھی موجود تھے اس موقع پر ڈاکٹر خالد حسین قریشی نے کہا کہ یہ درخواست کسی سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ خالصتاً انسانی ہمدردی بنیادوں پر دی گئی ہے ، مسلم میڈیکل مشن دنیا بھر کے اداروں کی توجہ دلا رہا ہے کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے وہاں ہزاوں شہریوں بھارتی افواج کی فائرنگ سے زخمی ہو چکے ہیں۔
کشمیریوں نے بھارتی ڈاکٹروں سے علاج کروانے سے انکار کردیا ہے اور پاکستانیوں سے مدد کے لیے اپیل کی ہے۔ ہم ڈاکٹرز کشمیریوں کے علاج کے مقبوضہ کشمیر جارکر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحد سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھارت پر دبائوڈالے تاکہ ڈاکٹروں کو ویزہ فراہم کیا جائے۔ ہم گزشتہ دس سالوں سے کام کر رہے ہیں اور ہمارے پاس ڈاکٹرز کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے لہٰذا اسے ضرور اجازت دینی چاہیے ہم ڈاکٹرز ہیں اور ہر موقع پر خدمت کا کام کرتے ہیں اگر بھارت نے درخواست مسترد کر دی تو اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا جائے گا اور انسانی حقوق کے تمام فورم استعمال کریں گے تاکہ کشمیریوں کا علاج کیا جا سکے۔ انہوں نے دنیا بھر کے ڈاکٹرز سے اپیل کی کہ وہ بلاتفریق مذہب ہندو ہوں یا عیسائی انسانی ہمدردی کے تحت کشمیریوں کے علاج کے لے سرینگر پہنچیں۔ مسلم میڈیکل مشن کے چیف کواڈی نیٹر ڈاکٹر ناصر ہمدانی کا کہنا تھاکہ مقبوضہ کشمیر میں تیس رکنی ٹیم ضروری ادویات اور دیگر اشیا ء ساتھ لے کر جائے گی کشمیریوں نے بھارتی ڈاکٹروں سے علاج کروانے سے انکار کر دیا ہے مسلسل کرفیو کی وجہ سے ادویات اورغذائی اشیاء کی قلت پیدا ہو چکی ہے جبکہ زخمی افراد کا علاج بھی نہیں ہو پا ہا اس لیے عالمی اداروں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اپنا کردار ادا کریں۔
مقبوضہ کشمیر میں مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے متاثرہ کشمیریوں کی آنکھوں کے آپریشنز اورعلاج معالجہ کی دیگر سہولیات فراہم کرنے کیلئے ڈاکٹرز کی ٹیمیں بھجوائی جائیں گی۔ مقبوضہ کشمیر میں ڈاکٹروں کو مریضوں کے علاج معالجہ اور لوگوں کو خون کے عطیات دینے سے زبردستی روکا گیا۔ بھارتی فورسز نے پرامن مظاہرین کے احتجاج کو کچلنے کیلئے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا جس سے سینکڑوں کشمیریوں کی بینائی چلی گئی اور سینے و جلد کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بے شرمی سے فوجی طاقت کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔ اخبار نے کشمیر اور خسارے کا ورثہ نامی رپورٹ میں لکھا ہے بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سیاسی بات چیت شروع کرنے کی بجائے سٹیٹس کو (حالات کو جوں کا توں)بحال رکھنے کیلئے بے شرمی سے فوجی طاقت کا ستعمال جاری رکھے ہوئے ہے حالانکہ اس سٹیٹس کو کے ذریعے ہی لاکھوں کشمیریوں کو گزشتہ کئی سال سے محبوس رکھا جارہا ہے۔رپورٹ میں ان خوفناک مظالم کا تذکرہ کیا گیا ہے جو مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج نے 8 جولائی کو22 سالہ حریت رہنما برہان وانی کی شہادت کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شریک کشمیریوں پر توڑے،اخبار نے لکھا ہے کہ نوجوان حریت پسند برہان وانی کی خبر اتنی ہی تیزی سے مقبوضہ کشمیر میں پھیلی جتنی تیزی سے بھارتی فوجیوں کی چلائی جانے والی گولیاں اس تک پہنچی تھیں۔ان کی شہادت کے بعد پورے مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والی احتجاجی لہر ہنوز جاری ہے اور اس دوران خواتین اور بچوں سمیت مزید 50 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
برہان وانی گزشتہ ایک سال کے دوران اس وقت منظر عام پر آئے جب انہوں نے مٹھی بھر نوجوانوں کے ہمراہ بھارتی حکومت کو چیلنج کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ برہان وانی اور ان کے درجن بھر ساتھیوں کے پاس چند بندوقیں تھیں اور وہ دنیا کی سب سے بڑی فوج کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھے ابھی تک ایسے شواہد نہیں ملے کہ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے بھارتی فوج کے خلاف کوئی کارروائی کی ہو۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بھارتی فوجیوں کی تعیناتی کے خلاف علامتی احتجاج کررہے تھے۔ برہان وانی کی شہادت پر مقبوضہ کشمیر کے سینکڑوں مقامات پر لوگ گھروں سے باہر نکلے اور انہوں نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف احتجاج کیا۔ ان لوگوں کی اکثریت غیر مسلح تھی۔اس احتجاج کے جواب میں بھارتی فوج نے اس درجے کی وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا جس کا مظاہرہ خود اس نے بھی اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں نہیں کیا تھا۔بھارتی فوج نے کشمیریوں پر فائرنگ کی،آنسو گیس کے گولے فائر کئے اور پیلٹ گن کا استعمال کیا اور پھر مقبوضہ علاقے میں فوجی کرفیو نافذ کردیا۔ ہسپتال کی ایک پوری وارڈ میں20 بستروں پر پڑے نوجوانوں کی آنکھیں پیلٹ گن سے متاثر تھیں۔ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ جس ہسپتال میں تعینات ہے وہاں صرف ایک دن میں پیلٹ گن سے زخمی ہونے والے72 افراد کو لایا گیا۔ ایک اور ہسپتال بھی زخمی آنکھوں کے ساتھ لائے جانے والے کشمیریوں کی تعداد 180 تک پہنچ چکی ہے۔ ایک پیلٹ گن ایک وقت میں2 ملی میٹر سے 4 ملی میٹر کے تیز کناروں والے ایک سو انتہائی تیز رفتار چھرے فائر کرتی ہے۔ یہ چھرے آنکھ میں داخل ہونے کے بعد اپنے تیز کناروں کی وجہ سے مختلف سمتوں میں حرکت کرتے ہیں اور قرنیہ کو تباہ کردیتے ہیں۔ یہ چھرے ہڈیوں اور گوشت کو بھی آنکھوں سے باہر نکال لاتے ہیں۔
بھارتی حکام نے اس ساری صورتحال میں مقبوضہ کشمیر میں بلند ہونے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے پرانے حربے آزما رہے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں ”گو انڈیا گو بیک” نوشتہ دیوار ہے۔بھارتی فورسز نے پرامن مظاہرین کے احتجاج کو کچلنے کیلئے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا جس سے سینکڑوں کشمیریوں کی بینائی چلی گئی اور سینے و جلد کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ اسی طرح مسلسل کرفیو کی وجہ سے شدید غذائی قلت پیدا ہو چکی ہے۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے کی سزا دینے کیلئے بجلی و پانی بند کر دیا گیا ہے جس پر انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
لوگوں کو بچوں کیلئے دودھ تک ملنا مشکل ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں چاہیے تو یہ تھا کہ مظلوم کشمیریوں کو بھارتی فوج کے ظلم و بربریت سے نجات دلائی جاتی اور ان کے زخموں پرمرہم رکھا جاتا لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے پر بھی بین الاقوامی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور حریت کانفرنس کی بار بار کی اپیلوں کے باوجود غاصب بھارتی فوج کا ظلم روکنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا جارہا۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو مریضوں کے آنکھوں کے آپریشن کرنے سے روکنا اورانہیں ادویات مہیا نہ کرنے جیسی دہشت گردی کی دنیا میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔
حکومت پاکستان کو چاہئے کہ مسلم میڈیکل مشن کی ڈاکٹرز کی ٹیمیں کشمیر بھجوانے کیلئے ان کے ساتھ تعاون کرے۔اسی طرح آزاد و مقبوضہ کشمیر کے مابین تجارتی راستوں سے کشمیری بھائیوں کیلئے ادویات اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء پہنچانے کی اجازت دی جائے تاکہ مظلوم کشمیر ی بھائیوں کی مدد کرکے ان کے معمولات زندگی بحال کرنے میں مدد دی جا سکے۔
تحریر: ممتاز حیدر
برائے رابطہ:03349755107