تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
ہم مسلمانوں کی زلت کے کئی اسباب ہیں ان میں ایک توحید و رسالت پر ایمان کی کمزوری ہے۔ ورنہ جو مسلمان کامل ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت دنیا جہاں اور آخرت کی کامیابیاں اس کا مقدر بنا دتیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے۔ ایک صحابی رسول ۖ حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوئے ہیں۔ مدینہ کے رہنے والے اور انصار میں سے تھے۔ احد کی لڑائی میں بزیل کے آدمیوں کی ایک جماعت نے ان کو گرفتار کر کے فروخت کر دیا تھا ۔
اس طرح بنو حارث کے ہاتھ چڑھ گئے جنکو کفار نے لوہے کے پنجرے میں بھوکا پیاسا قید رکھا اور نیزوں سے ذخمی کیا اور پھر بے دردری سے سولی پر لٹکا کر انکو شہید کر دیا۔جب اپ کو مشرکین نے قید رکھا تو لوگوں نے آپ کو بے موسمی پھل ( انگور کے خچے ) کھاتے ہوئے بھی دیکھا تھا ۔ کئی بار جب لوگ پوچھتے کہ حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو اتنے اچھے اچھے پھل کون دیتا ہے حالانکہ مشرکین کفار کے چاروں طرف پہرے ہوتے ہیں۔ آپ مسکرا کر جواب دیتے تھے میرا اللہ مجھے جنت سے میوا جات پہنچاتا ہے۔
جب انسانیت کے محسن ،سردار الانبیاء ۔ تاجدار قلب و سینہ رسالت مآب ۖ کو آپ کی شہادت کی خبر ملی اور پتہ چلا کہ کفار نے آپ کو سولی پر چڑھایا ہوا ہے اور آپ کی لاش مبارکہ کو بھی نہیں دیتے تب نبی کریم حضرت محمد ۖ نے ا صحابہ کرام سے فرمایا کون ہے؟
جو حضرت خبیب کی لاش سولی پر جو کفار نے لٹکاکر اپنے پاس رکھی ہے جو سولی پر سے اتار کر لائے؟
جناب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے آقا دوجہاں ۖ سے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی لاش مبارک جو سولی پر لٹکائی گئی تھی لانے کی حامی بھر لی اور آپ کی اجازت سے چل پڑے ۔ دونوں صحابہ کرام رات کو چلتے اور دن کو چھپ جاتے تھے۔وہ اس سولی تک پہنچ گئے جہاں حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش مبارک سولی پر لٹکائی ہوئی تھی اور چالیس محافظ تھے۔ اللہ کی شان جب یہ دونوں سولی کے قریب گئے تو تمام محافظ سو رہے تھے ان دونوں حضرات نے حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش مبارک کو سولی سے اتارا اور گھوڑا پر رکھی۔ یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ آپ کو شہید ہوئے چالیس دن گزر چکے تھے مگر ابھی تک جسم مبارک تر و تازہ تھا اور ذخموں سے لہو ٹپک رہا تھا۔اور خون میں سے مشک کی سی خشبو آرہی تھی۔
صبح سویرے جب قریش کو خبر ہوئی تو چاروں طرف تیز گھوڑے دوڑا دئیے۔ ایک یہ بھی ہے کچھ گھوڑا سواروں نے لاش سے ٹپکنے والے خون کے قطروں سے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیز گھوڑا سواروں نے آلیا تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے نے گھوڑا سے حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش مبارک کو اتار کر زمین پر رکھ دیا۔
لاش کو جیسے ہی زمین پر رکھا لاش کو زمین نگل گئی۔ اسی لئے حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلیغ الارض کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کفار کی طرف منہ کر کے کہا کہ میں زبیر بن العوام ہوں اور حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب میری ماں ہے۔ اور یہ میرے رفیق مقداد بن الاسود ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔
تمھارا دل کرے تو تیروں، تلواروں ،اور نیزوں سے لڑیں۔ اور اگر چاہو تو بغیر لڑے واپس لوٹ سکتے ہو۔ چناچہ کفار بغیر لڑے واپس مڑ گئے دونوں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس دربار رسالت نبی آخر الزماں کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھ آنے والے واقعہ کو سنایا۔ابھی صحابہ کرام اپنا سارا ماجرہ جو پیش آیا تھا سناہی چکے تھے کہ محبوب خدا جناب حضرت محمد ۖ کی محفل پاک میں جناب حضرت جبرائیل امین علیہ اسلام حاضر ہوئے اور کہا آپ ۖ کے ان دونوں صحابہ کرام کی تعریف فرشتوں میں ہو رہی ہے۔
تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا