آئے دن ہمارے دانشور یہ نظریہ اور فکر و فلسفہ پیش کرتے رہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کا تصور ایک خواب ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امت کا اتحاد مفروضہ ہے، اور مسلم راہنمااپنے سادہ لوح عوام کو مفروضے پر جمع کرنے کی باتیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہاں چند اصولی باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلی اصولی بات یہ ہے کہ اُمت کا تصور کسی فلسفی، مفکر اور سیاستدان نے نہیں دیا، بلکہ اس کا تصور خود ربِ کائنات نے قرآن میں اورآپ ﷺ نے احادیث میں دیا ہے،چنانچہ قرآن کی سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 92 ہے: ’’یقین رکھو کہ تم ایک اُمت ہو اور میں تمہارا رب ہوں،میری عبادت کرو۔‘‘ بخاری شریف کی حدیث نمبر 6011ہے: آپﷺنے فرمایا:’’مسلمان آپس میں پیار ومحبت،رحم وشفقت اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کہ جسم کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ لہٰذا یہ کہہ دینا کہ مسلم اُمہ کا اتحاد اور اس کی تشکیل ایک خواب ہی رہی ہے، اس کا وجود کہیں نظر نہیں آیا۔ خلافِ حقیقت اور زمینی حقائق جھٹلانے والی بات ہے۔ سلطنت عثمانیہ نے ایشیا، افریقہ اور یورپ بیک وقت تین براعظموں پر700سال تک حکومت کی۔کیا یہ اُمہ کے تصور کے بغیر ممکن ہوسکتا تھا؟اور یہ سوال کہ دنیا میں مذہب کے نام پر سب سے زیادہ جنگیں ہوئی ہیں، تاریخ کو مسخ کرنے والی بات ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں جتنے لوگ جنگوں میں مرے ہیں اس کا 78فیصد گزشتہ ساڑھے پانچ سو سالوں میں ہلاک ہوئے ہیں، اور اکیسویں صدی میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور خوفناک جنگیں ہوئیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ خونریزی سیکولرازم، کیپٹل ازم اور لبرل ازم نے کی ہے۔ آج امریکا جس بنیاد پر کھڑا ہے اس میں 10کروڑ لوگوں کا خون ہے، جبکہ اسلامی تاریخ کے 15سو سال کے اندر 10لاکھ افراد بھی قتل نہیں ہوئے۔ انقلابِ فرانس، انقلابِ روس اور انقلابِ چین میں بھی 8 کروڑ سے زیادہ لوگ قتل کیے گئے، یہ تینوں سیکولر انقلاب تھے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں مجموعی طور پر 11کروڑ سے زائد لوگ قتل کیے گئے۔ آج بھی جتنی قتل و غارت مذہب کے نام پر ہورہی ہے اسے کہیں زیادہ ہوسِ ملک گیری اور دنیا کے وسائل پر قبضے کی جنگوں میں مارے جارہے ہیں۔کیا یہ مذہب سکھاتا ہے کہ ایسا کرو؟؟
’’اسلامی بلاک‘‘کا نظریہ ذوالفقار علی بھٹو یا کسی اور سیاستدان نے نہیں بلکہ خالق کائنات نے قرآن میں دیا ہے۔ سورۃ التغابن کی دوسری آیت ہے: ’’وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔‘‘ اُمت کے لئے جغرافیائی حدبندیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ رنگ اور زبان، نسب وخاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے۔ ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہوجاتے۔ اختلافِ رنگ وزبان اور وطن وملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں۔ فقہائے اسلام اور علماء کا متفقہ فیصلہ ہے دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت اور ایک قوم ہیں اور دنیا بھر کے کافر الگ ملت اور قوم ہیں۔ حضور ﷺنے عملاً یہی تعلیم دی تھی۔ قریش کے ابوجہل سے جنگ کی اور بلال حبشیؓ کو سینے سے لگالیا، جو افریقہ سے آئے تھے۔ صہیبِ رومیؓ روم اور سلمان فارسی ؓ ایران سے آئے تھے ان کو اپنے دامن محبت میں جگہ دی۔
جب ہم وحدت امت کی بات کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ موجودہ تمام اسلامی ممالک اپنی اپنی جغرافیائی حدود ختم کرکے ایک نئی جغرافیائی وحدت میں تبدیل ہوجائیں،بلکہ جس طرح آج دنیا کے مختلف خطوں میں علاقائی، نسلی،لسانی بنیاد پر ممالک کی تنظیمیں موجود ہیں،اس طرح مسلمان ممالک کا بھی اپنا کوئی ایسا مشترکہ ادارہ موجود ہو جو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی ترجمانی کرسکے۔ اسلامی تاریخ میں الگ الگ خطوں میں الگ سلطنتوں کی مثالیں موجود رہی ہیں۔ تصورِ ممالک اور تصور ِمسلم امہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔قائد اعظم نے کہا تھا پاکستان اس لئے بنا رہا ہوں تاکہ مراکش سے لے کر چین تک عظیم مسلم اتحاد قائم ہو۔ یہ ایک نظریاتی، مذہبی، دینی ریاست ہوتی ہے جہاں برتر قانون قرآن وحدیث ہوتے ہیں۔ اگر مشرقی پاکستان جدا ہوا ہے تو اس کا سبب وہ نہیں جو آج کے دانشور بیان کرتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اصل وجہ مذہب نہیں بلکہ مذہب سے انحراف ہی ہے۔ یہ نسلی تعصب تھا جس نے بنگالیوں کو جدا ہونے پر مجبور کیا۔
مذہب کی بنیاد پر اتحاد صرف اسلام میں ہی نہیں، بلکہ عیسائیت اور دیگر مذاہب میں بھی ملتا ہے۔ دیکھیں! ایک امریکا پر حملہ ہوتا ہے تو 42 عیسائی ممالک جمع ہوجاتے ہیں۔ توہین رسالت کے مرتکب چارلی ایبڈو پرحملہ ہوجاتا ہے تو اگلے ہی روز سارے پورپی ممالک ’’ہم چارلی ہیں‘‘ کا نعرہ بلند کردیتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں کہ ان ممالک کے درمیان آخر کیا قدر مشترک کیا ہے؟
دور نہ جائیں! ابھی دو دن قبل امریکا میں جو الیکشن ہوئے ہیں، اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جو جیت ہوئی ہے، اس میں اسلام اور مسلم دشمنی کا بھی ایک فیکٹر تھا حالانکہ پوری دنیا یہ کہہ رہی تھی کہ ٹرمپ جیسا متعصب شخص سپرپاور امریکا کا صدر نہیں بن سکتا۔ علامہ ابن خلدونؒ کا قول ہے کہ تعصبات، نسلی امتیازات اور مذہب کا سیاست میں گہرا اثر ہوتا ہے۔‘‘ بھارت میں مودی کا حکمران بننا اور امریکا میں ٹرمپ کی جیت اس کی یہ تازہ مثالیں ہیں۔ اس کی کچھ تفصیل ’’سیموئیل پی ہنٹنگٹن‘‘کے مقالات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
آج مسلم ممالک میں جو کچھ ہورہا ہے، فرقہ واریت، ماردھاڑ اور خانہ جنگی ہے، اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس قتل و غارت میں بھی یہی’’ کافر صنم‘‘ نظر آتا ہے۔ یاد رکھیں اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق واتحاد پر دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت، بھائی چارہ، ایمان، اتحاد اور یقین مسلمانوں کا ماٹو ہے۔ آپﷺنے حجۃ الوداع میں حکم فرمایا تھا: ’’دیکھو! باہمی اختلافات میں نہ پڑ نا۔‘‘ قرآن میں ہے:’’وَلَا تَفَرَّقُوْا‘‘ ’’اختلاف ہرگز نہ کرو۔‘‘ آج اگر امت مسلمہ زوال وغیرہ کا شکار ہے تو اس اصل وجہ یہی اتفاق واتحاد کا فقدان ہے۔