تحریر ۔۔۔شفقت اللہ خان سیال
کیا ہم مسلمان ہیں جس کو دیکھو اس چکر میں ہے ۔کہ میں بڑا بنوں۔آج ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو نیچا دیکھانے کی سوچ رہا ہے۔چاہیے وہ درست راستے سے بڑا بنے یا پھر کوئی غلط کام کرنے سے۔آج جس کو دیکھو کو زن کے پیچھے لڑ رہا ہے۔کوئی زرکے پیچھے توکوئی زمین کے لیے اپنے ہی بھائیوں سے لڑ رہا ہے۔لیکن نہ جانے ایک دوسرے کو نیچا کس لیے دیکھا رہے ہیں ۔ج ہر سرکاری ملازم ایمان داری سے کام کریء تو ہر طرف انصاف ہو گا۔آج کوئی عام شہری کسی افسر کو آسانی سے مل نہیں سکتا۔اور اگر کوئی خوش قسمتی سے مل بھی جائے۔تو اس غریب کا وہ کام نہیں کریء گا ۔
حالت تو یہ ہے ۔کہ آج کل کے میٹ اور خاکروب حضرات بھی کسی عام آدمی کی بات تک نہیں سنتے ۔اگر ان خاکروب حضرات سے اپنی کسی نے گلی کی صفائی کروانی ہو تو پہلے اس کی جیب گرم کرنا پڑتی ہے۔پھر جاکر وہ بھی سنتے ہے ۔اور کام بھی کرتے ہیں ۔ایسے ہمارے ایمان دار فرض شناش افسران جو ٹی ایم اے کے ملازم ہے ۔کہ ان لوگوں نے سفید پوش افراد کو خاکروب کی نوکریاں دے رکھی ہے ۔جن کی حاضری میٹ یا سینٹری انسپکٹر حضرات لگا دیتے ہے۔جب کہ یہ سفید پوش حضرات صرف ہر ماہ تنخواہ لینے کے لیے ٹی ایم اے آتے ہے۔ان میں کئی تو افراد ایسے ہیں ۔جن لوگوں کے اپنے کاروبار ہے۔صبح سے شام تک اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں ۔
ہر ماہ تنخواہ ٹی ایم اے سے خاکروب کی وصول کرتے ہیں ۔یہ ہے ہم آج کے مسلمان اور یہی مسلمانیت رہے گئی ہے ہم لوگوں میں ۔۔۔افسوس تو ان پر ہے ۔جنہوں نے ان کو نوکریوں پر رکھا ۔جو ان کی حاضریاں لگا رہے ہے ۔یا جو ان کی تنخواہیں بنا رہے ہے۔آج اگر یہ ایمان داری سے روڈز گلیوں میں آکر کام کرئے ۔تو ہر طرف آپ کو صفائی ہی صفائی نظر آئے ۔لیکن یہ کرئے گا کون ۔ کوئی ایسا ایمان دار افسرہوگا ۔جو ان کے خلاف ایکشن لے گا ۔یہ جو ہر ماہ تنخواہوں کی مد میں سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ان سفید پوش خاکروب حضرات کا جوٹی ایم اے کے لوگ ساتھ دے رہے ہے ۔
جو ان کی حاضریاں لگا رہے ہے۔ان میٹ حضرات چیف سینٹری انسپکٹر وغیرہ جو ان لوگوں کا ساتھ دے رہے ہے۔ان کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے۔یہ کیا ایمانداری یا فرض شناشی ہے ۔یا ہم کو ہمارے دین اسلام نے ہم کو یہ سبق دیا ہے ۔کہ ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے حق پر ڈاکہ ڈالے۔جو حق دار لوگ ہے ان کو نوکری نہیں دی جاتی۔اور ایسے سفید پوش افراد کو نوکری بھی مل جاتی ہے اور تنخواہیں بھی مفت کی وصول کر رہے ہے۔آج کوئی ضرورت مند افراد نوکریوں کے لیے دھکے کھا رہے ہے۔او آج کے مسلمان تیری نماز کیا دنیا کو دیکھنے کے لیے ہے۔تیرے روزے کس کام کے ۔آج کوئی غریب مسلمان تیرے دروازے پر آجائے۔
بھائی میرے گھر میں میرے علاوہ اور کوئی نہیں کمانے والامہربانی کرو ۔میرے حال پر مجھے کو نوکری دے دو۔تویہ شخص ایسے افراد کو ایسی نظر سے دیکھتے ہے۔جیسے اس نے ان کا کوئی نقصان کر دیا ہو۔اور اس غریب کو کہتے ہے ۔ کہ چلتا بن ۔لیکن او نام کے مسلمان کیا بھول گیا ہے ۔کہ ایک دن مرنا ہے ۔اور اس وقت قبر میں جاکر اپنے رب کو کیا منہ دکھائے گا۔یہی کہ سفید پوش خاکروب حضرات کو نوکری پر رکھا ۔جو کاروبار اپنا سارا دن کرتے یا گھروں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں ۔ان کو ہر ماہ تنخواہیں کی دے رہے ہے۔اور خزانہ سرکار کو ہر ماہ تنخواہوں کی مد میں نقصان پہنچا رہے ہے۔کیا یہی مسلمانیت ہے ۔ٹی ایم اے جھنگ کی نقشہ برانچ کو ہی دیکھ لے ۔
لا تعداد مرتبہ ااطلاع دی گئی ۔کہ شیریں چوک جھنگ شہر ڈاکٹر منظر کے کلینک کے سامنے مارکیٹ بنی۔شیریں چوک مسجد اہلحدیث کے قریب ڈبل سٹوری سیلون روڈ پر تعمیر ہو۔جھنگ روڈ پاورلومز کے قریب حال تعمیر ہوئے۔جھنگ سٹی ریلوئے اسٹیشن کے ساتھ دوکانے تعمیر ہوئی ۔ایسے ہی شہر بھر میں لاتعداد تعمیراتی کا م ہوئے اور ہو رہے ہے۔جن میں مکان ۔دوکانے ۔مارکیٹ ۔پلازے وغیرہ ہوئے ۔یا تعمیر ہورہے ہے۔اگر کوئی نیک ایماندار افسران کی ٹیم جھنگ آکر شہر بھر کاوزٹ کرئے ۔اور نقشہ برانچ سے ان کے نقشے چیک کر لے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔کوئی تو ایسا نیک اور ایماندار افسران کی ٹیم جھنگ آئے جو جھنگ کے بارے سوچے۔