تحریر : عمران احمد راجپوت
اور بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ کافی عرصے سے ظاہر کیا جارہا تھا گذشتہ روز سا بق سٹی ناظم کراچی جناب سید مصطفی کمال تین سالہ خود ساختہ جلاوطنی کی گمنام زندگی گزارنے کے بعدانیس قائم خانی کے ہمراہ اچانک منظرِ عام پر آئے اور آتے ہی ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستانی سیاست میںایسی ہلچل مچائی کہ جسے سن کر ایم کیوایم کے قائد کی جانب سے پندرہ دن والی پیشن گوئی درست ثابت ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔اِس ہنگامی پریس کانفرنس میں شریک مصطفی کمال اور انکے ساتھ بیٹھے انیس قائم خانی نے ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے سنگین الزامات کا نشانہ بنایا۔یہ الزامات ایسے موقع پر لگائے گئے جب پاکستان میں عدالتی حکمنامے کے تحت ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی تقاریرو بیانات پر پابندی عائد ہے۔
جبکہ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی لندن کی جانب سے اِن الزامات کو یکسرمسترد کرتے ہوئے اِسے ایم کیو ایم کے خلاف سازش اور مائنس الطاف حسین فارمولے کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کڑی قرار دیا گیا۔جہاںتک الزامات کی بات ہے تو اِس پر صرف اِتنا ہی اکتفا کافی ہے کہ یہ وہی روایتی الزامات ہیں جو ایم کیوایم پر پچھلے تیس سالوں سے لگتے آرہے ہیں ۔قارئین کو یاد ہوگا۔
تقریباً اِسی طرح کی پریس کانفرنس 2011 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما سابق وزیرے داخلہ سندھ جناب ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے بھی کی تھی جس میں تقریباً اِسی طرح کے الزامات ایم کیو ایم اور اُسکی قیادت پرلگائے گئے تھے جس کے بعد وہ کافی عرصے تک گوشہء نشینی اختیار کئے رہے اور آج بھی وہ چیدہ چیدہ سیاسی ایونٹ میں ہی نظر آتے ہیں۔ قارئین یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیںجس کی بنا پر مصطفی کمال جیسی باکمال شخصیت کا حامل انسان ذوالفقار مرزا بننے پر مجبور ہوااور آج اِس نہج پرآ پہنچا کہ اپنے محسن کی کردار کشی کرتا نظر آیا۔
ایم کیوایم اور اُس کی قیادت کا اِن عوامل تک پہنچنا اور اُس کا حل نکالنا نہایت ضروری ہے آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ ایک پڑھا لکھا باشعور شخص اپنی پارٹی اور اُسکی قیادت سے بے انتہا محبت کرنے والا آج بغاوت پر اترآیایقینا یہ بات ایم کیوایم اور اُسکی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے جسکا تدارک کرنا انتہائی ضروری ہے۔قارئین کو اگر یاد ہو تو ہم نے اپنے پچھلے کالموں میںایم کیوایم اور اُسکی قیادت کو مسلسل اِس امر کی جانب توجہ مرکوز کرائی تھی 9 اپریل 2015 ء کوشائع ہونے والا ہمارا کالم بعنوان” غلطیوں کاازالہ ” اِسی امر کی جانب اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے اور جس خدشے کا اظہار ہم نے اُس وقت کیا تھا آج وہ عملی جامہ پہنے کھڑا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا یہ بات ہم نے اُس وقت بھی کہی تھی اور آج پھر کہنے پر مجبور ہیں جوکہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کو اپنا وجود منوانے اور عوامی حلقوں میں اپنی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے تیس سال کا عرصہ بہت ہوتا ہے عام خیال کے مطابق اتنے عرصے میں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور کے تحت اقتدار نشین ہوسکتی ہے ۔ جسے حقیقی معنوں میں پارٹی قیادت کی کامیابی اور ہنر کہا جاسکتا ہے جبکہ ناکامی کی صورت میںاُسی قیادت کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جانے لگتا ہے جبکہ عوامی حلقے قیادت سے بے زاری اور مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ کیونکہ مسلسل انتھک محنت و جستجو کے باوجود ناکامی کا منہ دیکھنا کسی بھی تحریک کے وجود کو بے اثر کرنا شروع کردیتا ہے اِس لئے پارٹی قیادت پر لازم ہے کہ وہ ہر قدم ہر لمحہ دانشمندانہ فیصلے کرے تاکہ پارٹی میں عوامی حمایت اور مقبولیت کو قائم رکھا جاسکے۔
اِس کے علاوہ دوسری جانب سول سوسائٹی اور وہ عوامی حلقے جو کافی مدت تک پارٹی اور اُسکی قیادت کی حمایت کرتے آئے ہیں انھیں اپنے معروضی حالات ،سیاسی خلفشار ،اشرافیہ کا کرداراور طاغوتی طاقتوں کا عمل دخل نہیں بھولنا چاہیئے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں حقیقی نمائندوں پر مبنی کسی بھی سیاسی جماعت کی جدو جہد پارٹی قیادت کی دانشمندی اُس وقت ناکام ہوجاتی ہے جب راتوں رات کسی بھی غیر مقبول جماعت کو طاغوتی طاقتوں کی ائما پر اشرافیہ کے سہارے اقتدار نشین کردیا جاتا ہے۔ جس کے بعد وہ سیاسی جماعتیں جو صرف و صرف اپنے اُصولی منشور و موقف اور عوامی حمایت کے سہارے اپنے وجود کو قائم رکھے ہوتی ہیں منہ دیکھتی رہے جاتی ہیں ایسی بہت سی مثالیں ماضی بعید میں موجود ہیں۔
لہذا آج اگر مصطفی کمال ایم کیوایم سے نالاں اور مایوس ہیں تو اُن کی یہ ناراضگی کسی حد تک بجا ہے اور وہ پارٹی سے اپنا راستہ جدا کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں لیکن یہاں مصطفی کمال جیسی باکمال خوبیوں کی حامل شخصیت فیصلے سازی میں چوک کھاگئی بجائے اِس کے کہ خوش اسلوبی سے راستے جدا کرتے ہوئے نئی پارٹی کو لیڈ کرتے ایم کیوایم کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار رکھتے ہوئے اردو بولنے والے طبقے کی محرومیوں کاحل ڈھونڈتے انھوں نے بھی دیگرروایتی سیاستدانوں اور رہنمائوں کی طرح اپنا سیاسی قد اونچا کرنے کے لئے ایم کیوایم کو اپنا حدف بنایا آخر مصطفی کمال یہ کیوں بھول بیٹھے کہ اردو بولنے والا طبقہ ایم کیوایم اور اُس کی قیادت کے لئے کیا جذبات رکھتا ہے اور وہ کیونکر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ایک عرصہ پارٹی میں رہتے ہوئے پارٹی امور چلانے کے باوجود اِس امرکا اِدراک کرنے سے کیسے قاصر رہے، نیز یہ کہ اپنی نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرتے وقت تین نکاتی ایجنڈہ پیش کرتے ہوئے جس میں انھوں نے ملک میں پارلیمانی نظام کا خاتمہ اور صدارتی نظام کے نفاظ لوکل باڈیز کونچلی سطح تک لیجاکر بااختیار بنانے سے لیکر انتظامی طور پر نئے صوبوں کے قیام پر ذور دیتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان کی چھوٹی بڑی تقریباً سب ہی سیاسی جماعتیں ماسوائے ایم کیوایم کے پارلیمانی نظام کی حامی ہیں اور وہ کسی طور صدارتی نظام سمیت بلدیاتی اختیارات اور نئے صوبوں کے قیام پرمصطفی کمال کی پارٹی کے ساتھ کھڑی ہونگی اور نہ ہی اِس سوچ کو آگے بڑھنے دینگی۔
اب دیکھنا یہ کہ ایسی صورتحال میں مصطفی کمال پاکستان کی سیاست میں اپنی کوئی جگہ بنا پائینگے یا دیگر روایتی سیاستدانوں کی طرح کچھ عرصے بعدپھر سے کہیں گوشہ نشینی اختیارکرلینگے برحال میرے نزدیک مصطفی کمال کی پریس کانفرنس نے ایم کیوایم اور اُس کی قیادت کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا مہاجر کازکو پہنچایا ہے افسوس مہاجروںکو ہمیشہ کی طرح آج بھی جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں ملا۔
تحریر : عمران احمد راجپوت
Email:alirajhhh@gmail.com
حیدر آباد، سندھ