تحریر:سفینہ چودھری ایڈووکیٹ
اللہْ اکبر موء ذن کی آواز آئی اور میری آنکھ کْھلی ساتھ ہی بچوں کو بھی جگا دیا کیونکہ سکول کے لئے تیار ہونا تھا جونہی مالک اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلِہ وَسلم کی حمدوثنا سے فارغ ہوئی اور کچن کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی ……….ہاں وین والے کی کال تھی…باجی آج نہیں آ پاؤں گا آپ خود آج بچوں کو سکول چھوڑ آئیں کیا پتہ تھا اس چھوٹے سے سفر کی وجہ سے میں کسی کی بے بسی دیکھنے جا رہی ہوں سوچو تیاری کر کے ہم گھر سے نکلے راستے میں چلتے جارہے تھے کہ شاید کوئی رکشہ مل جائے مگر سب رکشے سواریوں سے بھرے آرہے تھے ہم سڑک کی ایک طرف چلتے جارہے تھے۔
دْھند ایسی ٹھنڈک برسا رہی تھی کہ جسیے جزبوں کی انسان بھی جم جائیں گے دْھند کی گہرائی کو دیکھ کر یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ دْھند بہت سے دْکھوں کی داستاں بیان کر رہی تھی رکشہ ملنے کے انتظار میں ہمارے پاؤں رْکے نہیں چلتے جارہے تھے اور میں بچوں کے ننھے ننھے ہونٹوں سے ادا ہونے والے سوالوں کے جواب دے رہی تھی اس لمہے ہم نے اورنج رنگ کے کپڑے پہنے بہت سے مرد گروپ کی صورت دیکھے ان کے سامنے ایک آدمی موبائل کیمرہ لے کر کھڑا تھا جو انہیں اچھی سی تصویر بنوانے کی ہدایات دے رہا تھا اور وہ سارے اس کے کہنے مطابق کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
ہاں وہ سڑکوں سے کوڑا صاف کرنے والیملازم تھے…کاش یہ لوگوں کے دلوں کے صحن میں نفرت کا جمع ہوا کوڑا کچرا اْٹھانے میں بھی کامیاب ہو سکتے اتنے میں ایک رکشہ رْکا ہم اس میں سوار ہوئے ساتھ ہی ایک اْدھیڑ عمر آدمی رکشہ ڈرائیور کے ساتھ والی دائیں سیٹ پہ بیٹھ گیا اور بائیں طرف ایک آٹھ سالہ لڑکا بیٹھ گیا وہ سردی سے ٹھٹھر رہا تھا کبھی اپنے ہاتھ اپنی گرم پھونک سے گرم کر رہا تھا کبھی بغلوں میں دبا کر تو کبھی دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں چھپا کر اْس کے سانس کا دْھواں اور دْھند آپس میں مل کر اس بچے کے اندر کے کئی سوال عیاں کر رہے تھے اس کی بے بسی اس کی آنکھوں سے صاف نظر آرہی تھی اور شاید اس کی محرومیاں بھی گنی جاسکتی تھیں اتنے میں رکشہ رْکا کیونکہ کہ ٹریفک کا رش تھا ساتھ ہی ایک گاڑی بھی رْکی ہوئی تھی جس میں بیٹھے بچوں کے کپڑوں سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ بھی سکول جارہے ہیں۔
اْن کے خوش وخرم چہرے دیکھ کر اس لڑکے نے اپنے باپ سے کوئی سوال کیا مگر باپ نے سْنی ان سْنی کردی اور نگاہیں ادھر اْدھر پھیر دیں جیسے وہ لڑکے کی کسی بات کا جواب نہیں دینا چاہتا تھالڑکے نے پھر سوال کیا کہاکہ کیا ان لوگوں کو ٹھنڈک نہیں لگتی اس بار باپ مجبور تھالڑکے کو جواب دینے کے لئے جواباََ کہنے لگا بیٹا یہ گرمی سردی کے سب احساس غریبوں کے لئے ہیں امیروں کے لئے نہیں رکشہ چلتا رہا اور باپ بیٹے کے درمیان امیر غریب می فرق پہ گفتگو جاری رہی میں ان کی گفتگو سے اْن کے سرد لہجوں سے اْن کی بے بسی کی گہرائی جان سکتی تھی ساتھ ہی رکشے والا بھی کہنے لگا بھئی میں صبح سویرے مزدوری کے لئے نکلتا ہوں پانچ بچے پڑھا ہوں اللہ کا شْکر ہے وہ بھی پڑھ لکھ کر اپنے لئے سردی گرمی سے بچنے کے لئے سہولتیں خرید لیں گے میری طرح مزدوری نہیں کریں گے نہ ہی رزق پورا کرنے کی فکر انہیں تڑپائے گی سکول کا سٹاپ آ چْکا تھا ہم رکشے سے اْترے اور میں بچوں کو سکول کے گیٹ پر چھوڑ کر واپس مْڑنے ہی والی تھی۔
ایک ننھا سا سوال میرے کانوں سے ٹکرایا کیا یہ ٹھٹھرنے والا لڑکا کبھی سکول نہیں جائے گا اس ننھے سوال کا کوئی جواب تو نہیں تھا میرے پاس مگر میں محسوس کر سکتی تھی واپسی پر اْن باپ بیٹے کی گفتگو میرے کانوں میں گونجتی رہی اور میں کسی بے نام سی سوچ میں یوں ہی پیدل چلتی کافی دور نکل آئی پتہ ہی نہیں چلا وہ بچہ روز کوئی نہ کوئی سوال کرتا ہو گا باپ کبھی جواب دیتا ہو گا کبھی ڈانتا ہو گا کبھی ٹال مٹول کر دیتا ہو گا صبح سیاْسی منظر میں گْم ہوں خاموشی سے اْن سرد لہجوں کی تلخی محسوس کر سکتی ہوں اور بے بسی ایسی کہ بس…………………….
تحریر:سفینہ چودھری ایڈووکیٹ