تحریر : محمد شاہد محمود
پروفیسر حافظ محمد سعید امیر جماعة الدعوة پاکستان کشمیر پر بھارتی قبضہ کی راہ ہموار کرنے کیلئے جس طرح بددیانتی کی گئی، انصاف کا خون کیا گیا ، اخلاق و شرافت کی دھجیاں اڑائی گئیں اورسچائی و صداقت کا جنازہ نکالا گیا… اس کی یقیناً تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 3جون 1947ء کو مائونٹ بیٹن نے مسلم لیگ اور کانگریس کے رہنمائوں کے ساتھ میٹنگ میں تقسیم ہندکا پلان رکھا اس پلان میںپنجاب اور بنگال کے اضلاع کی تقسیم کی بھی نشاندہی کی گئی تھی اور ضلع گورداسپور کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا تھا جب 14اگست کا سورج طلوع ہوا تو ضلع گورداسپور کے مسلمان قیام پاکستان کی خوشیاں منا رہے تھے 17اگست کو اچانک یہ خبر بجلی بن کر ان پر گری کہ صرف تحصیل شکر گڑھ پاکستان میں شامل کی گئی ہے
باقی تین مسلم اکثریتی تحصیلیں بٹالہ، گورداسپور اور پٹھان کوٹ بھارت میں شامل ہو چکی ہیں۔ یہ علاقے صرف اس لیے بھارت کو دے دیئے گئے تاکہ اس کا کشمیر کے ساتھ زمینی راستہ قائم ہو سکے۔ ایک طرف کشمیر میں بھارتی در اندازی کے یہ مذموم اور گھنائونے منصوبے بن رہے تھے اور دوسری طرف ریاست جموں کشمیر میں مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے اور اس میں بھارتی فوج داخل کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ 15اگست سے پہلے راشٹریہ سیوک سنگھ اور سکھ ریاستوں کے تقریباً 50ہزار سکھ رضاکار کشمیر بھیج دیئے گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کی آبادیاں لوٹ لیں، گھر ویران کر دیئے، مسجدیں شہید کر دیں، عفت مآب خواتین کی عصمتیں تار تار کیں، سفید بالوں والے بوڑھوں کو زمین پر رینگنے اور چاٹنے پر مجبور کیا
معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں میں پرویا اور اچھالا گیا۔ حد یہ ہے کہ مسلمانوں پر حملوں اور ان کے قتل عام کی ابتدا مہاراجہ ہری سنگھ جو اپنی فوج کا کمانڈر انچیف بھی تھا…… نے خود اپنے ہاتھوں سے کی۔ تحصیل اکھنور میں اس نے خود گولی چلائی۔ ضلع جموں کے کھنہ چک کے مہاجر کیمپ پر عین عیدالفطر کے روز اپنے ہاتھوں سے گولی چلا کر بیسیوں مسلمانوں کو خون میں نہلایا اور تڑپایا۔ مہاراجہ کی شقاوتِ قلبی، بے رحمی، سفاکی اور مسلم دشمنی کے جذبات کو دیکھ کر اس کے فوجی، سکھ جتھے ، RSSکے غنڈے ازخود شیر اور دلیر ہو گئے وہ جہاں مسلمانوں کو دیکھتے بھوکے درندوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتے، انہیں گولیوں سے بھون ڈالتے، نیزوں،تیروں، تلواروں اور برچھیوں سے چھلنی کر کے رکھ دیتے۔
کشمیری مسلمانوں کے قتل عام پر پاکستانی اور قبائلی عوام کا بے چین و مضطرب اور بے تاب و بے قرار ہونا فطری امر تھا چنانچہ قبائلی عوام، مجاہدین اور وہ کشمیری مسلمان فوجی جو تقسیم سے قبل برطانوی فوج میں تھے از خود اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کیلئے نکل پڑے۔ ان کے پاس نہ تو باقاعدہ اسلحہ تھا اور نہ یہ منظم فوج کی طرح تھے۔ بس جذبہ ایمانی تھا جس کی بدولت یہ مہاراجہ کی فوج، سکھ جتھوں، RSSکے غنڈوں، جدید ترین اسلحہ سے لیس بھارت کی ریگولر آرمی اور ان کی پشت پر جنگ کی کمان کرنے والے انگریز فوجی افسروں سے ٹکرا گئے۔
یہ افرادی قوت اور اسلحہ کی برتری کی نہیں بلکہ ایمانی جذبوں کی جنگ تھی چند ہفتوں میں مجاہدین نے 4144مربع میل علاقہ واگزار کروا لیا۔ مظفرآباد میں مہاراجہ کی فوج کی کمان کرنے والا کرنل نرائن سنگھ پہلے ہی حملے میں مارا گیا۔ مظفر آباد سمیت کئی علاقوں کو آزاد کروانے کے بعد مجاہدین نے پیش قدمی شروع کی تو ان کا اگلا پڑائو اڑی تھا۔ اڑی میں مجاہدین اور مہاراجہ کی فوج کے چیف آف سٹاف بریگیڈیر راجندر سنگھ کا ٹکرائو ہوا اور راجندر سنگھ اس حملے میں اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ اب مجاہدین نے دوبارہ پیش قدمی شروع کر دی یہاں تک کہ وہ مہوا کے بجلی گھر پر قابض ہو گئے جہاں سے سری نگر کو بجلی فراہم کی جاتی تھی۔
بجلی گھر پر قبضہ سے سری نگر تاریکی میں ڈوب گیا۔ مجاہدین کی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ دہشت زدہ اور سراسیمہ ہو کر جموں کی طرف بھاگ اٹھا۔ مہاراجہ کے پایہ تخت چھوڑ کر بھاگنے کے بعد کانگریس نے ایک طرف مہاراجہ کے نام سے الحاق کی جعلی دستاویز تیار کر کے ریاست میں فوجیں داخل کر دیں اور دوسری طرف نہرو نے اپنی پٹاری میں سے شیخ عبداللہ کو نکالا جو اسی مقصد اور اسی وقت کی خاطر تیار کئے گئے تھے۔ ظاہر بات ہے اس مشکل ترین وقت میںمیر جعفر اور میر صادق کا جو کردار شیخ عبداللہ کر سکتے تھے وہ کوئی دوسرا نہ کر سکتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت شیخ عبداللہ نہرو کے ہاتھوں کھلونا نہ بنتے تو آج پوری ریاست جموں کشمیر آزاد ہوتی۔
ریاست جموں کشمیر کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر انگریز اور بھارتی فوج کے افسروں نے مل کر حملے کا پروگرام بنایا اس سلسلے میںانگریز اور بھارتی فوج کا باہم اشتراک اس قدر تھا کہ ریاست پر حملہ کیلئے بنایا گیا ہیڈکوارٹر بھی انگریز اور ہندوستانی افسروں پر مشتمل تھا۔ واضح رہے
تقسیم کے بعد بھارت کے حصے میں آنے والی فوج کی تعداد 4لاکھ تھی۔ اسے فضائیہ کی برتری بھی حاصل تھی۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ 27اکتوبر کی سیاہ شب کو بھارت نے اپنی فوج ریاست میں داخل کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ اس سے پہلے ہی ریاست میں داخل کر چکا تھا۔ بھارت کے یہ فوجی، سکھ جتھے، RSSکے غنڈے اور مہاراجہ کے فوجی سب مل کر بھی جب پھسپھسے، پانی کے بلبلے اور ناکارہ ثابت ہوئے تو پھر بھارت نے ٹینکوں اور توپوں کی مدد سے 27اکتوبر کی رات کو اعلانیہ حملہ کیا۔ اس حملہ میں ہزاروں فوجیوں کے علاوہ رائل انڈین ایئر فورس بھارتی فضائیہ کے 100طیاروں، بے شمار ٹینکوں اور توپوں نے حصہ لیا۔ بھارت کی ریگولر فوج جسے فضائیہ، ٹینکوں اور توپوں کی مدد حاصل تھی اس کے اور مجاہدین کے درمیان ایک معرکہ بارہمولہ میں ہوا۔ اس معرکہ میں بھارتی فوج کی کمان کرنے والے کرنل رائے کو جلد ہی اندازہ ہو گیا
اسلحہ اور افرادی قوت کی برتری کے باوجود مجاہدین کا مقابلہ کرنا اس کے بس میں نہیں۔ چنانچہ اس نے پٹن کی طرف پسپا ہونے کا فیصلہ کیا۔ پٹن بارہمولہ کو سری نگر سے ملانے والی جرنیلی شاہراہ پر واقع ہے اور یہاں سے سری نگر صرف 17میل ہے۔ کرنل رائے پسپا ہونے کے باوجود مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد بھارتی فوج کو اور بھی کئی محاذوں سے پسپا ہونا پڑا۔ پے درپے پسپائی اور کشمیر کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کرجواہرلعل نہرو ہراساں و لرزاں ہو گئے۔
چنانچہ نہرو کی ایما پر فیلڈ مارشل آرکنلک جو برطانوی ہند افواج کے ہندوستان میں آخری سپریم کمانڈر تھے بذریعہ طیارہ لاہور پہنچے اور بانی پاکستان سے یوں گویا ہوئے اگر پاکستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں جو اب قانونی طور پر ہندوستان کا حصہ ہے تو پاکستان آرمی میں کام کرنے والا ہر انگریز افسر فوری اور قطعی طور پر مستعفی ہو جائے گا۔بانی پاکستان اس دھمکی کو بالکل خاطر میں نہ لائے اور انہوں نے جنرل گریسی کو کشمیر پر حملے کا حکم دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ گریسی نے حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ادھر مجاہدین کی پیش قدمی بدستور جاری تھی۔تب نہرو بھاگم بھاگ سلامتی کونسل پہنچے اور جنگ بندی کی دہائی دی۔ پاکستانی حکمرانوں کی یہ فاش اور سنگین تر غلطی تھی کہ وہ سلامتی کونسل کے ذریعے نہرو کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اور سیز فائر کو قبول کر لیا۔
نہرو کے سلامتی کونسل پہنچنے کی دو وجوہات تھیں ایک یہ کہ وہ مجاہدین کی یلغار سے باقی ماندہ کشمیر کو بچانا چاہتے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ بھارتی فوج کے ریاست پر حملہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد موسم سرما اور برفباری شروع ہونے والی تھی۔ اگر ایسے حالات میں بھارتی فوج جموں کشمیر میں پھنس جاتی تو اس کی قوت، طاقت اور مرکزیت بالکل ہی بکھر اور نابود ہو جاتی اور عسکری اعتبار سے اسے ایسا نقصان پہنچتا کہ جس کی تلافی شائد کبھی ممکن نہ ہوپاتی۔
یہ جموں کشمیر کی آزادی کا بہترین موقع تھا جو ہمارے حکمرانوں نے ضائع کر دیا۔ اس وقت سے اب تک یہ مسئلہ لاینحل چلا آ رہا ہے۔ بھارت کا مفاد اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر کبھی بھی حل نہ ہونے پائے جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کا نقصان صرف پاکستان کو ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اہل کشمیر کی پاکستان کے بارے میں جو امیدیں اور توقعات تھیں وہ مجروح ہو گئیں، اعتماد کو ٹھیس پہنچی، پاکستان کے وقار میں کمی واقع ہوئی،مسئلہ کشمیرحل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مسائل و مصائب میں اضافہ ہوا اور بھارت کو افغانستان میں اڈے بنانے کا موقع ملا۔ان حالات میں یہ کافی نہیں کہ ہم ایک دن اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کر لیں اور باقی سارا سال غفلت کا شکار رہیں۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم اور حکمران ایک ہوں۔ سب سے زیادہ ذمہ داری میاں نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔
میاں نواز شریف نے جاتی عمرہ کے نام سے رائیونڈ میں بستی تو بسا لی لیکن کیا وہ اپنے اصل و طن مقبوضہ جموں کشمیرکو بھول چکے ہیں۔۔۔۔۔۔؟جہاں بھارتی فوج بد ترین مظالم ڈھا رہی ہے۔ انسانیت اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے، آبادیوں کو ویران اور قبرستانوں کو بسا رہی ہے۔ ان مظالم پر امریکہ، برطانیہ اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش ہیں۔ کیوں۔۔۔۔؟ اس لیے کہ مسئلہ صرف اسلام ہے۔ بھارتی فوج کے مظالم اہل کشمیر کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہیں کر سکے۔ وہ ڈٹے ہوئے اور جمے ہوئے ہیں۔ ان کے حوصلے مائل بہ پرواز اور ولولے مصائب سے بے نیاز ہیں۔ وہ ستونِ دار پہ سروں کے چراغ رکھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ستاروں کے خون سے ہی صبح کا اجالا ہوتا ہے ۔ انہیں یقین ہے کہ ظلم کے سائے سمٹ کر ،آزادی کی صبح طلوع ہو کراور غلامی کی زنجیر کٹ کر رہے گی۔
تحریر : محمد شاہد محمود