تحریر : طارق حسین بٹ شان
نائن الیون مسلمانوں کے قتلِ عام کا ایسا صیہونی منصوبہ تھا جس میں لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جس کے نتیجے میں افغان مہاجرین کے ریلے نے پاکستان کا رخ کیا اور اس کی معیشت اور معاشرت کو کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا جس سے وہ تا حال سنبھل نہیں پائی ۔ ہجرت کے اس ناگہانی ریلے نے پاکستان کی سمت کو تبدیل کر دیا ہے اور ایک پر امن ملک شدت پسندی کی ایسی راہ پر چل نکلا ہے جس کا انجام کسی کو معلوم نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ کسی بھی مسلم ریاست پر اس طرح کی فوج کشی کی مثال بہت کم ملتی ہے جسے امریکہ اور اس کے حواریوں نے افغانستان پر آزمایا تھا۔ستم بالائے ستم یہ کہ اتنی بڑی جا رحیت کے بعد جارح خود کو حق بجانب ٹھہرا رہا ہے اور فریقِ ثانی کو قصور وارگردان رہا ہے جبکہ فریقِ ثانی کا کوئی قصور نہیں تھا۔
سارا جھگڑااسامہ بن لادن کا تھا لیکن امریکہ نے اسے ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا اور یوں تاریخ کی وہ لڑائی شروع ہو ئی جس سے پوری دنیا غیر محفوظ ہو گئی ہے۔کچھ لوگ اسے تیسری عالمگیر جنگ کی خشتِ اول بھی قرار دے رہے ہیں لیکن بہر حال تیسری عالمگیر جنگ اپنی پوری شدت اور تباہ کاریوںکے ساتھ شروع نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی اس کے شواہد ضرور ملتے ہیں کہ تیسری عالمگیر جنگ کی ابتدا ہو چکی ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان حتمی نتیجے تک جاری رہے گی ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طالبان نے امریکہ کے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی اور وہ اسے امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے تیار نہیں تھے جبکہ امریکہ اس کی حوالگی کا خواہش مند تھا۔امریکہ اس مسئلے کو کسی دسرے انداز سے بھی حل کر سکتا تھا۔
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف خصوصی اپریشن ہو سکتا تھا تو پھر ایسا افغانستان میں کیوں نہیں ہو سکتا تھا ؟ لیکن دماغ میں فتور تھا اس لئے جارحیت کو ترجیح دی گئی ۔ اب تحریکِ طالبان پاکستان کا امیر ملا فضل اللہ افغانستان میں رو پوش ہے اور پاکستان اس کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن امریکہ کی کٹھ پتلی افغان حکومت اسے پاکستان کے حوالے کرنے سے گریز اں ہے ۔ بھارت اور امریکہ اس کی حوالگی کے پاکستانی مطالبے کو گھاس نہیں ڈال رہے ۔جنرل راحیل شریف نے بھی ملا فضل اللہ کی حوالگی کی اپیل کی ہے لیکن سب بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں اور پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لئے جلتی ہوئی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ جب امریکہ کے ذاتی مفادات دائو پر لگے ہوئے تھے تو افغانستان پر لشکر کشی کا حکم صادر ہو گیا تھااور اس کے بعد جو تباہی ہوئی تھی اس پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
تاریخ امریکہ کو اس سارے قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے جبکہ ملا فض اللہ کے معاملے میں پاکستانی مطالبے پر کوئی بھی کان دھرنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دھشت گردی کی وارداتیں تواتر سے وقوع پذیر ہو رہی ہیں جس سے ہر سو اانتشار کا دور دورہ ہے اور یہی بھارت اور امریکہ کا ایجنڈہ ہےْ۔،۔ تاریخ کا ستم دیکھئے کہ تاریخ نے افغانستان پر امریکی جا رحیت کے حامیوں اور پالیسی سازوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا ہے کیونکہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں جو ا افغانستان پر حملے کے وقت ان کے پیشِ نظر تھے۔اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ افغانیوں نے امریکی سپر میسی کے سامنے سر نگوں ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
غلط پالیسیوں کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ انانیت کی سان پر چڑھی ہوئی پالیسیوں کا ایسا ہی انجام ہوا کرتا ہے لیکن انسان کو سمجھ نہیں آتی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ افغانی جارحیت کے نتیجے میں افغانستان امریکی فوجیوں کا قبرستان ثابت ہورہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ امریکی قیادت افغانستان کے بارے میں اندازوں کا صحیح ادراک کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔وہ اسے صرف آگ اور خون کا کھیل سمجھ کر داخل ہوئی تھی۔اسے کیا خبر تھی کہ یہ آگ اور خون سے زیادہ ایمان اور مذہب کی جنگ بن جائیگی۔اس جنگ میں پاکستان نے بھی غلط سمت کا تعین کیا تھا۔وہ افغان مجاہدین جن کے ساتھ مل کر اس نے روس جیسے ریچھ کوآہنی نکیل ڈالی تھی پاک فوج انہی افغا نیوں پر چڑھ دوڑی تھی اور ان کاجینا دوبھر کر دیا تھا۔اسلحہ، بارود اور ہوائی حملوں نے افغانیوں کو اس راہ پر ڈال دیا جسے انتہا پسندی سے موسوم کیا جاتا ہے۔کوئی یوں ہی بیٹھے بٹھائے کسی کے گھر میں آگ لگا دے تو اہلِ خانہ کیا کریں گئے ؟ کیا وہ آگ کے شعلوں میں اپنے دشمن کو نیست و نابود کرنے کی قسمیں نہیں کھائیں گئے ؟ بالکل کھائیں گئے اور یہی سب کچھ افغانیوں نے بھی کیا تھا۔
امریکہ غاصب تھا اور اس نے زبردستی افغانستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ عالمی برادری میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ امریکہ کو جارح کہتی اور اس سے افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کا مطالبہ کرتی۔الٹا ہوا یہ کہ افغانیوں کو دھشت گرد کہہ کر ان کے خلاف عالمی اتحاد تشکیل دے دیاگیا جس میں پاکستان نے فرنٹ مین کا کر دار ادا کیا۔جنرل پرویز مشرف کی اپنی مجبوریاں تھیں ۔ وہ بزمِ خویش یہ سمجھ رہا تھا کہ امریکہ کے سنگ چلنے سے اس کا اپنا اقتدار محفوظ ہو جائے گا لہذا وہ کوئی ایسی راہ اپنا ناچاہتا تھا جس میں اس کے ذاتی اقتدار کودوام نصیب ہو جائے ۔جنرل پرویز مشرف کیلئے پاکستان کی بجائے اس کا اقتدار اس کا پہلی یرجیح تھا ۔وہ نعرہ تو یہی بلند کرتا رہتا تھا کہ سب سے پہلے پاکستان لیکن اصل میں اس کے معنی سب سے پہلے اقتدار تھا۔اپنی حکمتِ عملی کے تحت اس نے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی تو وہ چندسالوں کے اقتدار کا مزہ لوٹنے میں تو ضرور کامیاب ہو گیا لیکن قوم کو جس دلدل میں پھنسا کر چلا گیا اس سے پاکستان کی جان نہیں چھوٹ رہی۔
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش سے اس کی دوستی اپنے اقتدار کی طوالت کی خاطر تھی ۔وہ دونوں اس زمانے میں یوں شیرو شکر تھے کہ ان کے درمیان سے ہوا کا گزر بھی مشکل تھا۔ان کا مشترکہ دشمن افغانی تھے اورافغانیوں کا تایا پانچا ان کی پہلی ترجیح تھی۔ افغانی طالبان ملا عمر کی قیادت میں امریکہ سے نبرد آزما تھے اور پاکستان اس وقت امریکی گود میں بیٹھ کر افغانیوں کو مار رہا تھا لیکن کیا امریکہ افغانیوں کو ختم کر سکا؟کیا افغانیوں نے شکست تسلیم کر لی؟کیا افغانی امریکی سپر میسی کے سامنے سر نگوں ہو گئے ؟ کیا افغانی اپنی جنگ ہار گئے؟کیا دنیا امن سے ہمکنار ہوئی؟کیا افغا نیوں نے جنگ سے توبہ کر لی؟ فتح و شکست کا یہ منظر ابھی دھندلا دھندلاسا تھا کہ پاکستان میں کچھ شدت پسند گرہوں نے تحریکِ طالبان کے نام سے اپنی علیحدہ جماعت تشکیل دے کر پاکستانی حکومت کا جینا دوبھر کر دیا۔جنرل پرویز مشرف کی کمزور حکومت کے زمانے میں تحریکِ طالبان نے فاٹا اور سوات میں اپنی حکومت قائم کر لی۔پاکستانی حکومت نے ہزاروں جانوں کی قربانیوں کے بعد وہ علاقے تحریکِ طالبان سے واپس تو لے لئے گئے لیکن دھشت گردی کی کاروائیوں کو ختم نہ کیا جا سکا۔یہ کاروائیں وقفے وقفے سے اب بھی جاری ہیں جس سے پاکستان کا امن و امان تبا ہ و برباد ہو چکا ہے ۔جنرل راحیل شریف نے ضربِ عضب کے ذریعے کسی حد تک تو بہتری تو پیدا کی ہے لیکن اس کے حصول کی خاطر کتنے فوجی جوانوں کو اپنے ہی لہو سے غسل لینا پڑا ایک الگ داستان ہے۔
وطن کی خاطر فوجی جوانوں کی یہ شہادت پاکستان کی اساس کو مضبوط کرنے کی وہ کوشش ہے جسے ہر پاکستانی سلام پیش کرتا ہے۔وطن کی خاطر فوجی جوانوں کی لازوال قربانیاں تاریخ کا ایسا روشن باب ہیں جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔آگ اب بھی برس رہی ہے، معصوم اور نہتے اب بھی جانوں کا نذرا نہ پیش کر رہے ہیں۔قوم اب بھی خوف کا شکار ہے لیکن امید کی کرن پھر بھی روشن ہے کہ وطن کے سر فروشوں کی قربانی سے امن کا سورج طلوع ہو گا اور ہماری آئیندہ نسلیں سکھ اور چین کی زندگی بسر کر سکیں گی۔امریکہ لاکھ کوشش کر لے وہ اس جذبے کو جو پاکستان کی اساس تھا شکست نہیں دے سکتاکیونکہ ہر محبِ وطن پاکستانی کی یہ پختہ رائے ہے کہ امریکہ پاکستان سے دلی کدورت رکھتا ہے اور بھارت کے ساتھ مل کر اسے غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اساس اب بھی مضبوط اور طاقتور ہے جسے کوئی بھی گزند نہیں پہنچا سکتا۔،۔
شہادت ہے مقصود و مطلوب و مومن ۔،۔ نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین پیپلز ادبی فورم )