تحریر: سلطان حسین
شام میں روس کی موجودگی کی وجہ سے روسی طیاروں کی ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے ان دنوں ترکی اور روس میں شدید کشیدگی چل رہی ہے جس کے فوری خاتمے کا فی لحال کوئی امکان نہیں آرہاہے اس وقت روس اور امریکہ دونوں شام میں داعش کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں دونوں کے اپنے اپنے مقاصد ہیں دونوں کا داعش کے خلاف کارروئیوں پر اتفاق کے باوجود اختلافات بھی چل رہے ہیں داعش کے خلاف کارروائیوں میں بے گناہ لوگ بھی مر رہے ہیں اور گذشتہ چار سالوں میں اڑھائی لاکھ شامی باشندے موت کی وادی میں پہنچ چکے ہیں’تقریبا دس لاکھ سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں’ایک کروڑ سے زیادہ لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، جس میں سے لگ بھگ چالیس لاکھ شام سے باہر جاچکے ہیں’ یہ حالات اس ملک کے ہیں جو قرون وسطی اور جدید دور میں بھی دنیا کے ملکوں کے لئے تہذیب و ثقافت کا چراغ روشن کرتا رہا ہے’ لیکن عرب بہاریہ کے نام پر دنیا کے طاقتور ملکوں نے شام میں ایسا خونیں کھیل کھیلنے میں مدد کی کہ آج وہاں ایک بھی عمارت صحیح و سالم نظر نہیں آرہی ہے۔
‘پورا شام کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے اور وہاں کے لوگ ہجرت کی شکل میں دوسرے ملکو ں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان حالات کے لئے کیا وہاں کے عوام ذمہ ہیں یا وہاں کی موجودہ بشار حکومت یا پھر وہ ممالک جو انقلاب کے نام پر تیل کا کھیل کھیل رہے ہیں’داعش کو ختم کرنے میں کس کا فائدہ ہے؟ جو ملک شام پر حملے کر رہے ہیں، ان کا داعش کے خاتمے سے کوئی لینا دینا ہے بھی یا نہیں، ابھی اس کے بارے میں کچھ کہنا بھی مشکل لگ رہا ہے ،لیکن شام یا اس کے دارالحکومت دمشق میں دنیا کے طاقتور ملکوں نے جو حالات پیدا کردیئے ہیں ،اسے شاید پٹری پر کبھی نہیں لایا جاسکے گا یا اگر لایا جا سکتا ہے تو اسے لانے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں’ یہ وہی دمشق ہے جہاں کی تہذیب و ثقافت پوری دنیا کے لئے ایک نمونہ تھی۔
،لیکن آج یہ شہر پوری طرح سے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکاہے مسلم دنیا کی بے اتفاقی کی وجہ سے شام کو آگ کے ڈھیر پر بیٹھایا جاچکا ہے اور خود کو تہذیب کا علمبردار کہنے والے ممالک موقع پرستی کے چولہے پر اپنے مقاصد کی روٹیاں سینک رہے ہیں فی الحال داعش پر حملے کو لے کر جس طرح سے عالمی سطح پر نیا کھیل کھیلا جارہا ہے ،اس سے آنے والے دنوں میں معاملے کے اور بھی الجھنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ روسی لڑاکوں طیاروں کا شام میں ہوائی حملے کا دور ابھی بھی جاری ہے اور اسی کی وجہ سے اب روس اور ترکی میں بھی کشیدگی پیدا ہوچکی ہے جسے امریکہ اور یورپ اب اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ایک اورمسلم ملک میں نیا کھیل کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے امریکہ کا کہنا ہے کہ روس جن ٹھکانوں پر حملے کر رہا ہے وہ اسلامک اسٹیٹ کے نہیں ہیں بلکہ شام کے صدر بشار الاسد کے مخالفین کے ہیں ادھر روس کا کہنا ہے کہ شام میں اس کے لڑاکوں طیارے ان جنگجوئوں کے ٹھکانوں پر حملے کر رہے ہیں۔
جو امریکہ کے بھی نشانے پر ہیں جبکہ امریکہ نے روس کی فوجی مہم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہوائی حملوں میں تال میل کی کمی ہے امریکہ روسی ہوائی حملے پر تنقید کررہا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ خود امریکہ کو شام میں ہوائی حملے شروع کئے ہوئے ایک سال ہو چکا ہے روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اس کی فضائیہ نے اسلامک سٹیٹ کے ہتھیاروں کو نشانہ بنایاہے نہ کہ شہریوں پر حملے کئے ہیں۔ اس پر شامی حکومت کے مخالفین کا کہناہے کہ روس نے شام کے کئی رہائشی شہروں پر حملے کئے ہیں ان کے مطابق جن علاقوں پر حملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں ہے جس پر داعش کا کنٹرول ہے۔ غور طلب ہے بات یہ ہے کہ شام میں چار سال سے چل رہی جنگ میں بشار حکومت کے خلاف کئی تنظیمیں لڑ رہی ہیں امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ روس کا رویہ آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے اور یہ مہم ناکام ہوگی،کیونکہ بشار کے مخالفین کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
نیو ٹائمس اخبار اور وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ کے مطابق روس ان مخالفین پر حملے کر رہا ہے جنہیں امریکہ کی حمایت ملی ہوئی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ان میں سے کچھ کو سی آئی اے نے ٹریننگ دی ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ روسی حملے شام کو مشکل کے حل سے اور بھی دور لے جائیں گے اور اس سے داعش کو ہی طاقت مل رہی ہے شام کے اہم اپوزیشن گروپ مانے جانے والے سیرین نیشنل کونسل ا نے کہا ہے کہ روسی ہوائی حملے صدر بشار الاسد کی مدد کے لئے ہورہے ہیں روس یہ سب اس لئے کررہا ہے کیونکہ وہ شام کے مستقبل میں حصہ داری چاہتا ہے روس جانتا ہے کہ جب نیا شام بنے گا تو سب کچھ ایران کو ملے گا روسی صدر پوٹن کے چیف آف اسٹاف ایوانو کے مطابق امریکہ اور فرانس کے شام پر حملے عالمی قانونی کے مطابق نہیں ہیں۔
کیونکہ اس کے لئے اقوام متحدہ یا شام کی حکومت کی کوئی منظوری نہیں ہے۔ ایوانو کے مطابق شام کے صدر بشارالاسد نے سرکاری طور پر روس سے فوجی مدد کی اپیل کی ہے۔ ایوانو نے کہا کہ روس اپنے قومی مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایسا کررہا ہے۔ ان کے مطابق ہزاروں روسی شہری داعش میں شامل ہو گئے ہیں اور روس لوٹنے کے بعد یہ لوگ روس کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں غور طلب بات یہ ہے کہ شام میں جاری جنگ کے بارے میںامریکہ اور روس میں ایک لمبے عرصے سے اختلاف چلا آرہا ہے ۔ امریکہ اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ صدر بشار کواقتدار چھوڑنا ہوگاامریکہ کاکہنا ہے کہ اتنے خون خرابے کے بعد اب جنگ سے پہلے کی پوزیشن میں نہیں لوٹا جاسکتا ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں سے لڑ رہاہے اور بشار حکومت قانونی حکومت ہے اس معاملے میں روس کی کودنے کے بعداب مغربی لیڈروں کے شام کی حکومت کے لیے روئیے میں کچھ کچھ نرمی دیکھی جارہی ہے اور وہ اس بات کے لئے تیار ہو رہے ہیں کہ سیاسی تبدیلی کے وقت بشارالاسد اقتدار میںرہ سکتے ہیں۔ شام کا مستقبل کیا ہوگا اس کے بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہا جاسکتااور اس وقت جو حالات چل رہے ہیں لگتا نہیں کہ مستقبل قریب میں یہ جنگ ختم ہوجائے گی یہ تباہی وبربادی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ان بڑی اور مسلم مخالف طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات پورے نہیں ہو جاتے اور ان مفادات کے حصول کے لیے اگر ترکی اور روس کاٹکراؤ بھی ضروری سمجھا گیاتو وہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گے لیکن ترکی عالمی سازشوں کو سمجھ رہا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اس ٹکراو سے بچا جاسکے۔
تحریر: سلطان حسین