counter easy hit

نقیب مصطفی

Naqeeb-e-Mustafa

Naqeeb-e-Mustafa

تحریر: نقیب الاشراف جناب ڈاکٹرمخدوم پیر سید علی عباس شاہ
اَبَا طَالِبٍ عِصْمَة الْمُسْتَجِیْرِ، وَغِیْثَ الْمَحُوْلِ وَنُوْرَ الْظُّلَمِ
لَقَدْ ھَدَّ فَقْدُکَ اَھْلَ الْحِفَاظ، فَصَلّٰ عَلَیْکَ وَلَِّ الْنِّعَمْ
وَلَقَاکَ رَبُّکَ رِضْوَانِہ، وَقَدْ کُنْتَ لِلْمُصْطَفیٰ خَیْرِ عَمٍّ

ابو طالب ! اے پناہ لینے والوں کی پناہ گاہ! اور اے رحمت کی زوردار بارش! اور اے اندھیروں کی روشنی!سچ تو یہ ہے کہ آپ کے نہ رہنے سے غیرت مندمردوں کے دل ٹوٹ گئے اور وہ سست پڑگئے ہیںاور نعمتوں کے مالک پروردگار نے آپ پر نعمت نازل کی اور آپ کو اپنی خوشنودی سے نوازتا رہاکیونکہ آپ ،پیغمبر ۖ کے لیے واقعی بہترین تایاتھے۔ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب

٥٧٩ء میں سیدنا عبدالمطلب کی وفات کے بعد آغوش ِابوطالب (٥٤٠تا٦١٩ئ)میں،در یتیم کی پرورش کا آغاز ہوا۔ذات ِقدرت نے نور ِرسالت ۖ کو ابو طالب کے گھرانے میں ضم کر دیا اور سیدنا ابوطالب نے آپ ۖ کی حفاظت و خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔اپنے بچوں سے بڑھ کر حضور کو پیار فرمایا۔ایک لمحہ بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔رات اپنے پہلو میں سلایا۔کھانے کے وقت حضور ۖ سے پہلے کسی کو کھانا نہ کھانے دیا۔قلت ِخوراک ہوئی تو اپنی اولاد کو بھوکا رکھااور حضور کوسیرفرمایا۔ انہی باتوں کا تذکرہ فرما تے حضور ۖ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ قادر ِ مطلق نے اسی آغوش ِابوطالب کا قرآنِ مجید میں ذکر فرماتے اپنی آغوش ِرحمت سے تشبیہ دی ہے۔ یہ ایسی موزوں اور مامون پناہ تھی کہ جس کی بدولت دین ِمتین کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ آپ کی ولادت باسعادت سے پہلے سید العرب کو آپ کی بشارت دی گئی ،” اَنَّ عَبْدُالْمُطَّلِبْ رَأیٰ فِیْ مَنَامِہ کَانَ قَائِلاً یَقُوْلَ لَہُ: اِبْشِرْ یا شَیْبَةِالْحَمْد بِعَظِیْمِ الْمَجْدِ بِاَکْرَمِ وُلْدٍ، مِفْتَاحُ الْرُّشْدِ،لَیْسَ لِلْاَرْضِ مِنْہُ مَنْ بِدُّ”،حضرت عبدالمطلب نے بعالم ِرئویاملاحظہ فرمایاکہ کہنے والے نے اُن سے کہا، جناب ِ شَیْبَةِالْحَمْد آپ کوعدیم النظیر، سرچشمہء رشد وہدایت مکرم فرزندکے عظیم الشان شرف و مجد کی بشارت ہو ۔حضرت عبدالمُطّلب کے انتقالِ پرملال کے بعدنورِرسالتۖ کی حفاظت کے لیے سےّدناابو طالب کمربستہ ہوگئے اور ہر محاذ پر کفّارِ مکہ اور جہلائے عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا؛

وَلَمَّا رَاَیْتُ الْقَوْمَ لاَ وُدَّ فِیْھِمْ
وَقَدْ قَطَعُوْاکُلَّ الْعُریٰ وَالْوَسَائِلِ
وَقَدْصَارَحُوْنَابِالْعَدَاوَةِ وَالْاَذیٰ
وَقَدْ طَاوَعُوْااَمْرَالْعَدُوِّالْمُزَائِلِ
وَقَدْحَالَفُوْاقَوْماًعَلَیْنَااَظِنَّةً
یَعَضُّوْنَ غَیْظاًخَلْفَنَابِالْاَنَامِلِ
صَبَرْتُ لَھُمْ نَفْسِیْ بِسُمْرَائَ سَمْحَةٍ
وَاَبْیَضَ عَضْبٍ مِنْ تُرَاثِ الْمُقَاوِلِ ١
وَاَحْضَرْتُ عِنْدَالْبَیْتِ رَھْطِیْ وَاِخْوَتِیْ
وَاَمْسَکْتُ مِنْ اَثْوَابِہ بِالْوَصَائِلِ
قِیَاماً مَعاً مُسْتَقْبِلِیْنَ رِتَاجَہُ
لَدَیْ حَیْثُ یَقْضِیْ حَلْفَہُ کُلُّ نَافِلِ

جب میں نے قوم میں چاہت کا فقدان ،بے مروتی دیکھی کہ انہوں نے تمام تعلقات اور رشتہ داریوں کوپس پشت ڈال دیا۔ ہمارے ساتھ کھلی دشمنی اور ایذارسانی کی اور ہم سے الگ ہو جانے والے دشمن کی بات مانی ۔نیز ہمارے خلاف تہمت زدہ لوگوں سے معاہدے کیے جو پس ِ پشت غصے سے انگلیاں چباتے ہیں۔تو میںبذات ِخود ایک لچکدار نیزہ اور شاہان ِ سلف سے وراثت میں ملی ہوئی ایک چمک دار تلوار ١لے کر ان کے مقابلے میں ڈٹ گیا اور میں نے اپنے جماعت اور اپنے بھائیوں کو بیت اللہ کے پاس بلوایا اور اس (بیت اللہ )کا سرخ دھاری دار غلاف تھام لیا۔اس کے عظیم الشان دروازے کے مقابل اس مقام پر جہاں برأت ثابت کرنے والا حلف اٹھاتا ہے ۔ سب کے ساتھ کھڑے ہو کر (اس کے غلاف کوتھام لیا۔) ١۔ مقاول ،مِقْوَلْ کی جمع ہے جویمن کے حمیری بادشاہوں کا لقب تھا۔ سیف بن ذی یزن حمیری نے دیگربیش قیمت تحائف کے ساتھ سفیدچمک دار تلوار حضرت عبدالمطلب کی خدمت میں پیش کی جووراثت میں حضرت ابوطالب کے پاس آئی جس کی جانب آپ نے یہاں اشارہ فرمایا ہے۔

ابوطالب،جن کی رفاقت و نصرت اسلام کا محکم حصار بن گئی۔ابو طالب ،جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔ابوطالب ،جن کی قربانیوں سے محسن ِانسانیت کے بازو مضبوط ہوئے۔ابوطالب ،جن کے آہنی ارادوں اور کارگزاریوں سے جمعیت ِکفار و مشرکین لرزہ براندام رہی۔ابوطالب ،جن کی حکمت ِعملی سے کفار کی نیندیں حرام تھیں۔ابوطالب جو گلشن ِرسالت کی حفاظتی دیوار تھے۔ابوطالب ،جو حضور ۖ کے شفیق تایااور کفیل تھے۔ابوطالب ،جو مولائے کائنات علی مرتضیٰ شیر خدا ،جعفر طےّا ر اور عقیل کے والد تھے۔ابو طالب ،جو سید الشہدا امیر حمزہ ،شیر رسالت کے بھائی تھے۔ابو طالب ،جو حسنین کریمین ،سرداران ِجنت کے داداحضور تھے۔ابوطالب ، جو سیدہ زینب و ام کلثوم کے دادا تھے۔ابوطالب ، جو شہدائے کربلا،شہدائے فَخْ، شہدائے بغداد، شہدائے شیراز، اصفہان و ساوِہ اور شہدائے نیشاپورکے مورث ِاعلیٰ تھے۔ابو طالب ، جن کی اولاد نسب ِرسول ۖ ہے۔ ابو طالب ۖ،جنہوں نے ہزاروں فرزند اسلام پہ قربان کر دیے۔وہ فرزند جو حافظ ِقرآن و حدیث،شب بیدار،تہجد گزار، عابد، زاہد، عالم، فقیہ، محدث اور مفسر قرآن و شارح اسلام تھے۔ جن کی آغوش کو ذات ِقدرت نے اپنی پناہ قرار دیا وہ سوائے سیدنا ابو طالب کے اور کون ہے؟سیدنا ابو طالب نے آنحضرت ۖ کے لیے جو جانثاری فرمائی ،اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔اپنے جگر گوشے آپ ۖ پہ نثار کر دیے ۔آپ ۖ کی محبت میں تمام عرب دشمن بنا لیا۔ فاقے اٹھائے،شہر بدر ہوئے،تین برس تک آب و دانہ بند رہا۔تاریخ کے دھارے جدھر موڑ دیے جائیں ”شِعْب ِاَبیْ طَالِب”کے حصار کا تمغہ کس کے سینے پر سجے گا؟مقاطعہ قریش میں حصارِ رسالتۖکے لیے شعب ِ ابی طالب سے کون واقف نہیں اور اس دوران پیارے مصطفٰی ۖ کے بستر پر علی مرتضٰی شیرِخُدا اور جعفرطیار کو سلا کردشمنان ِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لخت ِ جگر پیش کرنے والے ابو طالب کے علاوہ اور کون ہیں۔کائنات ابدالآباد تک نعت گوئی کرتی رہے تو حضور ۖ کی نعلین مبارک پر جلوہ نما ذرئہ خاک کی تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتی۔شہنشاہِ انبیا و مرسلین ۖ کے غمگسار و محافظ،سیدنا ابوطالب کے فضائل و مناقب اور شان و عظمت کون بیان کر سکتا ہے؟امام جعفر صادق فرماتے ہیںمَثَلُ اَبِیْ طَالِبٍ مَثَلُ اَصْحَابِ الْکَہْفِ ،ابوطالب !اصحاب ِکہف کی مانند ہیں کہ جیسے اللہ نے انہیں اپنی نشانی قرار دیا ویسے ہی آپ اللہ رب العزت کی بزرگ وبرتر نشانی ہیں۔

ناصر رسول ونکاح خوان ِ رسالتۖ
وَاِذْ اَخَذَاللّٰہُ مِیْثٰقَ الْنَّبِیِّیِنَ لَمَآئَ اَتَیْتُکُم مِّنْ کِتٰبٍ وَحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْل مُّصَدِّق لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُنَّہُ ج 3:81
حضور نبی کریم ۖ نے بیالیس سال خانہء ابوطالب میں گزارے اور جس طرح نصرتِ رسول ۖ کا فریضہ سیدنا ابو طالب نے ادا فرمایا اور بعد ازاںآپ کی ذریت طیبہ نے ادا فرمایا ، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ عہدانبیا ومرسلین سے لیاگیا،ایفائے عہدبصورت ِابوطالب وعترت ِآنحضرت سامنے آیا۔آپ بلاشبہ ناصر رسول ۖ ہیں اوریہ اعزاز صرف آپ ہی سے متعلق ہے۔ وَالَّذِیْنَ ئَ آمَنُوْا وَھَاجَرُواْ وَجٰھَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْن ئَ اوَواْوَّنَصَرُواْ اُولیٰکَ ھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ حَقّاًج 8:74

فَاعْلَمُوْا اَنَّنِیْ لَہُ نَاصِر
وَمُجِرُّ بِصَوْلَتِیْ الْخَاذِلِیْنَا
فَانْصُرُوْہُ لِلْرِّحْمِ وَالْنَّسَبِ الْاَدْنِیْ
وَکُوْنُوْا لَہُ یَداً مُصْلِتِیْنَا

پس جان لو کہ میں اُ ن کی مددونصرت کرتا رہوں گا اور جو لوگ اُن کا ساتھ چھوڑیں گے ان سے جنگ کروں گا
لہٰذا تم سب ان کی مدد ونصرت کرو۔ رشتہ و قرابت ہی کا خیال کرتے ہوئے ان کی حمایت میں دشمنوں کے خلاف تلوار اٹھا لو
حضور نبی کریم ۖ کادنیاوی سن اقدس پچیس برس ہوا تو آپ ۖ نیمَلِیْکَةُالْعَرَبْ،اُمّ الْزَّھْرا،اُمَّ الْمُؤمِنِیْن سیدہ خُدَیْجَةُالْکُبْریٰ صلوٰةاللہ و سلامہ علیہا سے عقد فرمایا۔سیدہ طاہرہ عرب کی نجیب ترین،ثرو ت منداور انتہائی پرہیزگار خاتون ذی وقار ،سن ِدنیا کے اٹھائیسویں برس میں مبشرات ِایزدی کے تحت ،وقت ِمقرر کا انتظار فرما رہی تھیں۔مقررہ تاریخ پر قبیلہ مضر کے رئوسا،مکہ کے شرفاو امرا اکٹھے ہوئے۔سیدہ خدیجہ کی طرف سے عمروْبن اسد وکیل بنے۔سرکار دوعالم کی وکالت رئیس بطحا، سیدنا ابوطالب نے فرمائی۔حضور ۖکے نکاح کا خطبہ زبانِ ابوطالب سے اسطرح ادا ہوا؛

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلْنَا مِنْ ذُرِّےَّةِ اِبْرٰہِیْمِ وَذَرْعِ اِسْمَاعِیْلَ وَضِضِٔیٔ مَعْدً وَ عُنْصُرِ مَضَرٍ، وَجَعَلْنَاحَضَنَةَ بَیْتِہ وَسَوَّاسَ حَرَمِہْ وَجَعَلَنَا بَیْتاً مَحْجُؤجاً وَحَرَمََاً اٰمِنَاً وَجَعَلَنَا الْحُکَّامَ عَلَی النّاسِ، ثُمَّ اِنَّ اِبْنَ اَخِیْ ھٰذَا مُحَمَّد اِبْنُ عَبْدِ اللّٰہ لَا ےُؤ زَنُ بِرَجَلٍ اِلَّارَجَحَ بِہ وَاِنْ کَانَ فِیْ الْمَالِ قَلاًّ وَاِنَّ الْمَالَ ظِلُّ زَائِل وَاَمْر حَائِل وَمُحَمَّدٍ مَنْ قَدْ عَرَفْتُمْ قَرَابَتِہ وَ قَدْ خَطَبَ خَدِیْجَةَ بِنْتَ خُوَیْلَدِِ، وَ قَدْ بَذَلَ لَھَا مِنْ الصِّدَاقِ مَاٰ اَجَلَہُ مِنْ مَالِیْ اِِثْنَا عَشَرَةَ اَوْقِےَةَذَھَباً، وَنَشَاء َوَ ھُوَوَاللّٰہِ بَعْدَ ھٰذَا لَہُ نَبَائ عَظِیْمُ وَخَطَرُُجَلِیْل۔

سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم کی اولاد سے، حضرت اسماعیل کی عترت سے ،معد کی نسل سے اور مضر کی اصل سے پیدا فرمایا۔نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر فرمایا،ہمیں ایسا گھر دیاجس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جہاں امن میسر آتا ہے۔نیز ہمیں لوگوں کا حکمران مقررفرمایا۔حمد کے بعد! میرے برادرزادے جن کا اسم گرامی محمدۖ ابن ِعبداللہۖ ہے،ان کا دنیا کے بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا تو ان کا پلڑا پھر بھی بھاری ہو گا۔ اگر قلت ِمال ہے تو کیا ہوا،مال تو ایک ڈھلتی چھائوں ا ور بدل جانے والی چیز ہے اور محمد ۖجن کی قرابت کو تم جانتے ہو ،انہوں نے خدیجہ بنت خویلد کا رشتہ طلب کیا ہے اور بارہ اوقیہ سونا مہر مقرر کیا ہے اور اللہ کی قسم !مستقبل میں ان کی شان بہت بلند ہو گی،ان کی قدر ومنزلت بہت جلیل ہو گی۔
پھر فرمایا؛

” اِنَّ اِبْنَ اَخِیْنَا خَاطِبکَریْمَتَکُمْ الْمَوْصُوْفَةُ بالْسَّخَائِ وَالْعِفَّةِوَھِیَ فَتَاتُکُمُ الْمَعْرُوْفَةِالْمَذْکُوْرَةُ فَضْلِھَاالْشَّامِخُ خَطَبِھَا ”

اے دختر نیک،سخی وباعفت !!ہمارے برادرزادے آپ کے خواستگارہیں۔ان کے خواستگار ہیں جو تمہارے درمیان مشہور ومعروف بلند مرتبہ خاتون ہیں ، جن کی سخاوت اور فضل وشرف لوگو ں کی زبان پر ہے اور جن کی شان نمایاں اور عظیم ہے۔

اس جلیل الشان خطبہ کے بعد جس میں اللہ رب العزت کی ثنا،انبیا کی نبوتوں کا اقرار،خاندان ِبنی ہاشم کی سرداری،عظمت ِخانہ کعبہ اور عظمت ِنبوت کے واضح مضامین ہیںاور سیدنا ابو طالب واشگاف الفاظ میں فرماتے ہیںکہ میرا ابن ِاخی ،افضل الناس ہے اور آپ نے بنی ہاشم کی سیادت و قیادت کا سکہ بٹھا دیا،سیدہ خُدَیْجَةُالْکُبْریٰ کے چچازادبھائی حضرت ورقہ بن نوفل نے تقریر فرماتے ہوئے حضرت ابو طالب کو مخاطب کر کے کہا؛

”سب حمد و ستائش اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیںوہ سب کچھ بنایا جس کا آپ نے اپنے خطبہ میں ذکر فرمایا ہے اور ان لوگوں پر ہمیں فضیلت عطا فرمائی ہے جن کا ذکر آپ نے کیا ہے۔بلاشبہ ہم عرب کے سردار اور سربراہ ہیںاور آپ ان تمام باتوں کے اہل ہیں اور عرب کا کوئی خاندان بھی آپ کی اس بزرگی اور فضیلت کا انکار نہیں کر سکتا ہے۔ کوئی شخص آپ کے اس مجدوافتخارکو مسترد نہیں کر سکتا ہے۔ ہم لوگوں نے آپۖ کے شرف کے ساتھ ناطہ جوڑنے کو پسند کیا ہے۔”

بنی ہاشم نگاہ ِابو طالب میں
اِذَا اجْتَمَعَتْ یَوْماً قُرَیْش لِتَفْخَرٍ، فَعَبْدِ مَنَافٍ سِرِّھٰا وَصَمِیْمِھٰا
وَاِنْ فَخَرَتْ یَوْماً فَاِنَّ مُحَمَّداً، ھُوَالْمُصْطَفٰی مِنْ سِرِّھٰا وَکَرِیْمِھٰا

”اگر کبھی تمام اہل قریش اپنی اپنی قابل فخر باتوں کو لے کر جمع کریںتو جناب عبد مناف کے خاندان کے کارنامے سب سے ممتازو منور نظر آئیں گے اور جب جناب عبد مناف کے خاندان کے اشراف کو جمع کیاجائے تو جناب ہاشم سب سے بلند واشرف نظر آئیں گے۔اگر جناب ہاشم کی اولاد فخر کرے تو جناب محمد مصطفٰی ۖ کی ذات گرامی سب سے مکرم و محترم،قابل فخر ہستی دکھائی دے گی۔جن کے مقابلہ میں قریش کے برے بھلے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیںلیکن یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔یہ لوگ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں۔زمانہ ماضی میں بھی ہم نے کبھی ظلم برداشت نہیں کیااور اگر کوئی شخص ہمارے خلاف اپنا جبڑا ٹیڑھا کرے گا تو ہم اسے سیدھا کرنے والے ہیں۔ہم لوگ حضور کی حفاظت کی خاطر ہر روز میدان جنگ میں کود پڑنے کو تیار ہیںاور پتھر جس طرف سے بھی آئے گا اسی طرف اسے پلٹا دیں گے۔سوکھے ہوئے پتوں کو بھی ہماری حمایت ونصرت کی بنا پر شادابی نظر آنے لگے گی اور وہ ہرے بھرے ہو جائیں گے۔ہمارے ہی خاندان کے لوگ ہر دور میں سید و سردار رہے ہیں ،جن کی عظمت کو کوئی للکار نہیں سکا۔ ساری دنیا ان کی اطاعت کے آگے سرنگوں ہو گی اور زمین کے چپہ چپہ پر ان کی عزت و احترام کے نشانات رقم ہوں گے”۔

سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْْوٰجَ کُلَّھَا مِمَّاتُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ مِمَّا لاَ یَعْلَمُوْنَ ة 36:36

نقیب ِمصطفٰی حجر اسماعیل کے قریب حطیم میں آرام فرما تھے ۔بعالم ِرئویا ملاحظہ فرمایاکہ آسمان کادروازہ کھلا جس میں سے نور نکلا جو ایک پیکر نوری میں ڈھل کرصداکیش ہوا؛

اِبْشِرْ اَبَاطَالِبٍ عَنْ قَلِیْلْ، بِالْوَلَدِ الْحُلاَحِلِ الْنَّبِیْل
یَالَ قُرَیْشٍ فَاسْمَعُوْا تَاوِیْلْ، ھٰذَانَ نُوْرَانَ عَلیٰ سَبِیْلْ

جناب ِابو طالب !سماعت فرمایئے کہ آپ کونازش ِقریش بہادر وسردار فرزند کی نادرالوجودبشارت ہو،یہ دونوں انوار اسی سلسلے کانزول ہیں سید ِبطحانے یہ دیکھ کر خانہ کعبہ کاطواف شروع کیا اور فرمایا؛

اَطُوْفُ لِاِلٰہِ حَوْلَ الْبَیْتِ، اَدْعُوْکَ بِالْرَّغْبَةِ مُحْیِ الْمَیْتِ
بِاَنْ تَرِیْنِیْ الْسِّبْطِ قَبْلَ الْمَوْتِ، اَغَرَّ نُوْراً یَاعَظِیْمَ الْصَّوْتِ
مُنصُلِّتاً یُقْتَلُ اَھْلَ الْجِبْتِ، وَکُلَّ مَنْ دَانَ بِیَوْمِ الْسَّبْتِ

میں اس گھر کے مالک کے لیے اس کے گرد طواف کرتاہوں اوربہ رضاورغبت مردوں کوزندہ کرنے والے سے دعاکرتا ہوں کہ اے بلند وبالابشارت دینے والے!! مجھے مرنے سے پہلے چمکتے نور کادیدار عطا فرماکہ جو اعدائے الٰہی ،جبت وطاغوت کے پیروکاروں کے لیے خدائی تلوارہے طواف سے فارغ ہو کر آپ حطیم تشریف لائے اور حجر اسماعیل کے قریب محو ِاستراحت ہوئے ۔بعالم رئویا مشاہدہ فرمایاکہ خلہ بہشت میں ملبوس ، یاقوت سے مرصعتَاجُ الْمَلُوْک کوزیب دیے ہیں اور صدائے غیب دی جا رہی ہے
،” اَبَاطَالِبٍ! قَرَّتْ عَیْنَاکْ، وَظَفَرَتْ یَدَاکْ، وَحَسَنَتْ رُؤیَاکْ، فَاتیٰ لَکَ بِالْوَلَدْ وَمَالِکَ الْبَلَدْ، وَعَظِیْمَ الْتَلَدْ عَلیٰ رَغْمِ الْحُسَّدْ”جناب ِ
ابو طالب !آپ کی نگاہیں مفرح ہوں اور آپ کے امور ظفرمندہوں اور آپ کے مکاشفات حسن ِحقائق میں سامنے آئیں کہ آپ کو صاحب ِجاہ وحشم،محسود ِجہاں عظیم المرتبت فرزندکی بشارت دی جاتی ہے ۔ملاحظہ فرما کر نقیب ِمصطفٰی نے طواف کیااور فرمایا؛

اَدْعُوْکَ رَبِّ الْبَیْتِ وَالْطَّوَافِ، وَالْوَلَدِالْمَحْبَوِّ بِالْعِفَافِ
تُعَیِّنَنِیْ بِالْمِنَنِ الْلِّطَافِ، دَعَائَ عَبْدَ بِالْذُّنُوْبِ وَافِیْ
یَاسَیِّدُالْسَّادَاتِ وَالْاَشْرَافِ

اے تمام افضل سرداروں کے بلند تر سردار!رب ِبیت اللہ وصاحب ِطواف سے پاک وپاکیزہ محبوب فرزند کے وسیلے سے ملتجی ہوںکہ اپنے جودوکرم سے مجھ پر امور واضح فرما

پھر حجر اسماعیل حطیم کے پاس مکاشفہ فرمایاکہ کہاگیا،”مَا یُثَبِّطْکَ عَنْ اِبْنَةِ اَسَدٍ؟”آپ بنت ِاسد سے کیا مختص فرماتے ہیں ؟واضح توجیہہ سے متنبہ ہوکرآپ نے ٥٦٨ء میں نجیب الطرفین اور روئے زمین پر اولین ہاشمیہ فاطمہ بنت ِاسد سے عقد کیا۔
وَمِنْ ئَ ایٰتِہِے اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوٰجاً لِتَسْکُنُوْاْ اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةًج اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاَیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ ة 30:21

اس پرمسرت موقع پرتمام قبائل ِعرب نے شرکت کی اور بارگاہ عبدالمطلب میں تہنیت پیش کی۔سیدنا ابو طالب نے اپنا خطبہ نکاح ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ؛

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم وَالْمَقَامِ الْکَرِیْم وَالْمَشْعَرِ وَالْحَطِیْم اَلَّذِیْ اصْطَفَانَا أعْلاَماً وَسَادَةً وَعُرَفَائَ وَخُلَصائً وَّ قَادَةً وَحجَبة بھَالیْل، اَطْہَاراً مِّنَ الْخَنِیَ وَالْرَّیْبِ وَالْاِذَی وَالْعَیْبِ وَ اَقَامَ لَنَا الْمَشَاعِرْ وَفَضَّلْنَا عَلَی الْعَشَایٔرِ، نَحْنُ آلَ اِبْرَاہِیْمَ وَصِفْوَتِہِ وَذِرْعِ اِسْمٰعِیْلْ ثُمَّ قَالَ وَقَدْ تَزَوَّجْتُ فَاطِمَةْ بِنْتِ اَسَدٍ وَ سُقِطَ الْمَھْرِ وَ نَفَذْتَ الْاَمْرَ فَاسْئَلُوْہ وَ اُشْھِدُوْا فَقَالَ اَسَد زَوْجَتُکَ رَفِیْقاً لَکَ ثُمَّ نَحْرَاَبَاطَالِبِ اَلْاِبِلْ وَاُطْعِمُ الْنَّاسَ سَبْعَةَ اَیَّامٍ ”

سب تعریفیں پروردگارِ عالمین کے لیے ہیں جو عرش ِعظیم کا پروردگار ہے ،جو مقام ابراہیم ،مشعر الحرام اور حطیم کا پروردگار ہے۔ جس نے ہمیں سرداری، کعبہ کی دربانی و خدمت، انتہائی بلند مقام دوستی اور اپنی حجت کی سرداری کے لیے منتخب فرمایا ۔جس نے ہمارے لیے مشاعر کو قائم کیا اور ہمیں تمام قبائل پر فضیلت عطا فرمائی اور اس نے ہمیں آل ِابراہیم کے برگزیدہ احفاد میں سے چن لیا اور حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے قرار دیا ۔میں فاطمہ بنت اسد سے عقد کرتا ہوں ،حق مہر ادا کرتا ہوں اور معاملہ نافذ کرتا ہوں ،تم ان سے پوچھ لو اور گواہی دو”۔جناب اسد نے فرمایا ،”ہم نے ان کی آپ سے شادی کی اور ہم آپ سے راضی ہوئے ”۔ اس کے بعد سات دن تک وفودِعرب کی ضیافت کی گئی ۔
عرب کے ایک معروف شاعر نے سپاس ِتہنیت پیش کیا ؛

اُغْمِرْنَا عُرْسَ اَبِیْ طَالِبٍ
وَکَانَ عُرْساً بَنِ الْجَانِبٍ
اَقْرَائَہُ الْبَدُّ وَ بِاَ قْطَارِہِ
مَنْ رَاجِل خِفَّ وَمَنْ رَاکِبٍ
فَتَاْزِلُوْہ سَبْعَةَ اَحْصَیْتَ
اَیَّامُھَا لِلْرَّجُلٍ الْحَاسِبٍ

ہمیں ابو طالب کے ولیمہ نے اپنی نعمتوں سے چھپا لیا اور یہ دعوت نہایت خوشگوار تھی۔ انہوں نے اپنے ارد گرد کے بادیہ نشینوں کو ضیافت کے لیے جمع کیا کہ اِن میں پیادہ پا بھی تھے اور سوار بھی۔ان کے پاس وہ سب مہمان بن کر اُترے اورمحاسب کے حساب میں ضیافت کا سلسلہ سات دن تک جاری رہا۔

نقیب ِمصطفٰی سیدناابوطالب عبد ِمناف کی زوجہ معظمہ سیدہ فاطمہ بنت ِاسد نے علمی و روحانی گھرانے میں آنکھ کھولی۔آپ کے دادا سیدنا ہاشم بن عبدمناف سردار قریش اور کَعْبَةُاللّٰہْ کے متولی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با صلاحیت اور سخی انسان تھے۔انہوں نے اپنے ہی خاندان کی ایک باوقار خاتون ”قیلة بنت ِعامر”سے عقد کیا جن سے ایک صاحبزادے اسد تشریف لائے جوسیدنا ہاشم کی عرب پروری کے محرک بنے ۔آپ حضرت فاطمہ بنت ِاسد کے والد تھے۔ جناب ِاسد بن ہاشم نے فاطمہ بنت قیس سے عقد کیا جن سے ٥٥٤ء میں پہلی نَجِیْبُ الْطَّرَفَینْ ہاشمیہ فاطمہ بنت ِاسد متولد ہوئیں ۔ آپ جناب اسد بن ہاشم کی اکلوتی دختر نیک اختر تھیں ۔قبائل ِعرب میں ہاشمی خاندان اپنی اخلاقی و روحانی اقدار اور انسان دوستی کی بلندیوں کے باعث منفرد احترام رکھتا تھا ۔ وقاروعظمت ،سخاوت وصداقت،شجاعت وبسالت اور ان گنت خصائل بنی ہاشم کے ا وصاف ہیں۔آپ مساتیر ِعرب میںانتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھیں۔حضرت فاطمہ بنت اسد نے جناب ابو طالب کے ہمراہ زندگی گزارنا شروع کی ۔آپ نے خانگی امور ومسائل ِزندگانی کے جملہ حقوق وفرائض انتہائی ذمہ داری ،صبر و صداقت ، خلوص ، پاکیزہ سوچ ، شفاف دل ، انتہائی محبت اور پاکیزگی کے ساتھ پورے کیے ۔بوقت ِعقد آپ حیات ِفانی کے چودہویں سال میں تھیں۔آپ سے عقد کے بعد سید بطحا نے طواف کرتے فرمایا؛

قَدْ صَدَّقْتَ رُؤیَاکَ بِالْتَّعْبِیْر، وَلَسْتَ بِالْمُرْتَابَ فِیْ الْاُمُوْرِ
اَدْعُوْکَ رَبِّ الْبَیْتِ وَالْنُّذُوْرِ، دَعَائَ عَبْدَ مُخْلِصٍ فَقِیْر
فَاعْطِنِیْ یَا فَالِقَ الْسَّرُورْ، بِالْوَلَدِ الْحُلاَحِلِ الْمَذْکُوْرِ
یَکُوْنُ لِلْمَبْعُوْثِ کَالْوَزِیرْ، یَا لَھُمَا یَا لَھُمَا مَنْ نُورِ
قَدْ طَلْھَا مِنْ ہاشِمِ الْبُدُّوْرِ، فِیْ فَلَکِ عَالٍ عَلیَ الْبَحُوْرِ
فَیَحْنَ الْاَرْضِ عَلیَ الْکَرُوْرِ، طَحْنَ الْرَّحیٰ لِلْحَبِّ بِالْتَّدْوِیْر
اِنَّ قُرَیْشاً بَاتَ بِالْتَّکْبِیْر، مَنْہُوْکَةً بِالْغَیِّ وَالْثَّبُوْرِ
وَمَا لَھَا مِنْ مُوْئِلِ مُجِیْر، مِنْ سَیْفِہِ الْمُنْتَقِمِ الْمُبِیْر
وَصِفْوَةِ الْنَّامُوْسِ فِیْ الْسَّفِیْر
حُسَّامُہُ الْخَاطِفُ لِلْکَفُوْرِ

آپ نے دکھائے گئے خواب کی تعبیر کو سچ کر دکھلایااور یقیناآپ اپنے امور میں محکم ہیں ۔میں خانہ کعبہ ومافیہاکے مالک سے ایک مخلص بندے کافقیرانہ سوال کرتاہوں کہ اے مفرح ِقلوب ! مجھے نازش ِقریش بہادر وسردار فرزند عطا فرماتاکہ وہ تیرے بھیجے گئے پیغمبر کادست ِراست ہو۔اے اُن دونوں کے منبع ِانوار !بنی ہاشم کے دمکتے مہ ونجوم میں بے کراں سمندروں کے بلند وبالاافق پراسے چمکادے ۔روئے زمین کو اُس کی آمد سے مسرور وشاداں اور اصنام ِباطل کو ریزہ ریزہ کرکے اُس کی محبت کے دائرے میں رکھ ۔قریش تیری کبریائی سے بے بہرہ ہوکر اپنی گمراہی اور ہلاکت کے اسیر ہیں اور انہیں کیا ہوگیا کہ خیروبرکات کے سرچشمہ سے روگرداں وفراموش کنندہ ،منہدم ونیست ونابود کردینے والی انتقامی تلوار سے غافل ہیں ۔ عزت و جاہ وحشم فقط تیرے بھیجے ہوئے نمائندے کی اطاعت میں ہے کہ جس کی لہراتی ہوئی تلوار تجھ سے روگردانی کرنے والوں کے لیے یقینی ہلاکت کی دلیل ہے ۔

آغوشِ مصطفٰی وبشارتِ مرتضٰی
سیدتنافاطمہ بنت ِاسد فرمایا کرتی تھیں؛”جب حضرت عبدالمطلب کا انتقال ہوگیا تو حضرت ابو طالب آپ (سیدنا محمد ۖ) کواپنے ساتھ لے آئے ۔میں ان کی خدمت کیا کرتی اور وہ مجھے ”اماں ” کہہ کر پکارا کرتے ۔ ہمارے گھر کے باغیچہ میں کھجوروں کے درخت تھے ۔تازہ کھجوروں کے پکنے کا موسم شروع ہوا ،حضرت محمد کے دوست بچے ہر روز ہمارے گھر میں آتے اور جو کھجوریں گرتیں وہ چن لیتے ۔میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ ۖ سے پہلے کسی بچے نے کوئی کھجور اٹھائی اور محمد ۖ نے اس سے چھینی ہو، جب کہ دوسرے بچے ایک دوسرے سے چھینتے رہتے ۔میں ہر روز محمد ۖ کے لیے دونوں ہاتھ بھر کے چن لیتی ۔اسی طرح میری کنیز بھی دونوں ہاتھ بھر کے رکھ لیتی ۔ایک دن میں اور میری کنیز بھول گئیں اور ہم کھجوریں نہ چن سکیں۔محمد ۖسو رہے تھے ۔بچے داخل ہوئے اور جو بھی کھجوریں گری تھیں وہ چن کر چلے گئے ۔میں سو رہی اور محمد ۖ سے شرم و حیا کی وجہ سے اپنے چہرے کو ڈھانپ کر سو گئی۔ محمدۖ بیدار ہوئے اور باغ میں تشریف لے گئے۔

لیکن وہاں زمین پر کوئی کھجور نظر نہ آئی سو واپس لوٹ آئے ۔کنیز نے ان سے کہا ،”ہم کھجوریں چننا بھول گئے تھے ،بچے آئے اورگری ہوئی ساری کھجوریں چن کر کھا گئے ”۔محمد ۖ دوبارہ باغ میں گئے اور ایک کھجور کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا، ”مجھے بھوک لگی ہے”۔میں نے دیکھا کھجور نے اپنے شگوفوں کو جھکا دیا جن پر تازہ کھجوریں تھیں۔محمدۖ نے جی بھر کر کھا لیں ،پھر وہ شگوفے اپنی جگہ پر واپس چلے گئے۔ میں نے بہت تعجب کیا ۔ حضرت ابو طالب ہر روز گھر سے باہر چلے جایا کرتے تھے۔جب بھی واپس آتے تو دروازے پر دستک دیتے۔ میں کنیز سے کہتی کہ وہ دروازہ کھولے۔ابو طالب نے دستک دی اور میں خود ننگے پائوں دوڑتی ہوئی دروازے پر گئی ،دروازہ کھولا اور جو کچھ دیکھا تھا بیان کر دیا ۔ ابو طالب نے فرمایا؛”وہ یقینا نبی ہیں اوران کے وصی تیس سال بعد آپ کے ہاں تشریف لائیں گے۔ ”

ایک روز آپ فواطم بنی ہاشم (ہاشمی مستورات جن کے نام فاطمہ تھے۔ سیدہ فاطمہ بنت ِ اسد ، فواطم ِبنی ہاشم میں بھی منفردیگانہ مقام رکھتی ہیں کہ آپ کا اپنااسم ِگرامی فاطمہ ،آپ کی خوشدامن اور چچی فاطمہ ، آپ کی بہو سیدة النسا فاطمہ ،آپ کی صاحبزادی ام ہانی کا نام ِنامی اسم ِگرامی بھی فاطمہ ہے ۔اس طر ح حدیث ِنبوی ”انا اِبن الْفَوَاطِمْ ” میں آپ اہم مقام ومنزلت رکھتی ہیں ۔ سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین کو ” اِبْنُ الْفَوَاطِمْ ”کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ معظمہ سیدہ فاطمہ زہرا ، آپ کی دادی صاحبہ سیدہ فاطمہ بنت ِاسد ، آپ کی نانی جان ام المؤ منین خُدَیْجَةُالْکُبْریٰ کی والدہ جناب فاطمہ بنت ِزائد بن الاصم اور آپ کے پڑناناسیدناعبداللہ کی والدئہ گرامی فاطمہ بنت ِ عائذسب کے اسمائے گرامی فاطمہ ہیں۔)میں تشریف فرما تھیںاور گفتگو فرما رہی تھیںکہ رسول اللہ نور ِروشن کے ساتھ تشریف لائے ۔ چند کاہن انہیں دیکھتے ان کے پیچھے وہاں پہنچ گئے اور ان فواطم بنی ہاشم سے آپ کے بارے میں پوچھا ۔انہوں نے بتایا ،”یہ انتہائی عظمت و شرف اور بلند ترین فضل و کمال کے مالک حضرت محمدۖہیں۔”کاہن نے ان خواتین کو آپ کی عظمت اور بلند مرتبہ کے بارے میں بشارت دی کہ مستقبل قریب میں آپ مبعوث بہ نبوت ہوں گے اور بلند و بالا مقام ومرتبہ کے مالک ہوں گے ۔تم عورتوں میںسے جو ان کی بچپن کی کفالت کا شرف حاصل کریں گی وہ ایک ایسے فرزند کی کفالت کا بھی شرف حاصل کریں گی جو ان کے مدد گاروں اور اصحاب میں سے ایک ہو گا۔وہ ان کے رازوں کا امین اور ان کا ساتھی ہو گا ۔دوستی و اخوت اور بھائی چارے کی بنا پر ان سے محبت کرے گا ۔حضرت فاطمہ بنت اسد نے اس کاہن کو بتایا ، ”میں ان کے تایا کی زوجہ ہوں ۔وہ ان کے بارے میں ہر وقت فکر مند اور پر امید رہتے ہیں ۔ یہ میری کفالت میں ہیں۔” اس نے کہا ؛

” عنقریب آپ ایک بہت بڑے عالم اور اپنے پروردگار کی اطاعت کرنے والے بیٹے کو جنم دیں گی ،جن کا نام تین حروف پر مشتمل ہو گا ۔وہ ان نبی کے تمام معاملات اور امور میں ولی ہوں گے اور ہر چھوٹے بڑے کام میں ان کی مدد کریں گے ۔وہ ان کے دشمنوں کے لیے تلوار ہوں گے اور دوستوں کے لیے دروازہ اور باب ہوں گے ۔وہ ان کے چہرہ مبارک سے پریشانیوں کو دور کریں گے ۔ ظلمت و تاریکی کی گھٹائوں کو دور کریں گے ۔ گہوارے ہی میں بہادری و حملہ ،رعب و دبدبہ پیدا کرنے والے ہوں گے ۔لوگ ان کے خوف سے کانپیں گے۔ ان کے بہت زیادہ فضائل و مناقب اور بلند و بالا مقام و مرتبہ ہو گا ۔ وہ ان کی اطاعت میں ہجرت کریں گے ۔اپنی جان سے بڑھ کر ان کی حفاظت کے لیے جہاد کریں گے ۔وہی ان کی وصیت کے مطابق انہیں ان کے کمرے میں دفن کریں گے”۔

سیدہ کا خواب
سیدہ فرماتی ہیں کہ میں یہ سن کر سوچ و بچار کرنے لگی۔را ت خواب میں دیکھا کہ شام کے پہاڑ رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔اُن کے اوپر لوہے کی چادریں تنی ہیںاور اُن کے سینوں سے خوفناک قسم کی چیخیںبلند ہو رہی ہیںاور وہ تیزی سے جبال ِمکہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مکہ کے پہاڑ بھی جوابا ًاسی طرح چیخ و پکار کی صورت میں خوفناک آوازیں بلند کر رہے ہیںجس طرح تیز دھار آلہ کی آواز ہو ۔کوہ ابو قبیس گھوڑے نگل رہا ہے ۔اس کی بلند چوٹی دائیں بائیں گر رہی ہے ۔لوگ اس وجہ سے گر رہے ہیں ۔ان کے ساتھ ہی چار تلواریں اور ایک لوہے کا انڈہ جس پر سونا چڑھا ہوا ہے گرے۔ ان میں سے سب سے پہلے جو مکہ میں داخل ہوا اس کے ہاتھ سے تلوار پانی میں گری اور ڈوب گئی ۔دوسری زمین پر گری اور ٹوٹ گئی ۔تیسری تلوار ہوا میں اڑی اور اڑتی ہی گئی ۔چوتھی میرے ہاتھ میں تنی رہی۔ وہ میرے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ وہ نوجوان کی صورت میں ڈھل گئی جو خوفناک شیر کی طرح بن گیا ۔ وہ میرے ہاتھ سے نکلا اور پہاڑوں کی طرف چلا گیا اور ان کے پیچھے پیچھے رہا ۔ان کی چٹانوں کو توڑتا رہا ۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈرتے رہے اور خوفزدہ ہو کر بھاگتے رہے ۔ یہاں تک کہ حضرت محمدتشریف لائے ۔انہوں نے اسے گردن سے پکڑ لیا ،جس سے وہ ایک مانوس اور پیار کرنے والے ہرن کی طرح رام ہو گیا ۔میں خواب سے بیدار ہو گئی ۔مجھ پر تھکان اور خوف نے غلبہ کر لیا۔ میں نے اس کی تعبیر دریافت کی تو بتلایا گیا ؛

”آپ کے ہاں چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی متولد ہو ں گی ۔بیٹوں میں ایک غرق ہو جائے گا ،دوسرے کوموت آئے گی ۔تیسراجنگ میں قتل ہو جائے گا ، اُن کے بعد ایک باقی رہ جائے گا جو مخلوق ِخدا کا امام قرار پائے گا ۔وہ صاحب ِ سیف ہو گا اور بہت بڑی فضیلت کا مالک ہو گا ۔نبی ِ مبعوث کی بہت احسن طریقہ سے اطاعت کرے گا ”سیدہ فرماتی ہیں ، ”میں سوچتی رہی یہاں تک کہ تین لڑکے طالب،عقیل اور جعفر متولد ہوئے ۔پھر علی کے مقدس وجود کی امینہ بنی۔ یہاں تک کہ وہ مہینہ جس میں ان کی ولادت ہوئی میں نے خواب میں لوہے کا ایک ستون دیکھا جو میرے سر کے اوپر سے بلند ہوا ،پھر ہوا میں پھیل گیا اورآسمان تک پہنچ گیا ۔پھر میری طرف لوٹا ۔میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ مجھے بتایا گیا کہ کافروں کا قتل کرنے والا،مدد کا وعدہ پورا کرنے والا ، اِن کی جنگ بہت شدید ہو گی جس کے خوف سے لوگ ڈریں گے ۔وہ اللہ کے نبی کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور ان کے دشمنوں کے خلاف اللہ کی تائید ہے”۔ اس کے بعد میرے ہاں علی تشریف لائے۔ ”

لاَِنَّا سَیُوْفُ اللّٰہِ وَالْمَجْدُ کُلُّہْ
اِذَاکَانَ صَوْتَ الْقَوْمِ وَجِیَ الْغَمَائِمْ

یقیناقوم کی مایوس کن صدائوں کی گھمبیرگھٹائوں میں ہم شر ف ومجد والی خدائی تلواریں ہیں ۔نقیب ِمصطفٰی
خصائل وخصائص سیدہ فاطمہ بنت اسد تاریخ ِاسلام میںمرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ذات ِواحد پر ایمان ِکامل اور تقویٰ و پر ہیز گاری کے ساتھ انبیائے ماسبق اور ان پر نازل ہونے والی کتب و ہدایات پر یقین رکھتے ہوئے عمل پیرا تھیں۔آپ کے شوہر نامدار نقیب ِمصطفٰی سیدنا ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب ،وارث ِانبیا ومرسلین تھے ۔سیدہ فاطمہ بنت اسد مستجاب الدعوٰة تھیںکہ آپ کے دہن ِاقدس سے نکلی ہر بات سریع الاثر اجابت رکھتی تھی ۔مدینہ منورہ مہاجرت کے دوران سیدہ فاطمہ بنت اسد ،سیدہ فاطمہ زہرا اور جناب فاطمہ بنت زبیر ، سیدنا علی ابن ابی طالب کے ہمراہ تھیں ۔سارا رستہ اٹھتے بیٹھتے ،لیٹتے ذکر خدا کیا ۔منزل ِصحنان پہ پہنچے تو شب وروز قیام فرمایا ۔یہ ذکر وخلوص ِبنت ِاسد ،خالق ِکائنات کو پسند آیا کہ آیت ِقرآں بنا کر آپ کی قبولیت اور مقامات ِاعلیٰ کاتذکرہ کیا؛

فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَٰمِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰج بَعْضُکُمْ مِّنْم بَعْضٍٍج فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْریْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُج ثَوَاباً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِطوَاللّٰہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الْثَّوَابِ ة آل ِ عمران١٩٥:٣ ”

پس ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی اور فرمایا کہ ہم تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو اکارت نہیں کرتے مرد ہو یا عورت ،تم ایک دوسرے سے ہو، پس جن لوگوں نے ہجرت کی اور شہر بدر کیے گئے اور انہوںنے ہماری راہ میں اذیتیں اٹھائیں اور (کفار سے )جنگ کی اور شہید ہوئے میں ان کی برائیوں سے ضرور درگزر کروں گا اور انہیں جنت کے ان باغوں میں لے جائوں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔خدا کے ہاں یہ ان کے کیے کا بدلہ ہے اور اللہ کے ہاں تو اچھا ہی بدلہ ہے ”

چار دیواری میں تمام زندگی گزار دینے کے باوجود آپ ایک مثالی خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر ،اولاد اور سب سے بڑھ کر آنحضرت کا بے حد خیال رکھا ۔ہر محاذ پہ سیدنا ابو طالب کا مکمل ساتھ دیتے حضرت محمد مصطفٰی کی حفاظت و خدمت گزاری اور مادرانہ شفقت و محبت کا بے مثال مظا ہرہ فرمایا جس کے باعث آنحضرت ۖ آپ کے انتہائی ممنون اورسپاس گزار رہے۔آپ نبی کریم ۖکے دست ِاقدس پر بیعت فرمانے والی پہلی معظمہ ہیں۔

لِیْ خَمْسَة ،آغوشِ پنجتن
سیدہ فاطمہ بنت ِاسد کی نورانی آغوش میں پنجتن ِپاک کی پرورش ہوئی ۔سیدنا محمد مصطفٰی ۖ،سیدنا علی المرتضٰی ،سیدہ فاطمہ زہرا،سیدنا امام حسن مجتبیٰ اورسیدنا امام عالیمقام حسین شہید کربلا ،آپ کی آغوش ِعاطفت میں پروان چڑھے۔یہ اعزاز کامل آپ کی انفرادیت ہے اور کوئی دوسری خاتون اس میں آپ کی شریک نہیں۔آپ مہاجرات ِمدینہ میں سے ہیںاورآپ نے حضور نبی کریم کی احادیث مبارکہ کا وسیع ذخیرہ اہل اسلام کو عطا فرمایا۔

سیرتِ فرزندہا از امہات
سیدنا محمد مصطفٰی ۖو علی مرتضٰی، آپ ہی کی تربیت کا ثمر تھے ۔آپ کے شوہرنامدار سیدناابو طالب اسلام کے عظیم ترین محافظ ِاول اور ناصر رسولۖ تھے۔سیدہ فاطمہ بنت ِاسد نے حضور کی خدمت و محافظت میں حضرت ابو طالب کا ہاتھ بٹایا۔آقائے نامدار اوائل ِحیات ہی میں آغوش ِمادر سے جدا ہو گئے تھے مگر سیدہ فاطمہ بنت اسد کی صورت میں آپ کو ماں کی گود نصیب ہوئی ۔اسطرح آپ مامتا کے پیار سے محروم نہیں ہوئے۔سیدہ فاطمہ بنت اسد نے مسائل کی پرواہ کیے بغیر آپ کا بچپن ،لڑکپن اور جوانی میںہر ممکن خیال رکھااور اس بات کو یقینی بنایا کہ آپ کی خدمت میں بہترین چیز پیش کی جائے۔ نفیس ترین لباس پہنایا اور مرغوب ترین غذا کھلائی ۔جہاں شوہر نے بیرونی دشمنوں سے حفاظت فرمائی وہیں زوجہ نے گھر میں پیار، اطمینان، غمگساری اور محافظت فرمائی۔ آپ ہی کے آنگن میں حضور ۖ ذہنی سکون اور آرام و اطمینان کا احساس پاتے تھے ۔خطرات کے پیش ِنظر سیدہ فاطمہ بنت اسد اپنی اولاد کو حضورۖ کے بستر پر سلا دیتی تھیں۔حضور کی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کی خاطر کٹ مرنے کی طینت آپ ہی نے اولادِ ابو طالب کو عطا فرمائی ۔اسی حفاظت ِ پیغمبراسلام اور دین ِمتین پر آپ نے اپنے ہزاروں جگر پارے نچھاور کر دیے۔

کَانَ اَبُوْطَالِبْ اِذَا رَآی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ اَحْیَاناً یَبْکِیْ وَیَقُوْلْ: اِذَا رَاَیْتُہُ ذَکَرْتُ اَخِیْ، وَکَانَ عَبْدُاللّٰہِ اَخَاہُ لاَِبَوَیْہِ وَکَانَ شَدِیْدُ الْحُبِّ وَالْحَنُوِّ عَلَیْہِ، وَکَذٰلِکَ کَانَ عَبْدُالْمُطَّلِبْ شَدِیْدَالْحُبِّ لَہُ، وَکَانَ اَبُوْطَالِبْ کَثِیْراً مَّا یَخَافَ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ الْبَیَاتْ اِذَا عَرَفَ مَضْجَعَہُ فَکَانَ یُقِیْمُہُ لَیْلاً مِّنْ مَّنَامِہ وَیَضْجِعْ ابْنُہُ عَلِیًّا مَکَانُہْ فَقَالَ لَہُ عَلِیْ لَیْلَةً: یَا اَبَةِ اِنِّیْ مَقْتُوْل فَقَالَ لَہُ؛

ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوگاہے گاہے دیکھاکرتے اورگریہ زاری کرتے فرماتے کہ جب میںآپ کو دیکھتاہوں تو مجھے میرابھائی یاد آجاتا ہے اورعبداللہ آپ کے بھائی تھے جن سے آپ بے پناہ محبت اور شفقت ِ پدری رکھتے تھے اسی طرح عبدالمطلب بھی ان سے بے پناہ محبت فرماتے۔ ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بے حد متفکر رہتے تھے ۔جب بھی آپ کی جائے استراحت کا پتہ چلتا تورات کو انہیں نیند سے بیدار کردیتے اور ان کی جگہ اپنے فرزند علی کوسلادیتے ۔ ایک رات علی نے اُن سے کہا ،”باباجان !میں قتل کردیا جائوں گا ”توابوطالب نے اُن سے فرمایا؛

اِصْبِرَنْ یَا بُنَیَّ فَاالْصَّبْرُ اَحْجِیْ
کُلُّ حَیٍّ مُصِیْرَہُ لِشَعُوْبِ

میرے بیٹے!صبر واستقامت سے کام لینا کیونکہ گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی بجائے ہمیشہ صبر واستقامت ہی دانشمندی کی علامت ہے (اور جہاں تک موت کا تعلق ہے تو)ہر زندہ انسان کے قدم موت کی طرف بڑھ رہے ہیں

قَدْ بَذَلْنَاکَ وَالْبَلائُ شَدِیْد
لِفِدَائِ الْحَبِیْبِ وَابْنِ الْحَبِیْبِ

(میرے نورِنظر!) اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے لیے یہ ایک انتہائی سخت آزمائش ہے لیکن یہ انتہائی سخت آزمائش بھی اس ذات ِگرامی کے لیے ایثار وفداکاری کی خاطرہے جو خود محبوب بھی ہیں اور محبوب (سیدنا عبداللہ ) کے فرزندبھی

اَلْنَّبِیِّ الْاَغَرِّ ذِیْ الْحَسَبِ الْثَّاقِبِ
وَالْبَاعِ وَالْکَرِیْمِ الْنَّجِیْبِ

(یعنی )وہ نبی ِاکرم ۖجو روشن پیشانی والے ہیں ،جو نسب کے اعتبار سے ستاروں کی مانند درخشاں ہیں ،
فضل وشرف میں سب سے بلند ہیں ،صاحب جود وکرم ہیں اور نجیب وشریف ہیں

اِنْ تُصِبْکَ الْمَنُوْنَ فَالْنَّبْلُ تَتْرِیْ
فَمُصِیْبُ مِنْھَا وَغَیْرَ مُصِیْبِ

اگر آپ کو(اس ایثار وفداکاری کی راہ میں ) جان بھی دینا پڑے تو (کیا ہوا)موت کے تیر توچلتے ہی رہتے ہیں ۔
کسی کو لگ جاتا ہے اور کہیں چوک جاتا ہے

کُلُّ حَیٍّ وَاِنْ تَمَلَّی بعُمْرٍ
آخِذُ مِنْ مَذَاقِھَا بِنَصیبِ

(بہرحال یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ )جو شخص بھی زندگی گزار رہا ہے ،چاہے اس کی عمر کتنی ہی طولانی کیوں نہ ہو جائے (ایک نہ ایک دن تو ) اسے موت کا مزا چکھناہی ہے ۔(پھر کیوں نہ اسے حق کی راہ میں صرف کیا جائے )
کلام ِمقدس سن کرنہالِ نقیب ِمصطفٰی نے فرمایا؛

اَتَأمَرْنِیْ بِالْصَّبْرِ فِیْ نَصْرِ اَحْمَدٍ، وَوَاللّٰہِ مَا قُلْتَ الَّذِیْ قُلْتَ جَازِعاً
وَلٰکِنَّنِیْ اَحْبَبْتُ اَنْ تَرَّ نُصْرَتِیْ، وَتَعْلَمْ اِنِّیْ لَمْ اَزَلُّ لَکَ طَائِعاً
سَاَسْعیٰ لِوَجْہِ اللّٰہِ فِیْ نَصْرِ اَحْمَدٍ، نَبِیِّ الْھُدیٰ الْمَحْمُوْدِ طِفْلاً وَیَافِعاً

باباجان!آپ نے مجھے نصرت ِاحمد ِمجتبیٰ کا حکم دیا ہے ۔بخدا میں نے ہرگزبعالم ِخوف یہ نہیں کہاتھا بلکہ میں تو خود اپنی تمام تر توانائیاں نصرت ِاحمد ِمجتبیٰ میں وقف کیے ہوں اور آپ جانتے ہیں کہ میں کبھی آپ کے احکام سے روگرداں نہیں ہوا۔یقینامیں اپنی صغر سنی اور تمام تر کمزوریوں کے باوجودرضائے الٰہی کی خاطرصاحب ِمجد وافتخار ، منبع ِرشد و ہدایت نبی ِ برحق احمد مجتبیٰ کی بھرپورنصرت شعاری میںقویٰ مجتمع رکھوںگا۔

آل ِنقیب ِمصطفٰی
ھُمُوْ سَادَةُ الْسَّادَاتِ فِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ
وَخِیرَةُ رَبِ الْنَّاسِ فِیْ کُلِّ مُعْضِلْ

یہ ہر جگہ کے سرداروں کے سردار ہیں اور جب بھی کوئی مشکل کی گھڑی ہو تو یہی لوگ خدا کے سب سے پسندیدہ بندے نظر آئیں گے حضرت ابو طالب آپ کے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھیں۔ سیدنا طالب ، سیدنا عقیل ، سیدنا جعفر ، سیدنا علی صاحبزادے جبکہ سیدتنا ام ہانی فاطمہ جمانہ صاحبزادی تھیں ۔ان سب سے بڑھ کر باعث ِتخلیق ِکائنات آپ کے فرزند تھے ۔آپ کا گھر نہ صرف اسلام کی ابتدائی آغوش ہے بلکہ تاقیامت اس دین ِخدا کی محکم حصار بندی کا فریضہ بھی اسی خانوادے کا اعزاز ہے ۔ ریگزار ِکرب وبلا سے لے کر وادی ِفَخْ، بغداد و شیراز ،اصفہان و ساوِہ،نیشاپور اوردیگرکئی مقامات پہ اسلام کی خاطر نوک ِسناں کی زینت بننے والی اولاد سیدہ فاطمہ بنت ِاسد ہی کی ہے؛

وَدُوْنَ مُحَمَّدٍ مِنّا نَدِیّ
ھُمُ الْعِرْنَیْنُ وَالانْفُ الْصَّمِیْم
ھُمُ الْاُسْدُ ،اُسْدُ الْزَّارِتِیْنٍ اِذَا غَدِتْ
عَلیٰ حَنَقٍ لَمْ یُخْشَ اِعْلاَمُ مُعْلِمْ

اور محمد مصطفٰی ۖکی حمایت میں لڑنے کے لیے ہمارے بلند مرتبہ ،غیرت مند اور عالی قدر جوان ہر وقت آمادہ ہیں
یہ جوانمرد ،ایسے چنگھاڑنے والے شیر ہیں کہ جب بپھر کرکسی کی گردن پر حملہ کرتے ہیں تو پھر کچھ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔

بانی اسلام سیدنا محمد مصطفٰی اور محافظ ِاسلام سیدنا علی المرتضٰی آپ ہی کے گھرپروان چڑھے۔آپ ہی کی تربیت کے زیر اثر سیدنا امام علی شب ہجرت حضور کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے ۔ عَنْ اِمَا م حَسَنْ الْعَسْکَرِْ عَنْ آبَائِہ، اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ اَوْحیٰ اِلیٰ رَسُوْلِہْ: اِنِّیْ قَدْ اَیَّدْتُکَ بِشِیْعَتَیْن: شِیْعَةٍ تَنْصُرُکَ سِرّاً، وَشِیْعَةٍ تَنْصُرُکَ عَلاَنِیَةً، فَاَمَّا الَّتِْ تَنْصُرُکَ سِرّاً فَسَیِّدُھُمْ وَاَفْضَلُھُمْ عَمِّکَ اَبُوْطَالِبْ، وَاَمَّا الَّتِیْ تَنْصُرُکَ عَلاَنِیَةً فَسَیِّدُھُمْ وَاَفْضَلُھُمْ اِبْنُہُ عَلِْ اِبْنُ اَبِیْ طَالِبْ،سیدنا امام حسن عسکری اپنے آبائے طاہرین سے روایت فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے رسول کی جانب وحی فرمائی کہ میں نے آپ کی دوقسم کے خیر خواہوں سے مدد کی ،ایک گروہ جس نے آپ کی غیبی مددکی اور دوسرا وہ جس نے آپ کی مبینہ واعلانیہ مددکی ۔پس جس نے دست ِغیب سے امداد کی اُس کے سید وسردار آپ کے تایا ابوطالب ہیں اورعلی الاعلان مددکرنے والے گروہ کے سرخیل ان کے بیٹے علی ابن ِابی طالب ہیں ۔شارح ِ نِہْجُ الْبَلاَغَةْ،عزالدین ابوحامد عبدالحمید بنھِبَةُاللّٰہمعروف بہ ابن ِابی الحدید معتزلی (١١٩٠تا١٢٥٨ئ)کہتے ہیں؛

وَ لَوْلاَاَباطَالِبٍٍ وَابْنُہُ
لَمَا مُثِّلُ الْدِّیْنُ شَخْصًا فَقَاماً
اگر ابوطالب اوراُن کے فرزند نہ ہوتے تو آج دین قائم نہ ہوسکتا
فَذَاکَ بمَکَّةٍ آویٰ وَحَامیٰ
وَ ھٰذَا بِیَثْرَبٍ جَسَّ الْحَمَاماً
اُن میں سے ایک نے مکہ میں حمایت وحفاظت کی اور دوسرے نے مدینہ سے موت سے پنجہ لڑایا
تَکفِّلُ عَبْدُ مَنَافَ باَمْرٍ
وَ اوْدیْ فَکَانَ عَلِی تَمَاماً
درحقیقت عبد ِمناف (ابوطالب )نے ایک ذمہ داری لے کر وعدہ فرمایاجسے علی نے پورا کردیا
فَقل فِیْ ثَبِیْر مَضٰی بَعْدُ مَا
قَضٰی مَا قَضَاہُ وَاَبْقٰی شَمَاماً
کوہِ ثبیر کے پھول مرجھاگئے مگر خوشبو باقی ہے
فَلِلّٰہِ ذَا فَاتِحاً لِّلْھُدیٰ
وَلِلّٰہِ ذَا لِلْمَعَالِیْ خِتَاماً
خدا بھلا کرے انہوں نے مکہ سے خیر کا آغاز کیا اور رفعتوں پر اختتام کیا
وَمَاضَرَّ مَجْدَ اَبِیْ طَالِبٍ
جَھُوْلُ لَّغَا اَوْ بَصِیْر تَعَاماً
شرف ِابو طالب کوکوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا خواہ جاہلانہ لغوبیانی کرے یا کورچشمی
کَمَا لاَ یَضَرُّ اٰیَاةَ الْصَّبَاحْ
مِنْ ظَنَّ ضَوْئِ الْنَّھَارِ الْظَّلاَماً
جیسا کہ صبح کی نشانیاں آفتاب کی ضوفشانی سے ظاہر ہو کر ظلمت مٹا دیتی ہیں
سیدنا طالب بن ابی طالب

سیدنا طالب بن ابی طالب ،سیدہ فاطمہ بنت اسد کے بڑے صاحبزادے تھے اور آپ ہی کی مناسبت سے سید ِبطحا کی کنیت ِمتبرکہ ابو طالب معروف ہے ۔ سرکارِدوعالم ۖنے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا،” لَمَّاکَانَتِ الْلَّیْلَةِ الَّتِیْ اسْریٰ بِیْ فِیْھٰا اِلَی الْسَّمَائِ اِنْتَھْیَتْ اِلَی الْعَرْشِ فَرَأیْتُ اَرْبَعَةَ اَنْوَارٍ فَقُلْتُ: اِلٰھِیْ مٰا ھٰذِہِ الْاَنْوَارْ ؟ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدْ! ھٰذَا عَبْدُالْمُطَّلِبْ وَھٰذَا اَبُوْطَالِبْ وَھٰذَا اَبُوْکَ عَبْدِاللّٰہْ وَھٰذَا اَخُوْکَ طَالِبْ ”،”شب ِمعراج جب میں نے عرش کی جانب نگاہ کی تو انوار ِاربعہ (چارنور)مشاہدہ کیے ۔میں نے بارگاہ ِایزدی میں عرض کیا کہ یہ کیسے نور ہیں ؟جواب ملا ،”اے محمد !یہ عبدالمطلب ہیں اور یہ ابوطالب ،یہ آپ کے والد عبداللہ ہیں اور یہ آپ کے بھائی طالب۔ ”آپ سرکار ِدوعالم ۖکے ہم سن تھے۔بارگاہ ِرسالت مآب میں نعت کا نذرانہ پیش کرتے فرماتے ہیں؛

وَخَیْرَ بَنِیْ ھٰاشِمِ اَحْمَدٍ، رَسُوْلِ الْاِلٰہِ عَلیٰ فُتْرَةٍ
عَظِیْمَ الْمَکَارِمْ نُوْرَ الْبِلاَدْ،حَرِّیْ الْفُوَادِ صَدِیْ الْزُّبْرَةٍ
وَقَدْحَلَّ مَجْدَ بَنِیْ ھٰاشِمٍ، مَکَانَ الْنَّعَائِمِ وَالْنُّثْرَةٍ
وَمَحْضَ بَنِیْ ھٰاشِمِ اَحْمَدٍ، رَسُوْلَ الْمَلِیْکِ عَلیٰ فُتْرَةٍ
کَرِیْمُ الْمَشَاہِدْ سَمْحُ الْبَنَانٍ، اِذَا ضَنَّ ذُوْالْجُوْدِ وَالْقُدْرَةٍ
عَفِیْف تَقِیّ نَقِیُّ الْرَدَا ،طَھَرْ الْسَّرَاوِیْلِ وَالْاُزْرَةٍ
جَوَاد رَفِیْع عَلَی الْمُعْتَقِیْن ، وَزَیْنَ الْاَقَارِبِ وَالْاُسْرَةٍ
واَشْوَسُّ کَالَّلیْثَ لَمْ یَنْھَہُ ، لِدِیْ الْحَرْبِ زُجْرَةَ ذِیْ زُجْرَةٍ

بنی ہاشم میں سے بہترین احمد ہیں جو اللہ کے رسول ہیں ۔بلند مکارم ِاخلاق کے حامل ،ہمارے وطن کی روشنی ،قلوب کی حرارت ،معارف ِحق کی پیاس اور خاندان ِبنی ہاشم کا سرمایہ افتخار ہیں کہ جو نعمتوں اور آسائشوں کاسرچشمہ ہے ۔بنی ہاشم کاجوہر،مالک ومختار کے احمد ِمرسل ہیں جومکرم ومقتدر صاحب ِجود وسخا،پاک وپاکیزہ ،عفت وعصمت عطافرمانے والے ہیں ۔انبیائے ما سبق میں بلند مرتبہ ،اعزاواقارب کے لیے زیب وزینت جبکہ حروب ِ حق میں بپھرے ہوئے گرجتے شیر کی مانند جری اوربہادر ہیں ۔

ایک مقام پہ فرماتے ہیں؛
اَلَمْ تَعْلَمُوْا مَا کَانَ فِیْ حَرْبِ دَاحِسٍ، وَجَیْشِ اَبِیْ یَکْسُوْمَ اِذْ مَلاَؤا الْشِّعْبَا
فَلَوْلاَدِفَاعُ اللّٰہِ لاَ شَیْئَ غَیْرُہُ، لَاَصْبَحْتُمْ لاَ تَمْنَعُوْنَ لَکُمْ سِرْباً
فَمَا اِنْ جَنِیْنَا فِیْ قُرَیْشٍ عَظِیْمَةً، سِویٰ اَنْ حَمَیْنَا خَیْرَ مِنْ وَطِئَی الْتُّرْبَا
اَخَاثِقَةٍ فِیْ الْنَّائِبَاتِ مُرَزَّا،کَرِیْماًثَنَاہُ لاَبَخِیْلاً وَلاَ ذَرْباً
یُطِیْفُ بِہِ الْعَافُوْنَ یَغْشَوْنَ بَابَہُ، یُوْبُوْنَ نَھْراً لاَ نَزُوْراً وَ لاَ صَرْباً
وَلاَ تُصْبِحُوْا مِنْ بَعْدِ وُدٍّ وَاُلْفَةْ، اَحَادِیْثَ فِیْھَا کُلُّکُمْ یَشْتَکِیْ الْنَّکْبَا

کیا تم نہیں جانتے کہ داحس کی جنگ اور یکسوم کے باپ (ابرہہ)کاکیاانجام ہواجب کہ انہوں نے تمام گھاٹیاں بے شمار سپاہ سے بھر دی تھیں ۔پس اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت
نہ ہوتی کہ ماسواجس کے کچھ بھی نہیں تو تم لوگ اپنے ناموس کی حفاظت سے قاصر تھے ۔سوااس کے کہ ہم نے روئے زمین پر چلنے والوں میں سے بہترین انسان کی حمایت کی،
ہم نے قریش کاکوئی بڑا جرم تو نہیں کیا تھا۔(ہم نے اُن کی حمایت کی جو)شریف ومکرم اورپراز آفت مواقع پر قابل ِبھروسہ ،بہ لحاظ ِتوصیف وستائش بلند مرتبہ، بخیل ہیں نہ فساد پھیلانے والے ۔ان کے در ِسخا پر سائلوں کاہجوم رہتا ہے جوایسی نہرکے کنارے آجاتے ہیں کہ جس کاپانی کم ہے نہ سوکھ جانے کاڈر۔توآپس میں اتحاد والفت کے بعد
(عبرت انگیز)واقعات کی صورت اختیار نہ کرلو کہ جس میں تم میں سے ہر شخص بربادی کاشکوہ کرتا رہے ۔
کس خوبصورتی سے توحید ورسالت اور زمانۂ جاہلیت قبل ِبعثت میں معارف ِحق متعارف کروائے ہیں ۔ آپ کو مخاطب کرتے نقیب ِمصطفٰی سیدناابوطالب فرماتے ہیں ؛

اَبُنَیَّ طَالِبُ، اِنَّ شَیْخَکَ نَاصِحُ
فِیْمَا یَقُوْلُ مُسَدِّدَ لَکَ رَاتِقُ

میرے پیارے بیٹے طالب !آپ کا عمر رسیدہ ضعیف والد ،آپ سے جو کچھ کہہ رہا ہے ،نہایت خلوص سے آپ کی نصیحت کے لیے کہہ رہا ہے اور آپ کو سیدھی راہ دکھلا رہا ہے

فَاضْرِبْ بِسَیْفِکَ مَنْ اَرَادَ مَسَائَ ة
حَتیّٰ تَکُوْنَ لَہُ الْمَنِیَّةُ ذَائِق

دیکھو !جو شخص بھی نبی اکرم کو نقصان پہنچانا چاہے ،اُس پر اپنی تلوار لے کر ٹوٹ پڑو، تا کہ موت کا مزا خود اُسے چکھنا پڑے (حضور کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے )

ھٰذَا رَجَائِیْ فِیْکَ بَعْدَ مَنِیَّتِیْ
لا زِلْتُ فِیْکَ بِکُلِّ رُشْدٍ وَاثِق

میں دنیا سے جانے کے بعد بھی آپ سے اسی بات کا آرزومند ہوں اور میں نے ہمیشہ آپ سے اچھی امید رکھی ہے
فَاعْضِدْ قُوَاہُ یَا بُنَیَّ وَکُنْ لَہُ
اَنِّیْ یَجِدْکَ لاَ مَحَالَةَ لاَحِق

میرے نور ِنظر !نبی کریم ۖکے ایسے دست وبازو بن جائو کہ وہ جہاں کہیںبھی ہوں تمہیں اپنے قریب پائیں
اَھَااَرَدِّدُ حَسْرةً لِفِرَاقِہ
اِذْ لاَ اَرَاہُ وَ قَدْ تَطَاوَلَ بَاسِق

افسوس !میں اس حسرت کے ساتھ دنیا سے جا رہا ہوں کہ حضور ِاکرم ۖکا اقتدار اور ساری دنیا پر اُن کے پرچم کو لہراتے ہوئے نہ دیکھ سکا
اَتُریٰ اَرَاہُ وَالْلِوَائُ اَمَامَہُ
وَعَلِی ابْنِیْ لِلِّوَائِ مُعَانِق

لیکن میں چشم تصور سے یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ اُن کا پرچم (ہر طرف )بلند ہو رہا ہے اور میرے بیٹے علی اُن کے پرچم کو اٹھائے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں
اَتُرَاہُ یَشْفَعُ لِیْ وَ یَرْحَمُ عِبْرَتِیْ
ھَیْھَاتَ، اِنِّیْ لاَ مَحَالَةَ زَاھِق

لیکن کیا یہ (پیش بینی )مجھے (موت سے ) بچا سکتی ہے ؟میرے دکھوں کا مداوا کر سکتی ہے ؟ افسوس ! میں تو بس اب جانے والا ہوں (اور نبی ِاکرم ۖکی مخالفت پر تمام قریش کوکمر بستہ دیکھ رہا ہوں )
سیدنا عقیل بن ابی طالب
بُنَیَّ اَسَدٍ لاَ تُطْرِفَنَّ عَلی الْقَذِیْ
اِذَا لَمْ یَقُلْ بِالْحَقِّ مِقْوَلَ قَائِل
لعَمْرِیْ لَقَدْ کَلِفْتُ وَجْداً بِاَحْمَدٍ
وَاِخْوَتِہِ دَأبَ الْمُحِبِّ الْمُوَاصِلِ

اے شیر کے بچو !جس وقت لوگوں کی زبانیں حق کا ساتھ دینے کے لیے کھلنے پر آمادہ نہ ہوں تم لوگ اپنی آنکھیں بند نہ کرنا ۔
خدا کی قسم !مجھے احمد ِمجتبیٰ سے بے پناہ محبت ہے ۔ان کی اور ان کے تایازاد بھائیوں (طالب ،عقیل ،جعفر و علی ) کی الفت میرے دل میں رچی ہے ۔ نقیب ِ مصطفٰیۖ

آپ سیدہ فاطمہ بنت اسد کے دوسرے صاحبزادے تھے ۔٥٨٠ء میں متولد ہوئے۔فہم و فراست، حاضر جوابی، معلومات اور انساب ِعرب پہ کامل عبور کے باعث عرب میں انتہائی ممتاز تھے۔کَانَ عَقِیْلُ بَصِیْراً، فَاقِداً لِّلْبَصَرِ وَلِعَلِّ ھٰذَا عَطَّلِہُ عَنْ اُمُوْرِ الْحَیَاةِ وَعَنْ الْحُضُوْرِ فِیْ وَقَائِعِ کَثِیْرَةٍ سَیَاسِیَّةٍ وَجِہَادِیَّةٍ کَانَتْ تَقْتَضِیْ مِثْلُہْ۔ہجرت مدینہ کے موقع پر سرکاردوعالم نے آپ کو اموال ِبنی ہاشم کا نگران مقررکیا۔٨ھ میں مدینہ پہنچے ۔ جنگ ِمؤتہ میں شرکت فرمائی اور غازی ِاسلام کے اعزاز سے مشرف ہوئے ۔ سیدنا ابوطالب کے منظورِ نظر تھے، اَنَّہُ الْاَحَبَّ اِلیٰ قَلْبِ اَبِیْہ مِنْ دُوْنَ بَقِیَةُ اَوْلاَدِہْ، وہ اپنے والد کے دل میں دیگراولادسے زیادہ چاہت رکھتے تھے ،جس باعث حضور نبی کریم آپ سے والہانہ محبت کرتے اورفرماتے ، ”وَاللّٰہِ! اِنِّیْ اُحِبُّکَ حُبَّیْن، حُبّاً لِّقَرَابَتِکْ وَحُبّاً کَمَاکُنْتُ اَعْلَمُ مِنْ حُبِِّ عَمِّی اِیَّاکْ”،”خدا کی قسم ! عقیل میں آپ سے دوگنی محبت رکھتا ہوں ، ایک تو قرابتداری کی محبت اور دوسرا میرے تایا (ابو طالب ) کا آپ کو بہت زیادہ چاہنا میرے علم میں ہے۔ ”مخبرصادق نے سیدناعقیل ابن ِابی طالب سے متعلق اُن کے بھائی علی ابن ِابی طالب سے فرمایا،”وَاِنَّ وَلَدِہ لَمَقْتُوْل فِیْ مَحَبَّةِ وَلَدِکْ، فَتَدْمَعُ عَلَیْہِ عُیُوْنِ الْمُؤمِنِیْنَ وَتُصَلِّْ عَلَیْہِ الْمَلاَئِکَةِ الْمُقَرَّبِیْنَ”، ان کے بیٹے آ

پ کے فرزند کی محبت میں قتل کیے جائیں گے جن پر اہل ِایمان کہ آنکھیں گریہ اور مقرب فرشتے صلاة وسلام کانذرانہ پیش کریں گے۔یہ فرماتے ہی سرکار ِدوعالم کی مقدس آنکھوں سے آنسو بہہ کرسینہء اقدس پہ گرنے لگے اور آپ نے فرمایا،”اِلیَ اللّٰہِ اَشْکُوْا مَایَلْقیٰ عِتْرَتِْ مِنْ بَعْدِْ۔”

امیر المومنین کی خلافت کے ایام میں آپ ان کے سفیر رہے ۔ سیدنا عقیل (عقیل بمعنی صاحب ِعقل ،فہم وخرد)عرب کے ہر خانوادہ کا مکمل علم رکھتے تھے اور قبائل عرب کی نسبی کمزوریوں سے بخوبی واقف اور ان کے اعمال و افعال پر نکتہ چینی فرمایا کرتے تھے۔ اس لیے لوگ آپ کے دشمن رہے اور محسود بنائے رکھا۔ رئو سائے عرب اور شرفا آپ کے
مشورہ سے عقد کیا کرتے تھے۔ مولائے کائنات سیدنا علی بن ابی طالب نے آپ ہی کے مشورہ سے سیدہ اُمُّ الْبَنِےْنفاطمہ کِلاَبِےَةْ سے عقد فرمایا۔حیات ِ مبارکہ کے آخری ایام

میں بصارت ضعیف ہو گئی۔٥٢ ھ ، ٦٧٠ء میں٩٦برس کے سن ِدنیا میں انتقال فرمایااور جنت البقیع مدینہ منورہ میں آرام فرما ہیں ۔شاعر ِرسالت حسان بن ثابت م٥٤ھ فرماتے ہیں؛
فَمَا زَالَ فِیْ الْاِسْلاَمِ مِنْ آلِ ھاشِمْ، دَعَائِمُ عِزٍّ لاَ یَزُوْلَ وَمَفْخَرُ
ھُمُ جَبَلُ الْاِسْلاَمِ وَالْنَّاسُ حَوْلَہُ، رَضَام اِلیٰ طَوْدٍ یَرُوْقُ وَیَقْھَرُ
اَغَرُّ کَلَوْنِ الْبَدْرِ مِنْ آلِ ھاشِمْ، شُجَاع اِذَا سِیْمَ الْظُلاَمَةَ مِجْسَرُ
ھُمُ اَوْلِیَائُ اللّٰہَ اَنْزَلَ حُکْمَہُ، عَلَیْھِمْ وَفِیْھِمْ وَالْکِتَابُ الْمُطَھَّرُ
بَہَالِیْلُ مِنْھُمْ جَعْفَرْ وَابْنُ اُمُّہْ، عَلِیٍّ وَمِنْھُمْ اَحْمَدُ الْمُتَخَیِّرْ
وَحَمْزَةُ وَالْعَبَّاسُ مِنْھُمْ وَمِنْھُمْ، عَقِیْل وَمَائُ الْعَوْدِ مِنْ حَیْثُ یُعْصَرُ

لازوال عزوشرف اور فخرومباہات والے بنی ہاشم اسلام کاجزولاینفق ہیں۔وہ اسلام کے کوہ ِسربلند ہیں کہ جن کے گرد عالم بشریت ہدایت کی خیرات طلب کرتی ہے ۔بنی ہاشم کی دمک چمکتے
چاند سے بڑھ کرہے اور ان کی شجاعت کاکوئی نعم البدل نہیں ۔ان اللہ کے ولیوں میں خدائی احکام نازل ہوتے ہیں اور انہی پر اور انہی میں کتاب ِمطہر(قرآن ِمجید)نازل ہوئی ۔انہی میں تمام خوبیوں کے سردارجعفر طیار ہیں اور ان کے ماں جائے علی مرتضٰی اور انہی میں سرچشمۂ خیروبرکات احمد مختار ہیں ۔انہی میں حمزہ وعباس ہیں اور انہی میں ہردور کی مہک صائب الرائے عقیل ہیں۔

حضرت عقیل بن ابی طالب کے صاحبزادے اور پوتے سانحہ کربلا کے پہلے شہید ہیں۔ سیدنا مسلم بن عقیل ،سفیر حسین بن کر کوفہ تشریف لے گئے اور اپنے دوصاحبزادوں سیدنا محمد اور سیدنا ابراہیم کے ہمراہ کوفہ میں شہید ہوئے ۔اَرْسَلَ الْحُسَیْن عَلَیْہِ الْسَّلاَمْ مُسْلِمْ بِنْ عَقِیْل اِلَی الْکُوْفَةْ وَکَانَ مَثَلُ الْاَسَدْ، لَقَدْ کَانَ مِنْ قُوَّتِہ اَنَّہُ یَأخُذُ الْرَّجَلُ بِیَدِہ فَیَرْمیٰ بِہ فَوْقَ الْبَیْتِ، وَھُوَ سِیَّدِالْسُّعَدَائِ وَاَوَّلِ الْشُّھَدَائِ وَجَلاَلَتِہ لاَیَفِْ بِھَا قَلَم، وَلاَیُحِیْطُ بِھَا رَقَم،حسین علیہ السلام نے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا جو شیر کی مانند تھے اور ان کی قوت کا یہ عالم تھا کہ سورما کواٹھا کرمکان کی چھت پر اچھال دیتے تھے ،تمام سعادت مندوں کے سردار ،شہدا میں اول اور آپ کی شان ِجلالت ورائے قلم ومحیط ِرقم ہے ۔آپ کے دوصاحبزادے عاشورہ کے روز کربلا میں شہید ہوئے۔ سیدنا عقیل کے پانچ صاحبزادے حضرت مسلم بن عقیل ،حضرت محمد بن عقیل ،حضرت عیسیٰ بن عقیل ،حضرت حسن بن عقیل ،حضرت ابن عقیل اور ایک صاحبزادی سیدہ رملہ بنت عقیل تھیں۔آپ کے صاحبزادے محمد ابن عقیل سے بنی دائود کا قبیلہ ہے اور حضر موت یمن میں مقیم بجابر قبائل بھی آپ ہی کی نسل ہیں۔آپ کی اولاد میں جلیل القدر علمائے اسلام ،مشائخ ِدین ،فقہا اور ماہرین ِعلم الانساب ہوئے ۔آپ کی اولاد مصر ،یمن ، حلب، بیروت ،نصیبین ،مدینہ ،کوفہ ،حلہ ،طبرستان ، خراسان ،جرجا ن ، کرمان ،قم اور اصفہان میں آباد ہے۔

سیدنا جعفر بن ابی طالب
اِنَّ عَلِیّاًوَجَعْفَراًثِقَتِیْ
وَعِصْمَةِ فِیْ نَوَائِبِ الْکَرَبِ
اَرَاھُمَاعُرْضَةَاللِّقَائِ اِذَا
سَامَیْتُ اَوْاَنْتُمِی اِلٰی حَسَبِ
لَاتَخْذُلَاوَانْصُرَااِبْنَ عَمِّکُمَا
اَخِیٍّ لِاُّمِّیْ مِنْ بَِیِْنَھُِِمْ وَاَبِِیْ
وَاللّٰہِ لَااَخْذُلُ الْنَّبِِیَّ وَلاَ
یَخْذُلْہُ مِنْ بَنِیِ ذُوْالْحَسَب
حَتیّٰ تَرَوْنَ الْرَّؤسَ طَائِحَةً
مِنَّاوَمِنْکُمْ ھُنَاکَ بِالْقَضَبِ
نَحْنُ وَھٰذَاالْنَّبِیُّ اَسِرْتَہْ
نَضْرَبُ عَنْہُ الْاَعْدَائَ کَالْشَّھَبِ
اِنْ نَّلْتُمُوُہُ بِکُلِّ جَمْعِکُمْ
فَنَحْنُ فِیْ الْنَّاسِ اُمُّ الْعَرَبِ

زمانے کی چیرہ دستیاں بڑھ جائیں اور معاملات بہت سخت ہو جائیں تو مجھے علی و جعفر پر اعتماد ہے کہ یہ دونوں مسائل ِزندگانی میں میرے ممدومعاون ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب بھی میںیا آپ اپنی عظمتوں یا شرف خاندان کی نسبت کسی جگہ سے آواز دیں گے تو یہ دونوں آمادئہ پیکار نظر آئیں گے۔دیکھو میرے بیٹو!میرے حقیقی بھائی کے بیٹے جو تمہارے چچا زاد ہیں ،کسی وقت ان کا ساتھ نہ چھوڑنابلکہ مسلسل مددونصرت کرتے رہنا۔اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نہ تو میں نبی کریم ۖکو کسی حال میں چھوڑ سکتا ہوں اور نہ کوئی جلیل النسب ان کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے۔یہاں تک کہ ان کی حمایت ونصرت میں آپ ہمارے قطع وبلند کردہ سروں کو دیکھیں گے۔ ہم اور نبی اللہ مکرم خاندان کے چشم وچراغ ہیں ،یقیناہم ان کے اعدا کاشہاب ِثاقب کی طرح پیچھاکر کے ان سے دُور کریں گے۔فضائل ومناقب اور مکارم میں آپ انہیں فوقیت کاحامل پائیں گے اور یقیناہم اَعراب ِعالیہ کے سرخیل ہیں ۔ نقیب ِمصطفٰی

اسلام کے عظیم جرنیل ،سیدنا جعفر بن ابی طالب عام الفیل سے پچیس سال بعد ٥٩٥ء میں آغوش بنت ِاسد میں جلوہ افروز ہوئے ۔آپ سید المرسلین ۖسے پچیس برس صغیر السن اور سیدنا امیر المومنین سے دس برس کبیر السن تھے ۔صورت وسیرت میں سرکار دوعالم سے انتہائی مشابہ تھے جس باعث حضور فرمایا کرتے ،” اَنْتَ اَشْبَھْتَ خَلْقِیْ وَخُلْقِیْ ”، آپ صورت و سیرت میں مجھ سے انتہائی مشابہ ہیں ”۔ایک مقام پہ سرکار ِدوعالم ۖنے فرمایا ،”خَلَقَ الْنَّاسُ مِنْ اَشْجَارٍشَتّٰی وَخَلَقَتْ اَنَاوَجَعْفَرٍمِنْ طِیْنَةٍ وَاحِدَةْ ”،”تمام لوگ ایک نسب کی پیداوار ہیں اور میں اور جعفر ایک طینت سے ہیں ”۔آپ فرماتے ،”اَلْنَّاسُ مِنْ شَجَرٍشَتّٰی وَاَنَاوَجَعْفَرٍمِنْ شَجَرَةٍ وَاحِدَةٍ”۔ سیدنا جعفر کی کنیت ابو عبداللہ تھی اور رسول ِاکرم انہیں ابامساکین کہہ کر مخاطب ہوتے تھے ۔

ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا ،” خَیْرُ الْنَّاسِ حَمْزَةْ وَجَعْفَرْ وَعَلِیْ عَلَیْھِمُ الْسَّلام ”،”لوگوں میں سب سے بہترین حمزہ ، جعفر اور علی ہیں ”۔خیبر کے مقام پر آپ فتح ِخیبر کے دن حبشہ سے واپس تشریف لائے تو حضور نبی کریم ۖنے فرمایا،”مَااَدْرِیْ بِاَیِّھمَااَنَااَشَدُّفَرْحاً،بِقَدُوْم جَعْفَرْاَمْ بِفَتْح خَیْبَرْ” میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے مجھے کس کی خوشی زیادہ ہے ،آمد جعفر کی یا فتح خیبر کی ”۔حبیب ِکبریا نے سیدنا جعفر بن

ابی طالب کو گلے لگایا اور روشن پیشانی پہ بوسہ دے کر فرمایا ، ”یقیناجعفر اور ان کے رفقا نے دو ہجرتیں فرمائی ہیں ،ایک ہجرت حبشہ اور دوسری ہجرت مدینہ ” ہجرت ِحبشہ کے دوران اسلام کی خاطرحضرت فاطمہ بنت اسد نے سیدناجعفر طیار اور آپ کی زوجہ حضرت اسماء بنت ِ عمیس سے جدائی برداشت کی۔سیدنا جعفر طیار خاندانی فصاحت و بلاغت کے وارث تھے اور پرجوش خطابت کے باعث اپنا نقطہ نظر عوام الناس سے منوا لیا کرتے تھے ۔ اسی خصلت کے باعث شاہ ِحبشہ کے دربار میں کفارکے مطالبہ کے برعکس آپ نے اہل اسلام کا دفاع کیا اوراُن کے شر سے محفوظ فرمایا۔ آپ نے آٹھ ہجری میںجنگ مؤتہ (اردن )میں افواج ِنبوی کی قیادت کرتے جام شہادت نوش کیا ۔آپ کے دونوں بازو کٹ گئے تو آپ نے پرچم اسلام دندان مبارک کے سہارے بلند رکھا۔آپ اسلام کے واحد شہید ہیں جنہیں زبان رسالت نیطَیَّارْ کا لقب عطا کرتے فرمایا ،”رَأَیْتُ جَعْفَراًمَلَکاً یَّطِیْرُ فِیْ الْجَنَّةْ مَعَ الْمَلائِکَةْ بِجَنَاحِیْن”، ”میںجعفر کو جنت میں فرشتوں کے ہمراہ اپنے دو بازوئوں سے محو پرواز دیکھ رہا ہوں ”۔دیگر اولاد کی نسبت حضور سے سیدنا جعفر طیار کی حد درجہ مشابہت اور بے پناہ دانشمندی کے باعث سیدہ فاطمہ بنت اسد آپ سے خصوصی پیار فرماتی تھیں۔شاعر رسالت حسان بن ثابت کہتے ہیں؛

بَعْدَ اِبْنِ فَاطِمَةَ الْمُبَارِکِ جَعْفَرْ، خَیْرَ الْبَرِیَّةِ کُلِّھَا وَاَجَلِّھَا
رُزْئً وَاَکْرَمِھَا جَمِیْعاًمُحْتِداً، وَاَعَزِّھَا مُتَظَلِّماً وَاَذَلَّھَا
لِلْحَقِّ حِیْنَ یَنُوْبُ غَیْرَتَنَحُّلٍ،کَذِباً وَاَغْمَرِھَا یَداً وَاَقَلَّھَا
عَا لَخَیْرِ بَعْدَ مُحَمَّدٍ لا شِبْھُہُ، بَشَر یُعَدُّ مِنَ الْبَرِیَّةِ جُلِّھَا

آپ کلام مجید کے پہلے حافظ ہیں ۔سیدہ فاطمہ بنت ِاسد اور سیدنا ابو طالب کی عترت ِطاہرہ کے ہزاروں شہدا میں پہلے راہ ِحق کے پہلے شہید اور مکہ کی وادیوں سے باہر اسلام کے پہلے مبلغ ہیں۔ اس طرح آپ کئی اعزازاتِ ربانی میں اولیت کے حامل ہیں۔آپ کے بڑے صاحبزادے سیدنا عبداللہ بن جعفر طیار کا عقد، ثانی زہراسیدہ زینب ِکبریٰ سے ہوا اور چھوٹے صاحبزادے سیدنا محمد بن جعفر طیار ،سیدہ ام کلثوم زینب ِصغریٰ کے ہمسر تھے۔حضرت عبداللہ بن جعفر طیار کے دوصاحبزادے سیدنا عون اور سیدنا محمد سانحہ کربلا میں نصرت ِامام حسین میںشہید ہوئے؛

نَصَرْتُ الْرَّسُوْلَ رَسُوْلُ الْمَلِیْک
بِبَیْضٍ تَلألأکَلَمْعِ الْبُرُوْقْ
میں نے رسول اللہ کی،ہاں رسول ِخداکی مددبرق کی طرح چمکتی تلواروں سے کی ۔ نقیب ِمصطفٰیۖ
سیدنا اما م علی بن ابی طالب
اَمَّا عَلِیّ فَارْتَبَتْہُ اُمُّہُ
وَنَشَا عَلی مِقَةٍ لَہُ وَتَزَیَّدَا
شَرْفَ الْقِیَامَةَ وَالْمَعَادَ بِنَصْرِہِ
وَبِعَاجَلِ الْدُّنْیَا یَحُوْزُ الْسُّؤدَّدَا
اَکْرَمْ بِمْنْ یُفْضیٰ اِلَیْہِ بِاَمْرِہِ
نَفْساً اِذَا عَدَّا الْنُّفُوْسَ وَ مَحْتِدَا
وَخَلاَئقاً شَرَفَتْ بِمَجْدِ نِصَابہِ
یَکْفِیْکَ مِنْہُ الْیَوْمَ مَا تَرْجُوْ غَدَا

جہاں تک میرے بیٹے علی کا تعلق ہے تو اُن کی تربیت اُن کی ماں نے اِس انداز سے کی ہے کہ وہ رسول اللہ کی محبت کے ساتھ ہی پروان چڑھے ہیں اور اس محبت میںہر آن اضافہ ہی ہو رہا ہے نبی اکرم حضرت محمد کی مدد ونصرت کی وجہ سے اُنہیں دنیا میں بھی عظمت وجلال حاصل ہو گا اوربروز ِقیامت بھی وہ شرف ومنزلت کے مالک ہوں گے کتنا لائق ِتکریم ہے میرا بیٹا ،جس نے اپنی جان کو محمد ۖ کے سپرد کر رکھا ہے اور جب نفس وجان کا حساب کیا جائے تو علی ”نفس ِرسول ”ہیں وہ فضل وشرف میں انتہائی اعلیٰ درجہ پر فائز ہیں کہ جس بات کی کل کے لیے تمنا کی جائے وہ آج ہی عطا کرنے
والے ہیں ۔ نقیب ِمصطفٰی

جُمْعَةُ الْمُبَارکْ،١٣رجب المرجب ٣٠عام الفیل،بعثت نبوی سے بارہ سال قبل،١٧مارچ٥٩٩ء سیدہ فاطمہ بنت ِاسد حکم الٰہی سے اپنے گھر سے نکلیں اور خانہ کعبہ تشریف لائیں۔غلاف ِکعبہ پکڑ کر دعا مانگی ؛
رَبِّ اِنّْ مُؤمِنَة بِکْ وَ بِمَا جَائَ مِنْ عِنْدَ مِنْ رُسُلٍ وَ کُتُبٍ، اِنّیْ مُصَدِّقَة بِِکَلاَمِ جَدّّْ اِبْرَاھِیْم اَلْخَلِیْل وَ اِنَّہُ بُنِیَ اَلْبَیْتِ الْعَتِیْق ، فَبِحَقّ الَّذِْ بُنِیَ ھٰذَا الْبَیْت وَ بِحَقّ الْمَوْلُودُ الَّذِْ فِی بَطَنِْ لمَّا یَسَّرْتَ عَلَیَّ وِلاَدَتِْ”پروردگار !میں تجھ پر ،تیرے رسولوں پر اور تیرے صحیفوں پر ایمان رکھتی ہوں ،اپنے جد ابراہیم کے فرامین پر یقین رکھتی ہوں جنہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی،اس گھر کے معمار کے واسطے اور میرے آنے والے بچے کے واسطے جو مجھ سے گفتگو کرتا ہے اور میرا محافظ ،مدد گار و ہمدردہے،میں تجھ سے التجا کرتی ہوں کہ میرے لیے یہ وقت آسان فرما ۔ میرا یہ بچہ تیرے جلال و عظمت کی نشانی ہے۔” آپ کی ولادت کے وقت سیدہ فاطمہ بنت ِاسد طواف کعبہ میں مصروف تھیں۔قریب ِکعبہ پہنچیں تو تمام بُت منہ کے بل گر پڑے ۔فرمایا، ”یَاقُرَّةُالْعَیْنِ! سَجَدَتْ لَکَ الْاَصْنَامُ دَاخِلاً فَکَیْفَ شَأنَکَ خَارِجاً”،”نور ِنظر !آپ میان ِشکم ہیں تو بُت سجدہ ریز ہیں ،باہر آئیں گے تو نہ معلوم کیا رتبہ پائیں گے۔ ” رکن ِ یمانی کے سامنے پہنچیں تو دیوارِکعبہ ، رکن یمانی کے مقام سے شق ہو گئی ۔سیدہ فاطمہ بنت اسد اندر تشریف لے گئیںتو دیوار برابر ہو گئی؛
دیوار در بنے کہ زمانے میں دھوم ہو
ظاہر کمالِ مادرِ باب علوم ہو

آپ تین دن کَعْبَةُ اللّٰہْ میں قیام فرما رہیں اور حوران ِبہشت آپ کی خدمت پر ماموررہیں۔حضرت حوا، حضرت مریم ، حضرت آسیہ اورام موسیٰ تشریف لائیںاور خدمات سرانجام دیں۔فردوس بریں سے آپ کی خوراک بھیجی جاتی تھی۔مولائے کائنات تشریف لائے اور فوراََسجدہ میں تشریف لے گئے اور فرمایا،” اَشْھَدُواْ اَنْ لاّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُوْا اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَاَشْھَدُوْا اَنَّ عَلِیّاً وَّصُِّ مُحَمَّدٍ رّسُوْلُ اللّٰہِ لِمُحَمَّدٍ یَخْتِمُ اللّٰہُ الْنَّبُوَّةْ وَبِْ تَتِمُّ الْوَصِیَّةَ وَ اَنَا اَمِیْرُ الْمُؤ مِنِیْن ”حضور کے چچاحضرت عباس بن عبدالمطلب نے یہ معجزہ دیکھا ۔آپ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ خانہ کعبہ کے دروازے پر پہنچے اور اسے کھولنے کی کوشش کی کہ کچھ مستورات کو اندر بھیجا جا سکے مگر وہ اندر سے بند تھا ۔بسیار کوشش کے باوجود کھول نہ پائے ۔قدرت کا عمل دخل دیکھ کر کوششیں ترک کر دیں ۔اس واقعہ کی خبر چند لمحوں میں پورے مکہ میں پھیل گئی۔ سیدنا اما م علی ،بند آنکھوں سے سربسجود تشریف لائے۔اس موقع پر آسمان پہ وہ جگمگاہٹ تھی کہ مہرو مہ ونجوم بے نور نظر آتے تھے ۔نقیب ِمصطفٰی کو خبر ملی تو بے ساختہ فرمایا؛
ظَہَرَتْ دَلاَئِلَ نُوْرِہ فَتَزَلْزِلَتْ، مِنْھَا الْبَسِیْطَةَ وَأزْدَھِْ الْاَیَّامْ
وَھُوْتَ ظَہُوْرَ الْکُفْرِ عِنْدَ ظَہُوْرِہ، وَبِسَیْفِہ سَیُشَیِّدَ الْاِسْلاَمْ
وَاَتَاھُمْ اَمْرُعَظِیْمٍ فَادِحٍ ، وَتُسَاقَطَتْ مِنْ خَوْفِہِ الْاَصْنَامْ
صَلِّ عَلَیْہِ اللّٰہُ خَلاَّقُ الْوَریٰ، مَا اَعْقَبُ الْصُّبْحِ الْمَضِٔظَلاَمْ

اُن کے نور کے ظاہر ہونے سے گردش ِایام متزلزل ہے کہ جس نور کے ظاہر ہونے سے کفرمبہوت ہوگیا اور جن کی تلوار کی شدت سے اقدار ِاسلام سربلند ہوں گی ۔اُن کے آنے سے خوف سے بت لرزہ براندام ودم بخودہیں ۔خلاق ِعالم اللہ تعالیٰ اُن پر صلوٰة وسلام بھیجتا ہے کہ جواندھیروں کو روشنیوں میں بدل دیں گے ۔سیدہ فاطمہ بنت ِاسد تین دن خانہ کعبہ میں قیام فرما رہیںاور چوتھے دن رکن یمانی کے مقام سے دیوار پھر شق ہوئی اور مخدومہ طاہر ہ مولود ِکعبہ بانہوں میں لییکَعْبَةُاللّٰہْ سے باہر تشریف لائیں۔رسول اللہ نومولود کے استقبال کو کھڑے تھے ۔مولائے کائنات نے آنکھیں کھولیں اور عالم فانی میں جس وجہ ِباقی کی اولیں زیارت فرمائی وہ اللہ کے رسول، محمد مصطفٰی کا مسکراتا چہرہ تھا۔تاریخ میں یہ اعزاز صرف نہال ِنقیب ِمصطفٰی کا ہے اور کوئی رسول،نبی یا ولی اس سے شرفیاب نہیں ہوا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور تمام مئو رخین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خانہ کعبہ امیر المومنین امام علی کی جائے پیدائش ہے ۔ خانوادئہ ابو طالب کو تبریک وتہنیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔جب بھی کوئی خانہ ابو طالب میں مبارکباد کو حاضر ہوتا تو دامن ِرسالت سے نومولود فرزند ِابو طالب کو چمٹا دیکھتا ۔خانہ کعبہ سے دہلیز ابوطالب کا سفر سلطان ِولایت نے دست ِرسالت پہ کیا ۔سیدہ فاطمہ بنت اسد نے فرمایا؛

”جب میں خانہ کعبہ میں تھی توہاتف ِغیبی کی مسلسل صدا آتی رہی،ان کا نام علی رکھناکیونکہ یہ بلند ہیں اور میں بلند تر ہوں۔میں نے انہیں اپنا نام عطا کیا ہے اور ان میںاپنے علوم کے راز ودیعت کیے ہیںاور اپنا امر تفویض کیا ہے ۔یہ میرے گھر کو بتوں کی غلاظت سے پاک کریں گے اور انہیں توڑ توڑ کر منہ کے بل نیچے پھینکیں گے۔یہ میری عظمت و بزرگی اور توحید بیان فرمائیں گے ۔میرے حبیب ، میرے نبی اور مخلوق میں چنے ہوئے میرے رسول، محمد کے بعد امام اور ان کے وصی ہوں گے ۔یہ صرف میری عبادت کریںگے اور لوگوں کو میری عبادت کے لیے بلائیں گے۔جو ان سے محبت کریںگے اور ان کا اتباع کریں گے خوش نصیب ہوں گے اور جو ان سے دشمنی کریں گے بدنصیب ہوں گے۔”علی ایک پرجوش اور حوصلہ مند نام ہے جو جاہ و تمکنت اور رفعت و سربلندی کا مظہر ہے ۔آپ سے پہلے کوئی اس نام سے موسوم نہیں ہو اتھا اور نہ آپ سے پہلے اور بعد کوئی ماں خانہ کعبہ میں اولاد پیدا کر سکی ۔آپ کی پیدائش کے بعد سیدہ فاطمہ بنت ِاسد نے آپ کواپنے والد کی یاد میں اسدکے نام سے پکارامگر سیدناابوطالب کوہ ِابوقبیس پہ

جاکربارگاہ ِرب العزت میں عرض گذار ہوئے ؛
یَا رَبِّ یَا ذَالْغَسَقَ الْدَّجِیْ، وَالْقَمَرِ الْمُبْتَلّجْ الْمَضِیْْ
بَیِّنْ لَّنَا مِنْ حُکْمِکَ الْمَقْضِیْ، مَاذَا تَرَیٰ لِیْ فِیْ اِسْمِ ھٰذَاالْصَّبِیْ

اے شب ِتیرہ ومہ انورکے خالق ومالک میرے پروردگار!! ہمارے لیے اپنے احکام واضح فرماکہ اس بچے کوکس نام سے موسوم کیا جائے
عرش ِعلیٰ سے زبرجد کی سبزرنگ کی تختی پر آب ِزر سے کندہ حکم غیبی نازل ہوا ؛
خَصَّصْتُمَابالْوَلَدِالْزَّکِْ، وَالْطَّاھِرُالْمُنْتَجَبُ الْرَّضِْ
فَاسْمُہُ مِنْ شَامِخَ عَلِْ،عَلِیّ اَشْتَقَّ اِسْمُہُ مِنَ الْعَلِْ
یا اَھْلَ بَیْتِ الْمُصْطفٰی الْنَّبِیْ ، خَصَّصْتُمْ بِالْوَلَدِ الْذَّکِْ

آپ دونوں کو ایک پاک وپاکیزہ ،منتخب وپسندیدہ بچہ دیا گیا ہے ،جن کا نام بلند وبالا اور اسم الٰہی سے مشتق علی ہے،اہل ِبیت ِمصطفٰی !آپ کوپاک وپاکیزہ نومولود مبارک
نقیب ِمصطفٰی نے شدت ِاشتیاق سے وہ تختی سینے سے لگا لی ،بارگاہ ِرب العزت میں سجدئہ شکر ادا کیااور فرمایا؛
سَمَّیْتُہُ بِِعَلٍِ کَیْ ےَّقَدُوْمُ لَہُ
مِنَ الْعُلُوِّ وَ فَخْرَالْعِزِّ اَدْوَمَہُ
میں نے ان کا نام علی رکھا ہے تا کہ دائمی طور سے علو و بلندی اور فخر و شرف ان کے شامل ِحال رہے

آپ نے غیب سے نازل ہونے والی لوح ِمقدس خانہ کعبہ میں آویزاں فرما دی ۔طویل عرصہ جلوہ افروز رہنے کے بعد ہِشام بن عبدالملک مروانی نے اپنے عہد ِسلطنت میں اسے اتار کر غائب کردیا۔سیدنا ابوطالب مکہ معظمہ کے گلی کوچوں اوربازاروں میں عامة الناس کو بتلاتے تھے ، اَیُّھَاالْنَّاسِ! تَمَّتْ حُجَّةُ اللّٰہْ، وُلِدَ الْلَّیْلَةِ فِیْ الْکَعْبَةْ حُجَّةِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَوَلِِّ اللّٰہْ، فَبُقِیَ الْنَّاسَ یَسْألُوْنَہُ عَنْ عِلَّةَ مَا یَرَوْنَ مِنْ اَشْرَاقِ الْسَّمَائِ، فَقَالَ لَھُمْ: أبْشِرُوْا فَقَدْ وَلَدِ الْلَّیْلَةَ وَلِّ مِّنْ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ یُخْتِمُ بِیْ جَمِیْعَ الْخَیْر، یُکَمِّلُ اللّٰہُ فِیْہِ خِصَالَ الْخَیْر، وَیَخْتِمُ بِہ الْوَصِیِّیْنَ، وَھُوَ اِمَامُ الْمُتَّقِیْنَ، وَنَاصِرِ الْدِّیْن، وَقَامِعُ الْمُشْرِکِیْنَ، وَغَیْظَ الْمُنَافِقِیْنَ، وَزَیْنِ الْعَابِدِیْنَ، وَوَصِِّ رَسُوْلِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اِمَامِ ھُدیٰ، وَنَجْمٍ عُلیٰ، وَمِصْبَاحِ دُجیٰ، یُذْھَبُ بِہ جَمِیْْعُ الْشَّرْ، وَیَتَجَنَّبَ الْشِّرْکَ وَالْشُّبْھَاتِ، وَھُوَنَفْسُ الْیَقِیْنِ وَرَأسَ الْدِّیْن، وَلَمْ یَزَلْ ھٰذِہِ الْاَلْفَاظِ حَتّیٰ اَصْبَحَ فَدَخَلَ الْکَعْبَةْ،

لوگو!اللہ کی واضح نشانی آن پہنچی ۔رات کعبہ میں اللہ تعالیٰ کی حجت ِکاملہ وولی کی ولادت ہوئی ہے ۔ لوگ گروہ در گروہ آسمان سے نازل ہونے والے انوار وتجلیات سے متعلق استفسار کرتے تو آپ فرماتے ،مبارک ہو!کہ رات پیدا ہونے والااللہ عزوجل کے اولیاء میں سے ہے کہ جس پر تمام بھلائیاں مجتمع ہیں ۔جس کے ذریعے اللہ نے تمام خصائل ِحسنہ وکمالات کو اتمام دیاہے ،جو نگین ِوخاتم ِاوصیاء ہیں،جومتقیوں کے امام ،دین کے مددگار،مشرکوں کاقلع قمع کرنے والے،منافقین پرقہر خدا،عبادت گذاروں کی زینت،رسول ِرب العالمین کے وصی ،ہدایتوں کے امام ،کوکب ِطالع،اندھیروں کی روشنی کہ جس کے ذریعے تمام قباحتوں کو دور کیا جائے گا، شرک وشبہات نیست و نابود ہوجائیں گے اور وہ یقین ِکامل رکھنے والے دین کے سردار ہیں۔تمام رات یہی فرماتے آپ علی الصبح کعبہ میں داخل ہوئے ۔خانہ کعبہ میں آمد کا ذکر فرماتے مولائے کائنات نے حضرت صعصعہ بن صوحان سے فرمایا،”مریم خانہ خدا میں تھیں ،ولادت ِعیسیٰ کے وقت انہیں کہا گیا کہ یہ زچہ خانہ نہیں یہاں سے دور چلی جائیں۔ میری آمد کے وقت میری والدہ اپنے گھر میں تھیں ،انہیں حکم دیا گیاکہ خانہ کعبہ تشریف لائیں”؛
شُد اُو دُرْ و بیت الحرامش صدف
کسے را میسر نہ شُد ایں شرف

آپ کے القاب میں فخرِمریم، محسنہء اسلام، طیبہ، طاہرة، سیدةالنسائ، ہاشمیہ، مرضیہ، تقیہ، نقیہ، کریمہ، رضیہ، کافلہ (کفالت فرمانے والی) معروف ہیں۔

حدیث جابر بن عبداللہ انصاری وانس بن مالک
انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا؛” کُنْتُ اَنَا وَعَلٍِّ عَنْ یَمِیْنِ الْعَرْشِ نُسَبِّحُ اللّٰہُ قَبْلَ اَنْ یَّخْلَقَ آدَمَ بِاَلْفَیْ عَامٍ، فَلَمّاخَلَقَ آدَمَ جَعَلْنا فِیْ صُلْبِہ ثُمَّ نَقَلْنَا مِنْ صُلْبِ اِلیٰ صُلْبٍ فِیْ اَصْلاَبِ الْطَّاہِرِیْنَ وَاَرْحَامِ الْمُطَہَّرَاتٍ حَتیّٰ اِنْتَھَیْنَا اِلیٰ صُلْبِ عَبْدالْمُطَّلِبْ، فَقَسَمْنَا قِسْمَیْنِ فَجَعَلَ فِیْ عَبْدِاللّٰہِ نِصْفاً، وَفِیْ اَبِْ طَالِبِ نِصْفاً، وَجَعَلَ الْنُّبُوَّةِ وَالْرِّسَالَةَ فِْ، وجَعَلَ الْوَصِیَّةِ وَالْقَضِیَّةِ فِْ عَلٍِّ، ثُمَّ اخْتَارَ لَنَا اِسْمَیْنِ اشْتَقْھُمَا مِنْ اَسْمَائِہِ، فَاللّٰہُ مَحْمُوْد وَاَنَا مُحَمَّدْ، وَاللّٰہُ الْعَلُِّ وَھٰذَا عَلِّ، فَاَنَا لِلْنُّبُوَّةِ وَالْرِّسَالَةِ، وَعَلِّ لِلْوَصِیَّةِ وَالْقَضِیَّةْ ”تخلیق ِ

آدم کے ہزاروں سال پیشترمیں اور علی عرش کے دائیں جانب اللہ رب العزت کی تقدیس وتحمیدکرتے تھے ۔آدم کوخلق کرکے ہمیں ان کے صلب میں رکھااور پھر ہمیں پاک اصلاب وپاکیزہ ارحام میں منتقل کیا یہاں تک کہ ہم صلب عبدالمطلب میں پہنچے جہاں سے ہمیں دوحصوں میں تقسیم کرکے نصف عبداللہ اور نصف ابوطالب میں رکھا گیا ۔مجھ میں نبوت ورسالت اور علی میںوصایت وقضایت رکھی گئی ۔ پھراپنے ناموں میں سے ہمارے لیے دو نام منتخب کیے پس اللہ محمود ہے اور میں محمد ہوں اور اللہ العلی ہے اور یہ علی ہیں ۔میں مبعوث بہ نبوت ورسالت ہوں اور یہ وصایت و قضایت کی خاطر ہیں۔ صحابی رسول ۖ حضرت جابر بن عبداللہ انصاریفرماتے ہیںکہ آپ ۖنے فرمایا؛” اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اور علی کو اپنی ساری مخلوق کی خلقت سے پانچ لاکھ سال پہلے خلق فرمایا۔ہم اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے رہے ۔جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو خلق فرمایا توہمیں ان کی صلب میں ودیعت فرمایا۔میں دائیں جانب تھا اور علی بائیں جانب تھے ۔ پھر ہمیں ان کی صلب سے پاک و پاکیزہ اصلاب میںمنتقل فرمایااور پھر ان اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام میں منتقل فرمایا۔پھر اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عبداللہ بن عبدالمطلب کی پاک و پاکیزہ صلب تک پہنچایا اور وہاں سے سب سے عظیم رحم حضرت آمنہ میں منتقل فرمایا۔اللہ رب العزت نے علی کوپاک و پاکیزہ صلب ِابو طالب میں منتقل فرمایا جہاں سے آپ پاک و پاکیزہ عظیم رحم حضرت فاطمہ بنت اسد میں منتقل ہوئے۔ ”
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

سیدنا ابو طالب کے صلب ِانور سے نورِ حیدر ،رحم بنت ِاسد میں منتقل ہوا تو زمین پہ لرزہ طاری ہو گیا۔ابوتراب کی آمد سے زمین کئی دن تک لرزہ براندام رہی۔قریش خوفزدہ ہو گئے اور سیدنا ابو طالب سے درخواست کی کہ کوہ ِابو قبیس پہ جا کر دعا فرمائیں کہ ان پر آنے والی مشکل حل ہو جائے ۔قریش دامن ِابو قبیس میں اکٹھے ہوئے تو وہ اور بھی شدت سے لرزنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرنے لگے۔اس زلزلہ سے خانہ کعبہ میں پڑے بت منہ کے بل ٹوٹ کر گرنے لگے ۔حضرت ابو طالب نے قریش سے فرمایا،” اے لوگو!اللہ تبارک و تعالیٰ نے آج رات ایک نئی مخلوق کو خلق کیا ہے ۔جب تک تم اس کی اطاعت نہ کرو گے اور اس کی ولایت کا اقرار نہ کرو گے اور اس کی امامت کی گواہی نہیں دو گے تو اس وقت تک نہ سکون حاصل ہو گا اور نہ ہی تہامہ تمہارا مسکن بن سکے گا۔”سب نے کہا ہم آپ کی بات کو قبول کرتے ہیں۔حضرت ابو طالب کوہ ابو قبیس کی چوٹی پر تشریف لے گئے اور دست ِدعا بلند فرمائے اور دعا کی ؛

اِلٰھِْ وَسَیَّدِْ اَسْألُکَ بِالْمُحَمَّدِیَّةِ الْمَحْمُوْدَةْ وَبِالْعَلَوِیَّةِ الْعَالِیَةْ وَبِالْفَاطمِیَّةِ الْبَیْضَاء اَلاَ تَفَضَّلَتْ عَلیٰ تِہَامَةِ بِالرَّأفَةِ وَالْرَّحْمَةْ
عرب ان کلمات کے ذریعے شدائد میں استمداد کرتے تھے ۔نقیب ِمصطفٰی کی انگشتری پہ کندہ تھا رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَباً وَبِاِبْنِ اَخِیِّ مُحَمَّدٍ نَبِیّاً وَبِاِبْنِیْ عَلِْ وَصِیّاً
ولادت ِعلی اور حج بیت اللہ

مولائے کائنات کی آمد خانہ کعبہ کے عین وسط میں ہوئی۔ جب رسول اللہ نے آپ کو دیکھا تو آپ نے انگڑائی لی ۔سرور ِکائنات کے چہرئہ اقدس پر مسکراہٹ پھیل گئی۔فخر عیسیٰ نے فرمایا،” اے اللہ کے رسولۖ!آپ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت ہو۔” پھر فرمایا؛بِسْمِِ اللّٰہِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْم ہ قَدْ اْفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ ہ اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلَا تِھِمْ خَاشِعُوْنَ ہ بے شک مومنین کامیاب ہوئے جو نمازوں میں خشوع و خضوع کرتے ہیں ۔رسول اللہ نے فرمایا ،”جو کوئی آپ کے ساتھ ہو گا وہ بھی فلاح پا گیا۔پھر آپ نے تمام آیات کی تلاوت فرمائی۔جب آپ نے فرمایا، أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْوٰارِثُوْنَ ہ اَلَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَط ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ ہ رسول اللہ نے فرمایا ،”خدا کی قسم! آپ ان مؤمنوں کے امیر ہیں، انہیں اپنے علوم سے امیر کر دیں گے ، وہ بھی امارت حاصل کریں گے اور آپ بخدا ان کے لیے دلیل و رہنما ہیں،وہ آپ سے رہنمائی حاصل کریں گے۔” پھر رسول اللہ نے جناب فاطمہ سے کہا ،ان کے تایاکے پاس جائیں اور انہیں ان کی ولادت کی خوشخبری دیں۔مخدومہ نے عرض کی ،”اگر میں چلی گئی تو انہیں کون سیراب کرے گا؟” رسول اللہ ۖنے فرمایا،”میں انہیںسیراب کروں گا۔ ”سیدہ فاطمہ نے کہا ،” آپ انہیں سیراب کریں گے ؟”فرمایا،” ہاں”؛

رسول اللہ ۖنے اپنی زبان مبارک آپ کے دہن ِاقدس میں ڈال دی جس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ۔ اس دن کو ” یَوْمُ الْتَّرْوِیَةْ ”کا نام دیا گیا ہے ۔ دوسرے دن صبح رسول اللہ تشریف لائے تو مولائے کائنات آپ کو دیکھ کر مسکرائے۔رسول اللہ ۖنے آپ کو اٹھا لیا تو سیدہ فاطمہ نے فرمایا ،رب کعبہ کی قسم !علی نے انہیں پہچان لیا۔وہ دن ”یَوْمُ الْعَرْفَةْ” کہلایا۔تیسرے دن رئیس ِبطحانے عرب کی دعوت ِعام فرمائی اور تین سو اونٹ، ایک ہزار گائے ،بکریاں ذبح کروا کر بہت بڑی ضیافت کا اہتمام کیااور اعلان ِعام فرمایا کہ بیت اللہ شریف کے سات چکر لگا کر طواف مکمل کریں اور آکر میرے صاحبزادے علی کو سلام کریں کہ اللہ نے انہیں شرف ِعظیم عطا فرمایا ہے ۔اس دن کو” یَوْمُ الْنَّحَرْ” یعنی قربانی کا دن قرار دیا گیا۔ اللہ رب العز ت نے ان مقدس ایام کی یاد زندہ رکھتے ہوئے ایام ِحج کو انہی سے موسوم فرمایا اور مولائے کائنات کی جائے ولادت کی زیارت کو زندگی میں واجب قرار دیتے ہوئے ان تین ایام کی سنت زندہ رکھنے کا حکم دیا۔

بیت اللہ اور مقام فاطمہ بنت اسد
عربی زبان میں بیت اس مکان کو کہتے ہیں جس میں مکین اقامت پذیر ہوں۔مکینوں سے خالی عمارت دار کہلاتی ہے ۔سیدہ فاطمہ بنت اسد کے خانہ کعبہ میں قیام فرمانے سے قبل اسے کَعْبَةُاللّٰہْ کہا جاتا تھا ۔آپ کے مختصر قیام اور ولادت امیر المومنین کے باعث خانہ کعبہ کو بیت اللہ قرار دیا گیا؛
وَلَدَتْہُ فِیْ الْحَرَمِ الْمُعَظَّمِ اُمُّہْ
طَابَتْ وَطَابَ وَلِیْدُھَاوَالْمُوْلَدْ
سیدتنا ام ہانی فاطمہ بنت ِابی طالب

سرکارِ دوعالم ،ۖ شب ِمعراج خانہ کعبہ سے آپ کے گھر تشریف لائے اور وہاں سے مسجد اقصٰی کو تشریف لے گئے ۔معراج سے واپسی پر بھی آپ ہی کے ہاں جلوہ فرما ہوئے اور اس عظیم الشان سفر کی روداد سے آگاہ کیا۔ سدرة المنتہیٰ کی معراج ِمصطفٰی کی ابتداوانتہا اورعالم ِاسلام میں سب سے پہلے آپ کا اس سفر سے روشناس ہوناسیدتنا ام ہانی کے فضائل ومناقب کا درخشاں باب ہے ۔آپ علوم ِالٰہی کی خزینہ دار اور تاریخ وآثار ِقدیمہ میں دلچسپی رکھتی تھیں ۔صحاح اَلْسِّتَّةْ میں آپ سے چھیالیس احادیث ِنبوی مروی ہیں ۔اکابرمحدثین وراویان ِحدیث نے آپ سے روایت کی ہے ۔تفسیر قرآن بھی فرماتی تھیں ۔آپ انتہائی شجاع و بہادر تھیں کہ ایک دفعہ شیر خدا ،حیدرِ کرّار کی یداللّٰہِیْ کلائی اس زور سے پکڑی کہ انہیںمحسوس ہوا کہ آپ کی انگلیاں بدن کے اندر پیوست ہو گئی ہیں۔ آپ ، بنت ِ اسد کی شجاعت کی وراثت میں شیر خدا کی حصہ دار تھیں۔سابقون الاولون کی حبشہ کو ہجرت کے قریش کے سفارتی وفد کا سن کر نقیب مصطفٰی بذات ِخود عازم حبشہ ہوئے ۔آپ کے اچانک فیصلے کاسن کرسیدتناام ہانی فاطمہ جُمَّانَةْ (انمول موتی )نے استفسار کیاتو فرمایا؛

تَقُوْلُ اِبْنَتِیْ: اَیْنَ اَیْنَ الْرَّحِیْلُ؟
وَمَا الْبَیْنُ مِنِّیْ بِمُسْتَنْکَرِ
فَقُلْتُ: دَعِیْنِیْ، فَاِنِّیْ امْرو
اُرِیْدُ الْنَّجَاشِیَّ فِیْ جَعْفَرِ
لأکْوِیَہُ عِنْدَہُ کَیَّةً
اُقِیْمُ بِھَا نَخْوَةَ الْاَصْعَرِ
وَاِنِ انْثِنَائیَ عَنْ ھَاشِمٍ
بِمَا اسْطَعْتُ فِیْ الْغَیْبِ وَالْمَحْضَرِ
وَعَنْ عَائِبِ الْلاَتِ فِیْ قَوْلِہ:
وَلَوْلاَرِضَا الْلاَتِ لَمْ تُمْطَرِ
وَاِنِّیْ لَأشْنَا قُرَیْشاً لَہُ
وَاِنْ کَانَ کَالْذَّھْبِ الْاَحْمَرِ

میری بیٹی (مجھے آمادئہ سفر دیکھ کر )پوچھتی ہے کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟جبکہ سفر میرے لیے انہونی بات نہیں ہے ۔تو میں نے نور ِچشم سے کہا کہ مجھے جانے دو ،میں جعفر (کی حمایت و نصرت ) کے لیے نجاشی کے پاس جانا چاہتا ہوں تا کہ میں وہاں پہنچ کر عمروْکی مکاریوں کاجواب دے سکوں اور اس کے غرورونخوت کا سر کچل سکوں (اور اسے بتا دوں کہ)میرا تعلق جناب ہاشم (جیسے باعظمت انسان )سے ہے اور غیب وشہود میں حتی الامکان اس نسبت کا لحاظ رکھتا ہوں اور جو لوگ لات کے حوالہ سے یہ کہتے ہیں کہ اگر لات خوش نہ ہوتو ہمارے ہاںبارش بھی نہیں ہوتی (اُن کو بھی یہ بتا دوں کہ )میں قریش کی اس بات سے نفرت کرتا ہوں ،اگرچہ وہ اُن کے نزدیک سرخ سونے جیسی قیمتی چیز ہی کیوں نہ ہو۔
سفیر حسین ،حضرت مسلم بن عقیل کو آپ ہی نے پالا اور تربیت فرمائی۔فتح ِمکہ کے موقع پر آپ کے گھر کو دارالامان ،جائے پناہ قراردیاگیا۔ ٦٦١ء میں انتقال فرمایا۔

وصایت ومشایعت
دنیائے فانی پہ جاوداں نقوش ِحیات ثبت فرما کربہتر سال کی حیات مبارکہ کے بعد بارگاہ ِرب العزت میں حاضری سے پہلے آپ نے سیدالمرسلین کو اپنا وصی بنایا۔سرکارِ ِدوعالم نے آپ کی وصایت قبول فرما ئی ۔٦٢٦ئ،٤ھ کے اواخر میں آپ کے وصال ِپرملال کی اندوہناک خبر سیدنا علی مرتضٰی نے آنحضرت ۖکے گوش گزار فرمائی کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ۔ آنحضرت ۖنے فرمایا ، ”اے علی !آپ کی ماں کا نہیں بلکہ میری ماں کا ”،”یا علی !وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھتی تھیں اور مجھے سیر کرتی تھیں ۔اپنے لڑکوں کے بالوں کو پراگندہ وگردآلود رہنے دیتی تھیں اور میرے سر میں تیل لگا کر کنگھی کرتی تھیں ۔واللہ!ان کے مکان میں خرمے کا درخت تھا ۔صبح سویرے اُٹھ کر آپ وہاں جاتیں اور ساری کھجوریں چن لیتیں ۔پھر جب اُن کے بچے باہر چلے جاتے تو مجھے تنہا وہ خرمے کھلاتیں ”۔ شیر خدا بھی زار زار روتے تھے تو رسول اللہ بھی وا اُمَّاہ وااُمَّاہ کی صدادیتے گریہ کناںتھے ۔اس موقع پر سیدالمرسلین ۖانتہائی غمگین ہوئے ۔انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ جب حضور کو سیدہ فاطمہ بنت اسد کی وفات کی خبر ملی تو آپ فوراََان کے گھر گئے ۔ آپ کے سامنے بیٹھے اور دعا فرمائی ۔اپنا عمامہ اور پیراہن آپ کے کفن کو دیا اور فرمایا کہ میں آپ کو خلہ ِبہشت پیش کر رہا ہوں۔ جنت البقیع میں قبر تیار کی گئی تو حضور نے اس کا معائنہ فرمایا ۔آپ چند خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کے مُرَقَّدْ کا حضور نے معائنہ فرمایا ۔اس میں لیٹ گئے اور فرمایا؛

اَللّٰہُ الَّذِیْ یُحِْ وَ یُمِیْت وَ ھُوَ حَّ لاَ یَمُوْتُ اِغْفِرْ اُمِّْ فَاطِمَةُ بِنْتِ اَسَدٍ وَ وُسِعَ عَلَیْھَا مُدْخَلَھَا بِحَقِّ نَبِیِّکَ وَالْاَنْبِیَائُ قَبْلِْ فَاِنَّکَ اَرْحَمُ الْرّٰحِمِیْن اے اللہ! موت وحیات کے خالق اور وہ جاوداں جسے کبھی فنا نہیں ،میری ماں فاطمہ بنت ِاسد کی مغفرت فرما اوران کے لیے قبرکشادہ فرما اپنے نبی (محمد مصطفٰی ۖ)کے صدقہ میں اورمجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کے صدقہ میں ،بے شک تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے
پھر اپنے دست ِمبارک سے آپ کو سپرد لحد فرمایا۔آپ کی قبر اطہر کھودنے کی سعادت میزبان ِرسول ۖ،صاحب ِ رَأیَةُ الاِْیْمَانْ ،سیدنا ابو ایوب خالد بن زید انصاری اور حضرت اسامہ بن زید نے حاصل کی ۔سرکار دوعالم ۖنے اپنے دست ِاقدس سے مٹی ہٹائی اور لحد تیار فرمائی ۔

مادرِ امیر المومنین کا جنازہ حضور ۖنے اپنے دست رسالت سے اٹھایا اور تاقبر لانے تک جنازہ کے نیچے برہنہ پارہے ۔غم واندوہ کا یہ عالم تھا کہ آپ ایک قدم اٹھاتے تو دوسرا اٹھانے میں بہت تاخیر فرماتے تھے ۔عرب کا دستور تھا جو شمالی افریقہ کے ممالک میں اب تک رائج ہے کہ میت کا وارث جنازہ کو کندھا دینے کے بجائے سامنے کے دو کندھا دینے والوں کے درمیان جنازہ کے نیچے رہتا ہے ۔سرورِ کونینۖ نے آپ کا جنازہ ستر تکبیر کے ساتھ ادا کیا۔اصحاب کے دریافت کرنے پر فرمایاکہ ان پر فرشتوں کی ستر صفوں نے نماز جنازہ ادا کی پس میں نے ہر صف کے لیے ایک تکبیر کہی۔مشایعت ِجنازہ کے دوران میں آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا کیونکہ ملائک کا ہجوم تھا جس میں راہ ملنا دشوار تھا ۔

حضور ۖنے آپ کا جنازہ قبر کے قریب رکھا۔قبر میں اترے اور لیٹ کر آخری بار آپ کی آغوش ِرأفت کو محسوس کرتے قبر مبارک کے اطراف ہاتھ پھیرا اور زارو قطار روتے باہر تشریف لائے ۔اپنے دست ِاقدس سے جسد مبارک اٹھایا اور قبر میں لٹا دیا۔پھر اپنا چہرہ مبارک آپ کے قریب کر کے تادیر سرگوشیاں فرماتے رہے اور کہا، ”آپ کے فرزند!!آپ کے فرزند!!”۔ پھر قبر سے باہر تشریف لائے اور مکمل قبر تیار فرمائی ۔قبر پر جھکے، لوگوں نے فرماتے سنا ،” اَشْھَدُواْ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہْ ، پروردگار! میں انہیں آپ کے سپرد کرتا ہوں”۔قبر مبارک تیار ہونے کے بعد آپ زار زار روتے اور قبر پہ لوٹتے تھے۔صحابہ کبار نے عرض کی،”یارسول اللہ !آج ہم نے آپ ۖ کا وہ مشاہدہ کیا جو اس سے قبل آپ نے کہیں نہیں فرمایا تھا ”۔رسول اللہ ۖنے فرمایا ؛

”آج میں نے یادگار ِابو طالب کو کھو دیا ہے۔یقینا وہ میرے ساتھ اس درجہ شفیق تھیں کہ جب کوئی عمدہ شے پاتیں تو بجائے خود استعمال کرنے یا اپنے بیٹوں کو دینے کے مجھے دیتی تھیں”۔”آپ ابو طالب کے بعد رُوئے زمین پر اللہ کی بہترین مخلوق تھیں”۔”خدا نے آپ کو فردوس ِعلیٰ عطا فرمائی ہے اور ستر ہزار ملائک آپ پر درود و سلام پڑھنے کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔میں قبر سے باہر نہیں نکلا جب تک کہ میں نے یہ نہ دیکھا کہ نور کے دوچراغ اُن کے سر کے پا س اور دو چراغ ہاتھوں کے پاس اور دو چراغ پائوں کے پاس روشن ہیں اور اُن فرشتوں کو دیکھا جو قبر میں مقرر ہیں کہ فاطمہ کے لیے استغفار کر رہے ہیں اور قیامت تک اسی طرح مشغول رہیں گے۔ قَبْرُھَا مِنْ رَیَاضِ الْجَنَّةْ ،اُن کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ”۔حضور فرمایا کرتے تھے ؛

”خدا آپ کی مقدس روح پہ برکت نازل فرمائے ۔آپ میرے لیے میری حقیقی ماں تھیں۔آپ نے خود بھوکا رہ کر مجھے سیر کیا اور ا س میں ہمیشہ رضائے الٰہی آپ کے پیش نظر رہی” ۔ حضورۖنے آپ کی قبر مبارک میں لیٹ کر فرمایا ،”میں یتیم تھا ،انہوں نے مجھے اپنایا ۔وہ میرے لیے ابو طالب کے بعد شفیق ترین ہستی تھیں۔ اے اللہ !موت و حیات تیرے اختیار میں ہے ۔ صرف تو باقی رہے گا۔ میری ماں فاطمہ بنت اسدکی مغفرت فرما اور خلد ِبریں میں جگہ دے ،بے شک تو ہی اَرْحَمُ الْرَّاحِمِیْن ہے”۔میری پیاری ماں ! خدا آپ کو ابر رحمت کے سائے میں جگہ عنایت کرے ۔مجھے سیر کر کے آپ اکثر بھوکی رہیں۔آپ نے خود محروم رہ کر مجھے عمدہ لباس پہنایا اور عمدہ کھانا کھلایا ۔ اللہ رب العزت یقینا آپ سے راضی ہے اور آپ کا عزم ہمیشہ رضائے الٰہی اور عقبیٰ کی کامرانی رہا”۔”انہوں نے اپنے بچوں کو بھوکا رکھا مگر مجھے کھلانے کا یقین کیا ۔اپنے صاحبزادوں کوژولیدہ مُورکھا،میرے سر میں تیل لگایا اور بال سنوارے”۔
اِنَّ اِبْنُ آمَنَةَ الْنَّبِیُّ مُحَمَّداً
عِنْدِْ یُفَوِّقُ مَنَازِلَ الْاَوْلاَدِ
یقیناًفرزند ِآمنہ محمد نبی اللہ !! میرے نزدیک میری اولاد سے بڑھ کرہیں۔ نقیب ِمصطفٰی
امام ِاہلسنت علامہ جلال الدین سیوطی اَلْرَّسَائِلْ اَلْتِّسْعَةْ میں رسالہ اَلْتَّعْظِیْم وَالْمِنَّةْ کے صفحہ ٢٥ پہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا ؛جبرائیل مجھ پر نازل ہوئے اور انہوں نے کہا ؛ اللہ تعالیٰ آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں نے آتش ِجہنم اس پشت پر حرام کر دی ہے جس نے آپ کو (رحم ِمادر میں )اُتارا۔اس شکم پر بھی نار ِدوزخ حرام ہے جس نے آپ کو اٹھایا ۔ نیز میں نے اس گود پر بھی جہنم کی آگ کو حرام کر دیا ہے جس نے آپ کی کفالت کی ۔پس صلب سے مراد عبداللہ ہیں ، بطن سے مراد آمنہ ہیں اور گود سے مراد آپ کے تایا ابو طالب اور آپ کی تائی فاطمہ بنت ِ اسد ہیں ۔
لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک
وَنُسْلِمَہُ حَتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَہُ
وَنَذْھِلُ عَنْ اَبْنَائِنَا وَالْحَلاَ ئِلْ
وَیَنْھِضَ قَوْم فِیْ الْحَدِیْدِاِلَیْکُمْ
نُھَوِّضَ الرَّوَایَا تَحْتَ ذَاتِ الْصَّلاصِلْ

ہم اُن کی مدداور نصرت کرتے رہیں گے ۔یہاں تک کہ اُن کی نظروں کے سامنے جان دے دیں اور اپنے اہل وعیال سے جدا ہو جائیں
(ہمارے مرنے کے بعد بھی )ایسے لوگ اٹھیں گے جو اسلحوں میں ڈوبے ہوئے ہوں گے اور سیل ِرواں کی طرح (تم پر) چھا جائیں گے۔نقیب ِمصطفٰی
جب بھی اسلام خطرات و مشکلات میں گھرا ہے سیدہ فاطمہ بنت ِاسد اور سیدنا ابو طالب کے جگر گوشے ،ہر قسم کے شدائد و تکالیف اور مصائب و تلخیات سے نبرد آزمائی کرتے مضبوط ڈھال اور محکم حصار بن کر جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے ہیں اور دربدری کی ٹھوکریں کھاتے اسلام کی محافظت سے پیچھے نہیں ہٹے؛
اِنَّ الْوَثِیْقَةَ فِیْ لُزُوْمِ مُحَمَّدٍ
فَاشْدُدْ بِصُحْبَتِہِ عَلیٰ یَدَیْکا

میرے بچو !پراعتماد رہ کرمحمد مصطفٰی ۖکے دامن سے وابستہ رہنا اورہمیشہ ساتھ رہ کر اُن کی نصرت کرنا حضرت ابو طالب
اسلام کے ابتدائی ایام میں سیدنا علی اور سیدنا جعفر طیار کی قربانیوں سے کون ناواقف ہے ۔اسلام کے حفاظتی حصار کے اس ہراول دستہ نے ہمیشہ خود کو ہر ممکن قربانی کے لیے آمادہ رکھا اور آج تک خانوادئہ بنت اسد اس محاذپہ سینہ سپرہے ؛
وَمُرْھَفَاتٍ کَاَنَّ الْمِلْحُ خَالِطَھَا
یُشْفَی بِھَا الْدَّائُ مِنْ ھَامِ الْمَجَانِیْنِ
حَتّی تُقِرُّ رِجَال لاَ حُلُوْمَ لَھَا
بَعْدَ الْصُّعُوْبَةِ بِالْاِسْمَاحِ وَالْلَّیْنِ
اَوْ یُؤمِنُوْا بِکِتَابٍ مُنْزَلٍ عَجَب
عَلیٰ نَبِیٍّ کَمُوْسیٰ اَوْ کَذِی الْنُّوْنِ
یَاتِیْ بَامْرٍ جَلِیٍّ غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ
کَمَا تَبَیَّنَ فِی آیَاتِ یَاسِیْن

جو شخص ہمارے خلاف ظلم وبغاوت کرنا چاہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس کے ظلم وستم کو روکنے کے لیے اپنے مضبوط ہاتھوں میں لچکدار نیزے اور چمکتی ہوئی نمک آلودکاٹ دار تلواریں بھی رکھتے ہیں جن کے ذریعہ ان پاگل لوگوں کی کھوپڑیوں کا علاج کرکے دیوانگی کونکالاجاسکتا ہے ۔(ہم لوگ جب ) اِن پر سختی کریں گے تو اِن بد عقل لوگوں کے (ہوش ٹھکانے آجائیں گے ) ۔ اس کے بعد یہ ہماری نرم روش کا اعتراف بھی کریں گے۔ اگر یہ لوگ قرآن ِمجید پر ایمان لائیں جو ایک آسمانی صحیفہ ہے جس طرح حضور ۖسے قبل حضرت موسیٰ وذی النون نبی پر صحیفے نازل ہوتے رہے ہیںجس کی ہر بات روشن ہے اور کسی قسم کی کجی نہیں ہے جیسا کہ سورة یاسین کی آیات میں وضاحت کر دی گئی ہے ۔ نقیب ِمصطفٰی
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

اَلاَاَبْلِغْ قُرَیْشاًحَیْثَ حَلَّتْ، وَکُلَّ سَرَائِرٍ مِّنْھَا غَرُورْ
لآلِ مُحَمَّدٍ رَاعٍ حَفِیْظٍ، وَوُدَّ الْصَّدْرِ مِنِّ وَالْضَّمِیرْ
فَلَسْتَ بِقَاطِعٍ رَحْمِیْ وَوُلْدِْ، وَ لَوْ جَرَّتْ مَظَالِمَھَا الْجَذُوْرْ
اَیَأمَرُجَمْعُھُمْ اَبْنَائَ فَھْرٍ، بِقَتْلِ مُحَمَّدٍ وَالْاَمْرُ زُورْ
فَلاَ وَاَبیِْکَ لاَظَفَرَتْ قُرَیْشٍ، وَلاَ لَقَیْتَ رِشَاداً اِذْ تَشِیرْ
بُنَیَّ اَخٍِّ وَنُوْطَ الْقَلْبِ مِنِّْ، وَاَبْیَضَ مَاؤُہُ غَدْقَ الْکَثِیْرْ
وَیَشْرَبُ بَعْدُہُ الْوِلْدَانَ رَیّاً، وَاَحْمَدُ قَدْ تَضَّمَّنُہُ الْقُبُوْرْ
اَیَا اِبْنَ الْاَنْفِ اَنْفِ بَنِْ قُصَیَّ،کَأنَّ جَبِیْنُکَ قَمْرَ الْمُنِیْرْ

قریش کے خوردوکلاںمغرور دماغوںکے حامل چوہدریوں تک میرا پیغام پہنچادوکہ میں دل کی محبت اور ضمیر کی پاکیزگی کے ساتھ محمد ۖ(اور اُن )کے خاندان کی حفاظت ونگرانی کرنے والا ہوں۔ اورمیں کسی حالت میں بھی اپنے فرزند ،اپنے لخت ِجگر کا ساتھ چھوڑنے والا نہیں ہوں۔ چاہے اس کی پاداش میں مجھ پر ہولناک جنگ ہی کیوں نہ مسلط کردی جائے ۔بنی فہربیک زباں مصرہیں کہ محمد کوختم کردیاجائے ۔میرے رفیع الدرجت والدکی قسم!پرسکون رہئے کہ قریش آپ کی راہ میں حائل ہونے کے عزائم میں ہرگزکامیاب نہ ہوں گے ۔میرے بھائی کی آل ِاطہر میرے قلب ونظرکی تسکین اوران کا منوروجودمیرے لیے جام ِ حیات ہے ۔(کیا یہ کبھی ہو سکتا ہے کہ )احمد دنیا سے رخصت کر دیے جائیں اور میرے بیٹے( سکون )سے پانی پئیں اور سیراب ہوں ؟(نہیں بلکہ میرا ہر فرزند ، حضورِ اکرم کی حفاظت میں جان کی بازی لگا دے گا) اے بلند رتبے والے کے عالیمرتبت صاحبزادے !آپ کی ذات ِگرامی تو بنی قصی کے لیے سرمایہ افتخار ہے اور آپ کی پیشانی چاند کی طرح روشن اور تابندہ ہے۔ نقیب ِمصطفٰی

سیدتنا فاطمہ بنت ِاسد اور سیدنا ابو طالب کی بے لوث خدمات کے انمٹ نقوش نہ صرف ابتدائے اسلام میں جلوہ فگن ہیںبلکہ کلمہ حق کی محکم بنیاد ،سانحہ کربلا اور اس کے بعد بھی قدم بہ قدم ان کی پر خلوص قربانیاں طول ِتاریخ میں جاگزیںہیں۔دین ِاسلام کی ابتدا بھی آپ کی آغوش میں ہوتی ہے تو انتہا وبقا کے لیے بھی اسی گود کاسرمدی نذرانہ پیش کیا جاتا ہے ۔ چمنستان ِبنت ِاسد و ابو طالب کے یہ مہکتے پھول اسلام کی بنیادوں کا محکم حصار بن گئے ۔اقدار ِاسلام کی تابندگی انہی قربانیوں کا ثمر ہے ؛

کُوْنُوْا فِدائً لَکُمْ نَفْسِْ وَمَا وُلِدَتْ، مِنْ دُوْنَ اَحْمَدٍ عِنْدَ الْرَّوْعِ اَتْرَاساً
بِکُلِّ اَبْیَضَ مَصْقولٍ عَوَارِضُہُ، تَخَالُہْ فِیْ سَوَادِ الْلَّیْلِ مِقْبَاساً

جب بھی خطرات کا سامنا ہوتو تم سب لوگ احمد مجتبیٰ کے لیے سینہ سپر ہو کر اُن پر اپنی جان نچھاور کرنا ،میری جان اور میری اولاد سب آپ ۖپہ قربان (پیغمبر اکرم کی نصرت کے لیے ) وہ چمکدار وآبدار تلواریں لے کر میدان میں نکل آنا جو رات کی تاریکی میں شعلہ کی طرح ( لپکتی ) محسوس ہوتی ہیں۔حضرت ابو طالب

گلستان ِابوطالب وفاطمہ بنت ِاسد کے یہ مہکتے پھول ریگزار ِکربلا پردین ِاسلام ، سیدنا امام حسین کی نصرت میں عظمتوں کی لازوال داستان رقم فرما گئے۔ ١۔سیدنا عبداللہ بن مسلم بن عقیل بن ابی طالب ،٢۔ سیدنا قاسم بن امام حسن بن علی بن ابی طالب ،٣۔ سیدنا جعفر بن عقیل بن ابی طالب ،٤۔ سیدنا عبداللہ بن امام حسن بن علی بن ابی طالب ،٥۔ سیدنا محمدبن مسلم بن عقیل بن ابی طالب ،٦۔ سیدنا عبداللہ بن امام علی بن ابی طالب ،٧۔ سیدنا عبدالرحمان بن عقیل بن ابی طالب ،٨۔ سیدنا عثمان بن علی بن ابی طالب ، ٩۔ سیدنا عبداللہ بن عقیل بن ابی طالب ،١٠۔ سیدنا جعفر بن علی بن ابی طالب ،١١۔ سیدنا موسیٰ بن عقیل بن ابی طالب ،١٢۔ سیدنا عباس بن علی بن ابی طالب ،١٣۔ سیدنا عون بن عبداللہ بن جعفرطیاربن ابی طالب ١٤۔ سیدنا علی اکبر بن امام حسین بن علی بن ابی طالب ،١٥۔ سیدنا محمد بن عبداللہ بن جعفرالطیّار بن ابی طالب ،١٦۔ سیدنا محمد بن ابی سعید بن عقیل بن ابی طالب ، ١٧۔ سیدنا عبداللہ اکبر بن امام حسن بن علی بن ابی طالب ،١٨۔ سیدنا علی اصغر بن اما م حسین بن علی بن ابی طالب ۔آپ ہی کی اولاد میں اہل ِاسلام کے بارہ امام اور ان کی ذریت ِ طیبہ سادات ِ عظام ہیں۔عرب و عجم میں ناموس رسالت پر شہید ہونے والے ہزاروں سادات ِبنی فاطمہ ،آپ ہی کا فیضان و احسان ہیں۔

سیرتِ فرزندہا از امہات
جوہر صدق وصفا از امہات
وارثِ انبیائ
وَبِالْغَیْبِ آمَنّاوَقَدْکَانَ قَوْمِنَا
یَصَلُّوْنَ لِلْاَوْثَانِ قَبْلَ مُحَمَّدْ

ہم تو غیب پر ایمان رکھتے تھے جب کہ ہماری قوم بعثت ِمصطفٰی سے پہلے بتوں کوپوجتی تھی ۔نقیب ِمصطفٰی
سیدنا ابو طالب ،تمام انبیائے کرام کی وراثت کے وارث تھے۔آپ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور سیدنا اسمٰعیل ذبیح اللہ ، کی متروکہ امانتوں کے امانتدارتھے۔ان سب امانتوں میںسب سے بڑی امانت سرکارِرسالت ۖ،حضرت محمد مصطفٰی ۖکی امانت تھی۔آپ آسمانی و زمینی برکات کا سرچشمہ،نسل ِ خلیل کابقیہ اور خاندان ِذبیح اللہ کے وارث تھے۔آپ نے انتہائی ذمہ داری سے ان مقدس امانتوں کا تحفظ فرمایا اور جس روز آخری امانت سرکار ِ دوعالم کی بارگاہ میں پیش کی اسی دن بارگاہ ِرب العزت میں ابدی سرخروئی کو حاضر ہو گئے ۔قَالَ سَیِّدَنَا اِمَامْ الْکَاظِمْ،”اَقَرَّ بِالْنَّبِیْ وَبِمَا جَائَ بِہ وَدَفَعَ اِلَیْہِ الْوَصَایَا وَمَاتَ مِنْ یَوْمِہْ ”۔نبوت کے دسویںسال اسلام اور پیغمبر اسلام پر شفقت ومحبت کا سایہ کرنے والاشجرِ طیب مائل بہ خزاں ہوا۔ نقیب ِ مصطفٰی کی طبیعت ِعالیہ میںتغیر ہوااور آپ سفرآخرت کوتیا ر ہوئے۔طاقت و قوت، جاہ وحشمت اورپوری زندگی پیام ایزدی کی پاسداری کے لیے وقف کردینے والے ابوطالب اپنے شکستہ اعصاب،ستم رسیدہ روح اور الم دیدہ بدن کو سرمدی آرام کے وقت بھی متفکر ہیں۔ آپ کو فکر ہے تو مصطفٰی ۖکریم کی ؛
بَکی طَرِباً لَمَّا رَآنِیْ مُحَمَّدْ،کَاَنَّ لاَ یَرَانِیْ رَاجِعاً لِمَعَادٍ
فَبَتَّ یُجَافِیْنِیْ تَھَلَّلَ دَمْعِہْ، وَعِبْرَتِہ عَنْ مِضْجَعِیْ وَ وَسَادِیْ

جب میں محمد کو دیکھتا ہوں تو تڑپ تڑپ کر روتا ہوں کہ اب واپس آکر آپ کی زیارت سے شرفیاب ہونا ممکن نہیں ،
تمام تر ہمت وجوانمردی کے باوجود غم واندوہ کی چادر مجھے اوڑھ کرمیرے سوگ اور حسرت ویاس کے آنسوئوں سے بھیگ جاتی ہے ۔ نقیب ِمصطفٰی
اس موقع پر آپ نے بنی عبدالمطلب کو بلاکر وصیت فرمائی؛

”اے گروہِ قریش !اللہ تعالیٰ نے تمہیںاپنی مخلوق میںبزرگی و سرداری بخشی ہے۔ میںتمہیںبیت اللہ کی تعظیم کی وصیت کرتا ہوںکیونکہ اسی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ میںتمہیں وصیت کرتا ہوں کہ حضرت محمدۖکے حق میںبھلائی کرنا،اس لیے کہ وہ قریش میںالامین اور عرب میںالصدیق ہیںاور ان میںہرحسن و خوبی جمع ہے،ان کے بارے میںتم کو وصیت کرتا ہوں۔بلاشبہ وہ ایسی باتیںلائے ہیں جن کو ہر دل مانتا تو ہے مگر زبانیںملامت کے خوف سے انکار کر رہی ہیں۔میںخدا کی قسم کھا کر کہتا ہوںکہ میں دیکھ رہا ہوںکہ عرب کے فقیروں،درویشوں،بادیہ نشینوںاور کمزور و ناتواں لوگوں کو کہ وہ سب ان کی دعوت قبول کرتے،ان کے کلمہ کی تصدیق کرتے اور ان کو اپنا بزرگ و رہنما جانتے ہیں۔ پھر قریش اور ان کے بڑوں کے سر جھک گئے ہیںاور ان کے مکان ویران ہو گئے ہیں۔ان کے کمزور ،صاحب ِثروت اور عظیم ترین ہو گئے ہیںاور جو اِن میںبزرگ اور بڑے تھے ،وہ ان میںذلیل و خوار اور حقیر بن گئے ہیںاور جو ان سے بہت دور تھے ،وہ ان کے نزدیک ،نصیبہ وراور بہرہ مند ہو گئے ہیں۔بلاشبہ انہوں نے عرب کو خالص بنا دیا ہے اور اپنی محبت ،ان کے دلوںمیںرچا دی ہے اور وہ سب ان کی اطاعت و فرمانبرداری کررہے ہیں۔تو اے گروہ ِقریش!تم ان سے محبت کرنے والے اور ان کی نصرت و حمایت کرنے والے بن جائو،خدا کی قسم! جو بھی ان کی پیروی کی راہ اختیار کرے گااور ان کی مطابقت کرے گا،یقینا وہ ہدایت یافتہ اور کامیاب ہو گااور کوئی نیک بخت ان کی سیرت و خصلت کا انکار نہیںکرے گا۔خدا کی قسم !جو ان کے دین کو قبول کرے گا نیک بخت بن جائے گا۔ اگر میںکچھ عرصہ اور زند ہ رہااور میری اجل میںکچھ تاخیر ہے تو یقینا میںان کی حفاظت و حمایت ہی کرتا رہوںگااور ہر حادثہ اور برائی کو ان سے دور رکھوںگا۔”

یہ وصیت فرما کر شَیخُ الْاِسْلاَمْ نے ابدی استراحت کے لیے آنکھیںبند کر لیں۔ جزوِنور،اسّی سال سے زائد، ضیاپاشی فرما کر اصل کولوٹ گیا۔سیدنا محمد مصطفٰیۖ، آپ کے سرہانے کھڑے تھے۔ آپ کی روشن پیشانی کو بوسہ دے کر فرمایا، ”تایا! اللہ آپ پررحمت نازل کرے،آپ نے میرا خیا ل رکھا ،جب کہ میں یتیم تھا اور ہر ممکن تحفظ دیا۔اللہ آپ کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے۔”اس کے ساتھ ہی آپ کے آنسو جاری ہو گئے اور آپۖنے ساتھ کھڑے سیدنا علی مرتضٰی کوگلے سے لگا لیااور بچپن کے واقعات یاد کرتے دونوں زار و قطار رودیئے۔حضرت ابو طالب اور آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ فاطمہ بنت ِ اسدسلام اللہ علیہانے حضور نبی کریم ۖ کی اسطرح حفاظت و غمگساری فرمائی کہ آپۖ ان مقدس ہستیوں کو یاد کر کے اکثرآبدیدہ ہو جاتے اور اِن کے لیے دعا فرماتے تھے۔امیر المومنین علی ابن ِابی طالب اپنی حیات ِطیبہ میں سرکار ِدوعالم کے آبائے طاہرین اور نقیب مصطفٰی کی نیابت میں حج کرتے اور عوام کوترغیب دیتے تھے اورآخری ایام میں بھی آپ نے ان کے لیے حج بجالانے کی وصیت فرمائی ۔

حضرت فاطمہ بنت ِ اسد کے وصالِ پرملال پر حضور نبی کریم ۖ نے اپنا کرتہ مبارک آپ کے کفن کے لیے بھیجااور ان کی قبر ِاقدس میں لیٹ گئے اور گریہ زاری فرمائی۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلام نازک دور سے گزرا ہے اولادِ ابوطالب نے اپنامبارک خُون دے کر اس کی آبیاری کی ہے۔حضرت ابوطالب پہلے نعت گو ہیں او ر ”دیوان ِ ابوطالب ” حمد و نعت سے لبریز ہے۔آپ فرمایا کرتے تھے؛”میرے بھتیجے!کفارِمکہ ہر گز آپ تک نہ پہنچ پائیںگے،یہاں تک کہ میںمٹی میںدفن کردیاجائوں۔

””قُمْ یَا سَیَّدِْ! وَتکَلَّمْ بِمَاتُحِبُّ وَبَلِّغْ رِسَالَتِکْ” میرے سردار!جوچاہتے ہیںبے دھڑک اعلان ِعام فرمائیں اور کار ِرسالت سرانجام دیں۔”فَمَارَجَعُوْاحَتیّٰ رَاوْا مِنْ مُحَمَّدٍ،اَحَادِیْث تَجَلُوْغَمَّ کّلِّ فَوَادْ”،دیدار ِ مصطفٰی کیے بغیر یارانہیں کہ جن کے فرامین ہردل سے غم ویاس مٹادیتے ہیں۔وَقَامُوْا فِیْ مَوَارَاتِہ وَکَانَ الْنَّبِیُّ یُغَسِّلُہُ وَعَلِیّ یَصُبُّ الْمَائَ عَلَیْہِ، ثُمَّ أدْرِجُوُہ فِیْ أکْفَانِہ بَعْدَ أنْ أھْدِ اِلَیْہِ الْسِّدْرِ وَالْکَافُوْرُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَحَزَّنَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاَوْلاَدِ عَبْدُالْمُطَّلِبْ وَبَنُوْہَاشِمْ وَ بَنُوْعَبْدِمَنَافٍ وَجَمِیْعِ اَہْلِ مَکَّةْ، وَالْنِّسَاء شَقَقْنَ عَلَیْہِ الْجُیُوْبِ، وَنَشَرْنَ عَلَیْہِِ الْشَّعُوْرِ وَرَسُوْلَ اللّٰہ وَعَلِیّ یَبْکِیَانِ عَلَیْہ، فَلَمَّا فَرَغَ الْنَّبِیُّ مِنْ تَغْسِیْلِہ وَتَکْفِیْنِہ وَأنْزَلُہُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِ لَحَدِہ وَلَقَّنَہُ وَھُوَیَبْکِ وََیَقُوْلْ: وَا أبَتَاہْ وَا أبَاطَالِبَاہْ وَا حُزْنَاہُ عَلَیْکَ یَاعَمَّاہْ آہ آہ بَعْدُکَ یَاعَمَّاہْ بِاَبِ رَبَّیْتَنِ صَغِیْراً وَاَحْبَبْتَنِ کَبِیْراً، وَکُنْتَ عِنْدَکَ بِمَنْزِلَةِالْعَیْنِ مِنَ الْحَدَقَةْ، وَالْرُّوْحُ مِنَ الْجَسَدْ، ثُمَّ ھَالُوْا عَلَیْہِ الْتُّرَابْ، وَجَاؤونَحْوَا الْعَزَائِ وَعَزَّاہُ الْنَّاسُ عَلَیْہ

،اُن کے وصال ِپر ملال کے موقع پررسول اللہ ،بنی عبدالمطلب،بنی ہاشم،بنی عبدمناف اور مکہ کے تمام لوگ افسردہ تھے ۔خواتین نے گہرے رنج وغم کااظہار کیا ۔رسول اللہ اور علی مرتضٰی گریہ کناںتھے۔ نبی اللہ غسل دیتے تھے تو علی اُن پر پانی ڈالتے تھے ۔پھرجنت سے لائے گئے بیروکافور سے مشکبار کرکے کفن پہنایاگیا۔غسل وکفن سے فارغ ہو کر جب انہیں لحد میں اتاراتو نبی اللہ زاروقطار روتے اُن سے لپٹ گئے اور فرماتے تھے ”ہائے میرے بابا!ہائے میرے تایا!مجھ پہ کوہ ِالم ٹوٹا،تایاجان !آپ کے بعد زندگی دکھوں سے بھری ہے ۔تایاجان!آپ نے بچپن میں میری پرورش کی اور بڑ ے ہونے پر بے پناہ محبتوں سے نوازا۔میں تو آپ کانورِچشم اورروح ِرواں تھا۔ پھر آپ پر مٹی ڈال کر تعزیتی کلمات کہے اور صف ِعزابچھائی جہاں لوگ آپ سے تعزیت کرتے تھے ۔وصال ِابوطالب کی رات جبرائیل ِامین بارگا ہ ِنبوی میںحاضر ہوکر عرض گذار ہوئے ،” اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکَ اَنْ تُخْرِجَ مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَةِ الْظَّالِمُ اَھْلِھَا فَاِنَّ نَاصِرَکَ قَدْ مَاتَ ”اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ آپ اس شہر کے سفاک مکینوں کے باعث یہاں سے تشریف لے جائیں کہ آپ کے یاور ومددگار کاانتقال ہو گیا ہے ۔امام جعفر صادق فرماتے ہیں ،”اَوْحیَ اللّٰہُ اِلیٰ رَسُوْلِہ، اُخْرُجْ مِنْھَا فَلَیْسَ لَکَ بِھَا نَاصِر، فَھَاجِرْ اِلیَ الْمَدِیْنَةْ”،اللہ رب العزت نے اپنے رسول کووحی کی کہ یہاں (مکہ )سے مدینہ کی جانب ہجرت فرماجائیں کہ آپ کے مددگار نہیں رہے ۔

اسلام کے ناصر اول کا جنازہ،اصحاب ِرسول کے کاندھوں پر اٹھا۔آگے آگے جنازہ اور پیچھے پیچھے پیغمبر اسلام ۖ،اللہ کے پیارے نبی ۖ،محسن ِاسلام کا مرثیہ پڑھتے مشایعت فرما رہے ہیں،”تایا!آپ نے صلہ رحم کیا،آپ نے مجھے پالا،میری ذمہ داری لی اور بڑا ہونے کے بعد بھی میری نصرت کی اور میرا ہاتھ بٹایا۔خدا آپ کو جزائے خیر دے”۔”وَصَلَتْ رَحِماً وَجَزَیْتَ خَیْراً یَاعَمْ! فَلَقَدْ رَبَّیْتَ وَکَفِلْتَ صَغِیْراً، وَنَصَرْتَ وَآزَرْتَ کَبِیْراً ، ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَی الْنَّاسِ وَقَالَ: اَمَّا وَاللّٰہِ لاَشْفِعَنَّ لِعَمِّیْ شَفَاعَةً یُعْجِبْ بِھَا اَھْلَ الْثَّقَلَیْن”۔ ابھی رسول ِکریم کا یہ مرثیہ ختم نہیںہوا تھا کہ آہ وبین کا نوحہ شروع ہو گیا۔حضور کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیںاور آپۖ ان الفاظ میںگریہ فرما رہے ہیں؛

”تایا! آخر کس طرح صبر کروں،آپۖ نے بچپنے سے پالا،بڑا ہونے کے بعد محبت و شفقت سے سلوک کیا،میںتو آپ کی آنکھوں کا نور اور آپ کے لیے رو ح رواں تھا”۔ پھر آپ نے فرمایا،”خد اکی قسم !میرے تایاقیامت کے د ن ایسی شفاعت کے مالک ہوں گے کہ ثقلین انگشت بہ
دنداںرہ جائیںگے، لَہُ بِالْشَّفَاعَةُ الَّتِیْ تُعْجَبُ بِہَا اَہْلَ الْثَّقَلَینْ”
معارف ِدین کا اولین شہ کار
یَاشَاھِدَالْخَلْقِ عَلَیَّ فَاشْھَدِ، اِنِّیْ عَلیٰ دِیْنِ الْنَّبِیِّ اَحْمَدِ، مَنْ ضَلَّ فِیْ الْدِّیْنِ فَاِنِّی مُھْتَدیْ
یَاشَاھِدَاللّٰہِ عَلَیَّ فَاشْھَدِ، آمَنْتُ بِالْوَاحِدِ رَبِّ اَحْمَدِ، مَنْ ضَلَّ فِیْ الْدِّیْنِ فَاِنِّی مُھْتَدیْ

اے لوگوں کے سامنے میری گواہی دینے والے! گواہی دے کہ میں نبی اللہ احمد مجتبیٰ کے دین پر ہوں، کوئی دین میں گمراہ ہے تورہے لیکن میں یقینارہرو ِہدایت ہوں ۔
اللہ رب العز ت کی بارگاہ میں میری گواہی دیجیے کہ میں احمد ِمجتبیٰ کے وحدہُ لاشریک رب تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہوں،کوئی دین میں گمراہ ہے تورہے مگر میں یقینارہروِہدایت ہوں۔نقیب ِمصطفٰی
معارف ِدین ہر دور میں خاص اہمیت کے حامل رہے ہیں ۔توحید ورسالت کی پہچان کے لیے قادر ِمطلق نے جن ذوات ِقدسیہ کو منتخب فرمایا انہیں خانوادئہ نبوت یا اہلبیت ِنبوی کہا جاتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل ِبیت ِرسول اللہ ۖنے معارفِ ِاسلامیہ کے جو دریا بہائے ہیں وہ کسی اور کا خاصہ نہیں ۔خلفائے راشدین بارہ امام ہوں یا اُن سے چلنے والی آل ِرسول، خانوادئہ توحید کا ہر فرد فروغ ِدین کی خاطر کوشاں دکھائی دیتا ہے جس کی ابتدااوائل ِاسلام میں شعب ِابی طالب میں محصورسید ِبطحا،نقیب ِمصطفٰی، سیدناابوطالب عبد ِمناف بن عبدالمطلب کے تفکرات سے ہوتی ہے ؛
تَطَاوَلَ لَیْلِیْ بھَمِّ وَصِبْ
وَدَمْعٍ کَسَحّ ِالْسِّقَائِ الْسَّرِبْ

پے در پے رنج وغم ،تفکرات کے باعث میری راتیں طویل ہوتی جا رہی ہیںاورمیرے آنسو اس طرح بہتے رہتے ہیں جیسے مشکیزہ سے پانی بہہ رہا ہو
ایک جگہ فرمایا؛
فَارْفَضُّ مِنْ عَیَنَیَّ دَمْعٍ ذَارِفٍ، مِثْلُ الْجُمَّانِ مُفَرِّقُ بِبْدَادْ
رَاعَیْتُ فِیْہِ قَرَابَةً مَوْصُوْلَةٍ، وَحَفِظْتُ فِیْہِ وَصِیَّةُ الْاَجْدَادْ

میری دونوں آنکھوں سے آنسو ایسے بہتے ہیں کہ جیسے موتی گنج ِگرانمایہ سے جدا ہوتے ہیں ،
میں اس معاملے میں قرابت داروں کے رویے پر نظر رکھے ہوں جبکہ بہرصورت مجھے اپنے آبائواجداد کی وصیت واحکام پر عمل کرنا ہے۔ نقیب ِمصطفٰی

شب وروز فکر ِاسلام اور حفاظت ِپیغمبر آخرالزمان ۖمیں گزارنے والے ابوطالب کے افکار وخیالات اور ایمان پرور کلام حمد ونعت سے لبریز ہے ۔صنادید ِعرب کے مقابلے میں آہنی چٹان بن جانے والے سید العرب نے اپنے جذبات واحساسات کوانتہائی خوبصورت الفاظ عطاکرکے نہ صرف اوائل ِاسلام کی معتبرتاریخ مرتب کی ہے بلکہ عربی زبان و ادب پر بھی احسان ِ عظیم فرمایا ہے ۔آپ کی حیات ِطیبہ نصرت ِرسول ۖاور سربلندی ِاسلام کے لیے وقف تھی ۔آپ کی سماجی قوت سے اسلام کو تقویت ملی۔آپ نے دین ِ مصطفٰیۖکے بڑے سے بڑے دشمن کو للکارنے سے بھی گریز نہ کیا۔یہی اوصاف آپ کے جلیل القدر صاحبزادوں،پوتوں،پوتیوں اور عترت و ذریت میں نمایاں رہے۔جہادبالسیف کے ساتھ ساتھ آپ کے عالیقدر خانوادے نے جہادبالقلم اور جہاد باللسان بھی فرمایا ہے جس کی فکری بنیاد دیوان ِ ابو طالب ہے ۔ روئے زمین پر پہلے نعت گو کا اعزاز پانے والے سیدنا ابوطالب کا معرکة الآرا ایمان پرور نورانی کلام ِمقدس ”دیوان ِابوطالب ”سردارِ ِعرب کی طرح، تمام شعرائے عرب کے کلام کا سردار ہے۔آپ کادیوان شعر وادب کا عظیم ترین شاہکار ہے ۔آپ شعر کہنے پر قدرت وقوت ِتامہ رکھتے تھے ۔فی البدیہہ شعر کہنے میں آپ کو وہ یدطولیٰ حاصل تھا کہ عام گفتگو کے دوران بھی پوری کی پوری بات اشعار ہی میں بیان فرما دیا کرتے ۔آپ کے ہر شعر میں بے ساختگی اور سادگی پائی جاتی ہے۔ آپ کے کلام بلاغت نظام کی عظمت وافادیت بَابُ الْعِلْم کے فرمان سے ظاہر ہے کہ آپ نے فرمایا،”اخلاق وادب کے ساتھ ذوق ِشعریت کی تسکین حاصل کرنا ہو تو دیوان ِابو طالب کا مطالعہ کریں۔ ” چھٹے خلیفہ راشدسیدنا امام جعفر الصادق فرماتے ہیں،” امیر المومنین علی ابن ِابی طالب ،سیدنا ابوطالب کے اشعار کوبہت زیادہ محبوب رکھتے تھے ۔ آپ ان اشعار کے جمع کیے جانے کی خواہش رکھتے تھے کہ پڑھے جائیں اور مشتہر ہوں ۔آپ اکثر حکم دیتے کہ یہ اشعار خود پڑھو اور اپنے بچوں کو پڑھائو اس لیے کہ حضرت ابو طالب دین ِخدا پر تھے اور ان اشعار میں بڑا علم ہے۔ ”

”کَانَ اَمِیْرَالْمُؤمِنِیْنَ یُعْجَبْہُ اَنْ یُّرْویٰ شِعْرُ اَبِیْ طَالِبٍ وَاَنْ یُّدَوِّنْ وَقَالَ: تَعَلَّمُوْہُ وَعَلِّمُوْہُ اَوْلاَدَکُمْ فَاِنَّہُ کَانَ عَلیٰ دِیْنِ اللّٰہِ وَفِیْہِ عِلْم کَثِیْر”
امام چاہتے تھے کہ یہ اشعار نقل کیے جائیں ۔اِن کی تعلیم دی جائے اور اِنہیں حفظ کیا جائے تا کہ ان سے رسالت کا عرفان حاصل ہو اور مذہبی معلومات میں اضافہ ہو۔تین ہزار سے متجاوزاشعار میں آپ نے علی الاعلان نصرتِ پیغمبر اعظم اور ببانگ ِدہل کفر کے سورمائوں کوللکارا ہے جن میں رسول اللہ کاکامل عرفان ِ،باری تعالیٰ ومرسلین ،کتب وصحف ِانبیاء اور ملائک پہ
غیرمتزلزل ایقان کے بے کراں سمندر موجزن ہیں۔فرماتے ہیں؛
مُحَمَّدُتَفْدِنَفْسِکَ کُلُّ نَفْسٍ
اِذَا مَاخِفْتَ مِنْ شَیئٍ تِبَالاً
اے محمد !میرے نورِنظر !اگر کسی خطرے یا مصیبت وپریشانی کا اندیشہ ہوتوہر شخص کو اپنی جان آپ ۖکے قدموں پر نثار کر دینا چاہیے
مَلِیْکُ الْنَّاسِ لَیسَ لَہُ شَریْکْ، ھُوَ الْوَھَّابُ وَالْمُبْدِیُ الْمُعِیْد
وَمَنْ تَحْتَ الْسَّمائِ لَہُ بحَقٍ، وَمَنْ فَوْقَ الْسَّمائِ لَہُ عَبِیْد

پروردگار ِعالم ہی تمام انسانوں کا فرمانروا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی نعمتیں عطا کرنے والا ،دنیا کو ایجاد کرنے والااور دوبارہ زندگی عطا کرنے والا ہے آسمان وزمین کے
درمیان جو مخالیق بھی متنفس ہیں اور جو آسمانوں پر ہیں وہ بھی اُسی کے حقیقی بندے ہیں ۔
لَقَدْ اَکْرَمَ اللّٰہُ الْنَّبِیَّ مُحَمَّداً، فَاکْرَمَ خَلْقِ اللّٰہِ فِیْ الْنَّاسِ اَحْمَدٍ
وَشَقَّ لَہُ مِنْ اِسْمِہِ لِیُجَلَّہ فَذُوْ الْعَرْشِ مَحْمُوْد وَ ھٰذَا مُحَمَّدٍ
یقینا خداوند ِعالم نے حضرت محمد کو منزلت وکرامت سے سرفراز فرمایا ہے کہ خداوند ِ عالم کی تمام مخلوقات میں سب سے بلند مرتبہ حضور ِاکرم کی ذاتِ گرامی قدر کاہے
خدا نے اُن کے جلال وقدر کے لیے اُن کے نام کو بھی اپنے نام ہی سے مشتق کیا چنانچہ و ہ صاحب ِعرش محمود ہے اور یہ محمد ۖہیں
نقیب ِمصطفٰی کے انہی اشعار کی تضمین میں شاعر رسالت حسان بن ثابت کہتے ہیں ؛
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَرْسَلَ عَبْدُہُ، بِآیَاتِہ وَاللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَمْجَدْ
وَشَقَّ لَہُ مِنْ اِسْمِہِ لِیُجَلَّہ فَذُوْ الْعَرْشِ مَحْمُوْد وَ ھٰذَا مُحَمَّدْ

آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ اللہ جل ومجدنے اپنے خاص بندے کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔
خدا نے اُن کے جلال وقدر کے لیے اُن کے نام کو بھی اپنی صفات ِعالیہ سے مشتق کیا چنانچہ و ہ صاحب ِعرش محمود ہے اور یہ محمد ۖہیں
عرب کے نامور شعراء وناقدین برملامعترف تھے کہ ہم نے زندگی میں اس جیساخوبصور ت شعر نہیں سنا؛
وَشَقَّ لَہُ مِنْ اِسْمِہِ لِیُجَلَّہ فَذُوْ الْعَرْشِ مَحْمُوْد وَ ھٰذَا مُحَمَّدْ

سیدناابوطالب کی نور ِرسالت پہ فداکاری کے عزم کا آغازسید العرب حضرت عبدالمطلب کی منت سے ہوتا ہے جب آپ نے سنت ِابراہیم کے مطابق اپنے عزیزازجان لخت ِ جگرمصباح ِحرم سیدنا عبداللہ کو بصورت ِاسماعیل راہ ِخدا میں قربان کرنا چاہا جس کی جانب اشارہ کرتے سرکارِدوعالم نے فرمایا اَنَااِبْنُ ذَبِِیْحَیْن ،میں دو ذبیحوں سیدنا اسماعیل وسیدنا عبداللہ کانور ِنظر ہوں ۔سیدالعرب کے فیصلہ کن عزم کودیکھتے ہوئے سید ِبطحا عرض گذار ہوئے ؛
کَلاَّ وَ رَبِّ الْبَیْتِ ذِیْ الْاَنْصَابِ، مَا ذِبْحُ عَبْدِاللّٰہِ بِالْتَّلْعَابِ
یَا شَیْبُ اِنَّ الْرِّیْحَ ذُوْ عِقَابِ، اِنَّ لَنَا جِرَّةً فِیْ الْخِطَابِ
اَخْوَالَ صِدْقٍ کَلُیُوْثِ الْغَابِ
رب ِکعبہ کی قسم !عبداللہ کا ذبح کیاجانامعمولی بات نہیں جناب شِیْبَةُالْحَمْد! اگر ایساہواتو سیاہ آندھیاں چلنے لگیں گی اور قوم کے اندر بحران کی کیفیت پیدا ہوجائے گی
اور ہمارے ننھیالی رشتہ دار بنی مخزوم کے تمام لوگوں پر رنج وغم کا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا ۔لہٰذاغور فرمایئے کہ متبادل صورت کیا ہوسکتی ہے ۔
جَنَّةُالْمُعَلّٰیشریف اَلْحَجُوْن میں مدفون اپنے آبائے طاہرین کی بارگاہ میںعقیدت کے پھول نچھاور کرتے فرماتے ہیں؛
سَقَی اللّٰہُ رَھْطاً ھُمْ بِالْحَجُوْنِ
قِیَام وَقَدْ ھَجَعَ الْنَّومْ

اللہحَجُوْن میں قیام فرماومحو ِاستراحت باسیوں کوجام ِطہور سے سیراب فرمائے
قصیدئہ لامیہ
معارف ِدین کاشہکار،قصیدئہ لامیہ انتہائی بلند مرتبہ، ازحد بلیغ ہے ۔آپ کے علاوہ اور کوئی ایسا قصیدہ نہیں کہہ سکتا،یہ سبع معلقات سے بھی زیادہ پرمغز و پرمعنی ہے۔سیدنا ابو طالب نے یہ قصیدہ اس وقت کہا جب وہ شعب ِابی طالب میں محصور کر دیے گئے تھے۔
اے میرے دوستو!ایسا نہیں ہے کہ حق و باطل کے معاملہ میں پہلی ملامت سنتے ہی میرے کان منحرف ہونے لگیں۔ اے میرے دوستو!اہم اور دوررس معاملات میں صحیح اور بابصیرت رائے باہمی مشورے کے بعد ہی ملتی ہے۔ اور جب میں نے دیکھا کہ قوم نے ہم سے ہر قسم کے تعلقات توڑلیے وسائل و روابط منقطع ہو گئے اور ان لوگوں کے دلوں میں ہمارے لیے کوئی محبت نہ رہی ۔ بلکہ کھلم کھلا وہ لوگ ہماری عداوت و ایذارسانی پر اتر آئے اور ہمارے دشمنوں کی بات ماننے لگے۔اور جو لوگ ہم سے بدگمان تھے ان سے ان لوگوں نے عہدوپیمان کر لیااور ہم سے بھرپور دشمنی کرنے لگے۔ تب بھی میں نے صبر سے کام لیا اور اپنے گندم گوںنیزوں اور آبدار تلواروں کوجو ہمیں ورثہ میں ملی تھیں روکے رکھا۔ اور خانہ خدا کے پاس اپنے اہل ِ خاندان و برادران کو جمع کیااور تمام معاملات کے نشیب و فراز ان کے سامنے رکھے۔ سب لوگ خانہ خدا کے دروازے کی طرف رخ کر کے کھڑے تھے جہاں عبادت گزار لوگ مصروف ِعبادت رہتے ہیں۔ جس کے قرب و جوار میں زمانہ جاہلیت میں بت رکھے جاتے تھے اور جہاں حج کے لیے آنے والے لوگ اپنے اونٹوں کو ٹھہراتے تھے۔ وہ اونٹ ہر سن و سال کے ہوتے تھے ان پر انواع و اقسام کے سامان بھی لدے ہوتے تھے۔ اور ان کی آرائش بھی گونا گوں طریقوں سے کی جاتی تھی جو انگور کے خوشوں کی طرح ایک دوسرے سے پیوست ہوتی تھی۔ میں خدا کی پناہ چاہتا ہوںہر اس شخص سے جو ہماری طرف کسی برائی کی تہمت لگائے یا کسی باطل اور غلط بات پر اصرار کرے۔ اور ہر اس دشمن سے جو ہماری عیب جوئی کرے یا دین میں ایسی بات شامل کرے جس کا ہم نے کوئی اقدام نہ کیا ہو۔

میں اس پروردگار کی پناہ چاہتا ہوںجس نے مکہ کے پہاڑوں ثور ،ثبیر،عیر،اور حرا کو اُن کی جگہ پر قائم کیا ہے اور اس نبی ِاکرم کی پناہ طلب کرتا ہوں جو کوہ ِحرا پر جاتے اور آتے ہیں۔ اور مکہ کی سرزمین پر اللہ کاجو گھر ہے اُس گھر کی اوررکن و مقام کی پناہ مانگتا ہوںاور سب سے بڑھ کر خداوند ِذوالجلال کی پناہ مانگتا ہوں۔ اور میں تما م دینی شعائر،جیسے حجر اسود ،جسے لوگ چھوتے اور چومتے ہیںاور دن رات اس سے لپٹتے رہتے ہیں۔مقام ابراہیم یعنی وہ پتھر جو اتنا نرم ہو گیاکہ جناب ابراہیم نے اپنے کھلے ہوئے پیروں کو اس پر رکھا تو اس پتھر کے اندر نقوش ِ پاثبت ہو گئے۔ وہ قدم جو صفا و مروہ کے درمیان اٹھائے جاتے ہیں،جہاں اس وقت ہر قسم کی تصویریں نظر آتی تھیں۔ اور وہ تمام لوگ جو نذر کر کے یا بغیر نذر کر کے خانہ خدا کا حج کرنے سواریوں پر یا پیدل آتے ہیں۔ اور عرفات کی وہ بلند جگہ جہاں دینی پیشوا کھڑا ہو کر خطبہ دیتا ہے۔ اور اس کی وہ وادیاں اور نشیب جو پانی کی گزرگاہ ہیں۔ اور حاجیوں کا ٩ذی الحجہ کو شام کے وقت تک عرفات کی پہاڑیوں پر وقوف کرنا۔ جہاں وہ اونٹنیوں پر ٹھہرے رہتے ہیں۔خدا کی بارگاہ میں اتنی تیزی سے قربانی کرتے ہیںجیسے کوئی شخص بارش سے بھاگ رہا ہو۔ اور اس منیٰ کے اندر یہ لوگ بڑے شیطان کے پاس پہنچ کر کنکریوں سے اس کے سر پر ضرب لگاتے ہیں۔

سیدنا ابوطالب نے کس خوبصورتی سے حج کے ان تمام ارکان کو اپنے رشحات ِمطہرہ میں سموتے شعائر ِاسلام کی اہمیت آشکار فرمائی ہے ۔اس کے بعد آپ قریش کے ان دو قبائل کا ذکر کرتے ہیں ،جنہوں نے بنی ہاشم کے خلاف ترک ِمواصلات کا عہد و پیمان کیا؛
جُمرات کے پاس رات کے وقت جب حجاج وہاں سے گزر رہے تھے بنی کندہ اور بنی بکر بن وائل۔ دو حلیفوں نے باہمی مشاورت کے بعدایک مضبوط عہد و پیمان کیااور اس کے لیے ہر قسم کے وسائل کام میں لائے۔ اور انہوں نے یہ بھی طے کیا کہ اسے گندم گوں نیزے اور تلواریں ہی تو ڑسکتی ہیں۔ اور خوفناک شمشیر زنی ہی ختم کر سکتی ہے ا ور وہ
لوگ اپنے بہادروں کے اردگرد اس طرح تیزی سے چل رہے تھے جیسے تیزرفتار سواری چلتی ہے۔
اس کے بعد سیدنا ابوطالب ،تمام لوگوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ اب جب کہ قریش کے قبائل نے ہمارے خلاف تحریک ِعدم ِتعاون کا فیصلہ کر ہی لیا ہے؛

کیا اس کے بعد بھی کوئی عذر باقی رہتا ہے اور دنیاوی طور سے کسی کی پناہ لینے والے کے لیے پناہ کی جگہ رہ گئی ہے۔ کیا کوئی انصاف پسند ایسانہیںرہ گیا جو خدا سے ڈرے اور ان لوگوں کو سمجھائے کہ رسول ِخداکو اذیت نہ دیں۔ ہمارے دشمنوں کی اطاعت اور ہماری بھرپور مخالفت کی جارہی ہے بلکہ یہ لوگ توچاہتے ہیںکہ ہمیں مکہ سے نکال دیا جائے اور ترک وکابل کے دروازے بھی ہم پر بند کر دیے جائیں۔ نزدیک و دور کی سر زمین ہمارے لیے تنگ کر دی جائے لیکن رب ِکعبہ کی قسم !یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم لوگ مکہ چھوڑدیں، قریش کے تمام ارادے لغو اور بیکار ہیں۔ خدا کی قسم!یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہم رسول خداکاساتھ چھوڑدیںبلکہ ہم تو ان کی حمایت میں تم سے تلواروںاور نیزوں سے مقابلہ کریں گے۔ ہم ان کی مدد و نصرت کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کی نظروں کے سامنے جان دے دیں اور اپنے اہل و عیال سے جدا ہو جائیں۔ اور ہمارے مرنے کے بعد بھی ایسے لوگ اٹھیںگے جو اسلحوں میں ڈوبے ہوئے ہوں گے اور سیل ِرواںکی طرح تم پر چھا جائیں گے۔ یہاں تک کہ کینہ پرور لوگوں کے کینوں کو اپنے نیزوں کے ذریعے ختم کر دیںگے اور دشمن منہ کے بل زمین پر گر پڑیںگے۔ اور خدا کی قسم! میری نگاہیں دیکھ رہی ہیںکہ عنقریب ہماری تلواریںصنادید ِ قریش سے ٹکرانے والی ہیں۔ اور ہماری یہ تلواریںایسے بہادروں کے ہاتھوں میں ہوں گی جو شہاب ِثاقب کی طرح دشمن پہ ٹوٹ پڑیںگے۔حق و حقیقت کی حمایت کرنے والے اور شجاع ہوںگے۔ صنادید ِ عرب کے ساتھ ہمارے یہ مقابلے اتنے طویل ہوں گے کہ دن مہینوں میں،مہینے کامل سال میں تبدیل ہوں گے اور ایک سال کے بعد دوسرا سال آ جائے گا۔ یاد رکھو!چاہے کچھ ہوجائے ہم لوگ اپنے نبی کونہیں چھوڑسکتے

کیونکہ قوم کا اپنے عالی وقار سید و سردار کو چھوڑنا تونہایت بری بات ہے۔ اور سےّ دوسردار بھی ایسا نبی ِمکرمۖ، درخشاں چہرے والاکہ جس کے رخِ زیبا کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کی جاتی ہے۔جو یتیموں کی پناہ گاہ اور بیوائوں کا والی وارث ہے۔ بنی ہاشم کے ستم رسیدہ افراد اسی کی پناہ چاہتے ہیںکیونکہ وہ ان کے لیے اللہ کی ایک بڑی نعمت اوربہت بڑا احسان ہے۔ اور جہاںتک اُسید اور اس کے خاندان کے طرز ِعمل اور بائیکاٹ کا تعلق ہے تو میری جان کی قسم!ان لوگوں نے ہماری عداوت میںوہ اقدام کیا ہے کہ پوری قوم سے کاٹ کر گویا کھانے والوں کے لیے ہمیں لقمہ بنا دیا ہے۔ جیسا کہ سبیع بن خالد اور نوفل بن خویلد جیسے شیطان صفت لوگوںسے ہمیں اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا،یہ سب لوگ منحرف ہیں،کوئی بھی حسن ِسلوک پر آمادہ نہیں ۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ان لوگوں سے ہماری مڈبھیڑہوگئی اور خدا نے موقع دیا تو ہم بھی ان لوگوں سے بھرپوربدلہ لیںگے۔اسی طرح ابو عمروْ،قرظہ بن عبد عمروْ بھی مسلسل ہمارے ساتھ دشمنی کرتا ہے اور اس کی پوری کوشش یہی ہے کہ ہم اپنے جانوروں پر بیٹھ کر یہاں سے چلے جائیں۔ یہ شخص صبح و شام باتیں کرتا ہے ،ہمارے پاس آتا بھی ہے پھر بھی دھوکہ بازی کرتا ہے۔ قسم کھا کرہم سے کہتا ہے کہ دھوکہ نہیں دے گا لیکن پھر بھی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے اور اسے کوئی شرم بھی نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری عداوت کی بنا پر اس کی نگاہوں میںمکہ سے لے کر عراق و شام تک کی زمینیں تنگ ہو چکی ہیں۔ اے لوگو!ابو ولیدعتبہ بن ربیعہ سے دریافت کرو کہ تم جو ایک دھوکہ باز کی طرح مسلسل ہمارے خلاف کوششیںکرتے رہتے ہو ، تمہاری ان باتوں کا ہمارے لیے کیا نتیجہ نکلا؟ جبکہ تم ایک صائب ِرائے انسان سمجھے جاتے تھے اور ہم سے ناواقف نہیںتھے۔ اے عتبہ!خدا کے لیے ہمارے خلاف کینہ پروروں، حاسدوں، جھوٹوں،عداوت رکھنے والوں اور دغابازوں کی بات مت سنو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر تم نے ان لوگوں کو نہ روکااور یہ اسی روش پہ چلتے رہے تو ہم اور تم کسی بڑے معرکے میںآمنے سامنے نظر آئیںگے۔ اور ابوسفیان تو اپنے غرور و تکبر کی وجہ سے ہم بنی ہاشم کے پاس سے یوں منہ موڑ کر گزرجاتا ہے جیسے وہ یمن کا کوئی بہت بڑا آدمی ہے۔

کبھی وہ نجد کی طرف بھاگتاہے کبھی اپنے کنوئوں کی طرف تا کہ لوگوں کو ہمارے خلاف ورغلائے لیکن اسے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ ہم اس سے غافل ہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ برائی سے غفلت نہیں کی جا سکتی اور دشمن کی عداوت بھی واضح ہے لہٰذاحق وباطل میں اس سے بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔انبوہ ِقریش !جس نے ہمارا مقاطعہ کیا ہے تم سب مل کر ہم لوگوں پر حملہ آور ہو جائوتب بھی ہمیں کوئی پرواہ نہیںہے اور نہ تم ہمیںکوئی نقصان پہنچا سکتے ہوبلکہ تمہارا حملہ کرنا ایسا ہو گاجیسے تیز ہوا بارش کے ساتھ کسی پر حملہ آور ہو جائے۔ اس وقت صورت ِحال یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے خود کو شفیق و مہربان کے انداز میں پیش کر رہے ہیںجبکہ ان کے دلوں میں عداوت چھپی ہوئی ہے۔ اے مطعم!تم آج ہم سے کنارہ کشی کر رہے ہولیکن جب تم ایک اندوہناک پریشانی میںپڑے تھے تو ہم نے تم سے کنارہ کشی نہیں کی ۔ اور نہ اس دن تمہارا ساتھ چھوڑا تھا جب لوگ بڑی تعداد میںتمہارے خلاف اکٹھے ہوئے تھے اور سخت دشمنی پر آمادہ تھے۔ اے مطعم!لوگوں نے تمہیں اپنے پھندے میںگرفتار کر لیا ہے جبکہ تم مجھے اچھی طرح پہچانتے ہو کہ جب تک زندہ ہوں مغلوب نہیں ہو سکتا۔ بنی عبدالشمس اور بنی نوفل نے ہمارے خلاف جو برااقدام کیا ہے خداوند ِعالم بہت جلدانہیں اس کی سخت سزا دے گا۔ اور اس کی سزا میزان ِ عدل کے مطابق ہو گی جس میں کوئی کمی نہیں ہو گی جسے دیکھ کر خود ان کا نفس گواہی دے گاکہ یہ حق ہے۔ اور وہ لوگ تو بہت کم عقل ہیںجنہوں نے صرف ہماری عداوت کی بنا پر بنی خلف اور بنی غیطلہ کو ہم سے منحرف کر دیا ہے۔ جبکہ ہم لوگ خاندان ِبنی ہاشم کے اعلیٰ ترین افراد ہیںاور قصی جیسے صاحب ِکمالات کی اولاد ہیںجن کی عظمت زمانہ قدیم سے تسلیم شدہ ہے۔ حاجیوں کو سیراب کرنے کی ذمہ داری بھی ہمارے پاس رہی ہے اور قریش وعرب کے درمیان ہمیشہ ہم ہی لوگ بلند مرتبہ رہے ہیں۔ اور اب جولوگ ہمارے خلاف ایک دوسرے سے عہد و پیمان کر رہے ہیںکینہ و عداوت کا اظہار کر رہے ہیںاور خونریزی کی باتیں کر رہے ہیںیہ صرف چندقبیلوں کی شرارت ہے۔ بت پرست بنی امیہ! جو ہماری دشمنی میں پاگل ہو گئے ہیں،بنی جُمعجو قیس بن عاقل کے غلام اور بے حیثیت لوگ ہیں۔

بنو سہم اور بنومخزوم ،جو ہم سے روگرداں ہیںاور فتنہ پرور اور اوباش لوگوں کو اکٹھا کر کے ہماری عداوت پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔ اور بنی لوئی بن غالب کے کچھ نکمے ا فرادجنہیںسرداران ِقریش نے ہمیں اذیت پہنچانے کے لیے بھیج دیا ہے۔ اور جہاں تک بنی نفیل کے خاندان کاتعلق ہے تو ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ بنی معد کے جو لوگ بھی زمین پر چل رہے ہیں اُن میں سب سے زیادہ بد سرشت یہی بنی نفیل ہیں۔ لیکن اے گروہِ عبد ِمناف!تم قوم کے بہترین افراد ہو،لہٰذا اپنے معاملات میں غلط اور برے لوگوں کو شریک نہ کرو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر توفیق الٰہی تمہارے شامل ِحال نہ ہوئی اور تمہارے حالات درست نہ ہوئے تو تمہارے درمیان بھی بنی وائل جیسے حالات رونما ہو سکتے ہیںجن کی اولاد آپس میں ہی لڑ پڑی تھی۔ میری جان کی قسم !تم لوگ کمزوری دکھا رہے ہواور نقصان دہ راہوں پر چل رہے ہو۔ ماضی میں تو تم ایک ظرف کے ایندھن تھے ،اب تو مختلف ظروف کے ایندھن بنتے جا رہے ہو۔ اے عبد ِمناف کے خاندان کے وہ لوگ ، جو لوگوں کی ناراضگی ،ہمارا ساتھ چھوڑنے اور ہمیں شعب میں محصور کر دینے کے باوجود ہمارا ساتھ دے رہے ہولائق ِ تبریک ہو۔ اگر کسی قوم کو اہل ِحق کا ساتھ دینے کی بنا پر خوشیاں حاصل ہوئی ہیں اور ایسا بکثرت ہوا ہے تو یاد رکھو کہ تم لوگوں نے جو حسن ِسلوک کیا ہے اس کا فیض تمہیں عنقریب حاصل ہو گا۔

قُصی یعنی قریش کے لوگوں کو بتا دو کہ ہمارا دین یقیناپھیلے گااور ان لوگوں کو یہ بھی بتا دو کہ جو ہم سے الگ رہے گا رسوا ہو گا۔ لیکن انہیں اطمینان دلا دو کہ اگر جناب قُصی کے خاندان پر مصیبت کی کوئی رات آئی تو جس طرح انہوں نے ہمارا ساتھ چھوڑا ہے ہم ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اور اگر کوئی ان کے گھروں میں شمشیر زنی کرتا ہوا داخل ہو جائے تو ہم ان کی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہوئے نظرآئیں گے۔ اگر اس وقت کعب بن لوئی کے خاندان کے لوگ ہماری دشمنی میں اکٹھے ہو گئے ہیں تو ایک نہ ایک دن اُن میں پھوٹ بھی پڑے گی۔ اور اگر اس خا ندان کوماضی میں بہت بڑا شرف و مجد حاصل رہا ہے تو پیغمبراکرم کی مخالفت کی بنا پر ایک روز یہ لوگ ذلیل و خوار بھی ہوں گے۔ ہمارے وہ سب دوست اور ننھیالی رشتہ دار جن سے ہمیںتوقعات تھیں،انجام کار بے فائدہ ثابت ہوئے۔ سوائے کلاب بن مرہ کے ایک خاندان کے جو اس بات سے پاک ہیں کہ انہوں نے ہمیں اذیت پہنچائی ہو یا ساتھ چھوڑدیا ہو۔ اے شیروں کی اولاد!جس وقت لوگوں کی زبانیں حق کا ساتھ دینے کے لیے کھلنے پر آمادہ نہ ہوں تم لوگ اپنی آنکھیں بند نہ رکھنا۔ بہترین راست گو بھانجہ زُہیر(زُھَیْربن ابی اُمَیَّةْبن مغیرة مخزومی،فرزند ِ عَاتِکَةْبنت ِعبدالمطلب و برادرِام المومنین ام سلمہ،جنہوںنے بنی ہاشم کے خلاف میثاق ِقریش کی بھرپورمخالفت کی) ہے جو دشمنوں کے خلاف شمشیربے نیام ہے۔

وہ بڑے جوانمردوں سے بڑھ کر جوانمرد وسردار ہے اور حسب و نسب کے لحاظ سے بھی عالی قدر بلند مرتبہ ہے۔ خدا کی قسم ! مجھے حضرت محمدمصطفٰی ۖ سے بے پناہ محبت ہے۔ان کی اور ان کے تایازاد بھائیوں علی و جعفر کی الفت میرے دل میںرچی ہے کیونکہ یہ دونوں ہر وقت حضور ِ اکرم ۖ پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ میں رسول ِخدامحمد مصطفٰی ۖ کی مدد و نصرت میںثابت قدم ہوںاور ضرورت پڑے گی تو ان کی حمایت و نصرت کرتے ہوئے ان کے دشمنوں سے نیزوں اور دیگر ساز و سامان ِحرب کے ساتھ مقابلہ کروں گا۔ پروردگار ِعالم کی قسم !ان کی ذات ہمیشہ سے سر چشمہء جمال و کمال رہی ہے اورہر محبت کرنے والے کے لیے وہ باعث ِعزت ہیں۔ تمام دنیا کے انسانوں میں ان جیسا کون ہے جس سے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہوں؟اور فضل و کمال کون ساہے جس سے ان کا موازنہ کیا جا سکے۔ صاحب ِعقل و دانش ،منبع ِعدل و انصاف ،حلیم و بردبار، ہمیشہ یادِ خدا میں مشغول رہنے والے اور اس سے محبت کرنے والے۔ خداوند ِعالم اپنی مدد و نصرت کے ذریعہ سے ان کی تائید کرنے والا ہے۔اور انہوں نے ایسا دین پیش کیا ہے جو برحق ہے اور قائم رہنے والا ہے۔
سیدنا ابو طالب کے یہ جملے ،اسی حقیقت ِکبریٰ کا اعلان کر رہے ہیںکَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیج، اَللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر ۖ ہی آخر کار غالب رہیںگے۔58:21

دنیا والے بھی اس بات کو خوب جانتے ہیںکہ میرے بھتیجے محمد ۖ نے کبھی ان لوگوں سے کوئی غلط بات نہیں کی اور نہ وہ لغو بات کہہ سکتے ہیں۔ ان کے خاندان کے لوگ بھی معزز و بلند مرتبہ ہیںبزدل و کمزور نہیںہیں۔اور اپنے عالی وقارآبائواجداد کے ذریعہ سے ان لوگوں نے شرف پایا ہے۔ جو لوگ بھی محمد کی مخالفت کر رہے ہیںہم لوگ ان سب کو مار بھگائیں گے۔ان کا شیرازہ منتشر کر دیںگے اور ہر بغاوت و جہالت کرنے والے کی حسرت کو خاک میں ملا دیںگے۔ بنی ہاشم اور مطےَّبین کے جوانمرد آبدار تلواروں کی مانند ہیں۔ جب یہ جوان شمشیر زنی کریں گے تو پھاڑکھانے والے شیروں کی طرح دشمنوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ اور ہم لوگ تو ایسے کریم اور عالیمرتبت شخصیتوںکی نسل سے ہیںجن سے نسبت عمائد ِعالم کے لیے باعث ِ فخر ہے۔کینہ پرور لوگوں کو عنقریب پتہ چل جائے گا کہ کون کامیاب اور سربلند رہنے والا ہے۔ اور دیکھیںمقابلے کا وقت آتا ہے تو کون ہمارے مقابلے پر تلوار اٹھاتا ہے اور ہم میں سے کون اس مقابلے میںاس طرح سرخرو ہوتاہے کہ کائنات میں اس کی حمد و ثنا ہو رہی ہے۔ حضرت محمد مصطفٰی ۖتو شرف کے اعتبار سے اتنے بلند ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا آدمی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور میری چشم ِبصیرت تو یہ دیکھ رہی ہے کہ مکہ کے یہ تمام لوگ جو آج لغوطریقہ سے ان کی مخالفت کر رہے ہیں،کل محمد ۖان کے قائد و رہنما ہوںگے۔ میںان کی حمایت میںاپنی جان کی بازی لگاتا رہوں گا اور بڑ ے سے بڑے جغادریوں اور چوہدریوںکا مقابلہ کرتا رہوں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خداوند ِعالم حضرت محمد مصطفٰی ۖکے پرچم کو بلند رکھے گا انہیںدنیا کے اندر بھی رفعت و برتری عطا کرے گا اور روزِقیامت بھی وہی سربلند رہیں گے۔

قریش کا وفد سیدنا ابو طالب کی بارگاہ میں پیش ہوااور حضور ۖ کے لیے مختلف پیشکش کیںکہ آپۖپیغام ِخدا کی تبلیغ بند کر دیں۔یہ سن کر سیدنا ابوطالب نے سب کو دھتکار دیااور فرمایا؛
یہ لوگ مجھ سے مطالبہ کر رہے ہیںکہ میںاس ذات ِگرامی کی مدد ونصرت ترک کر دوںجوہدایت کا پیغام لے کر آیا ہے۔ اور یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیںکہ میں اپنے نورِنظر،احمد مجتبیٰ ۖ کوان کے سپرد کر دوںاور انکے کسی فرزند کی حفاظت و نصرت کر کے اسے دنیا کے مصائب و آلام سے بچائوںاور اپنے فرزند ِارجمند کو ان کے سپرد کر کے مصائب و آلام سے دوچا ر ہو جانے دوں۔بخدا یہ کبھی نہیں ہو سکے گا اور اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی میں پرواہ نہیں کر سکتا۔ میں نے ان لوگوں کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ اللہ جومیرا رب ہے وہی میرا مددگار ہے اور قریش میں سے لوئی بن غالب کی اولاد میں سے جو بھی رسول ِخداۖ کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرے گا ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔ خداکی قسم !یہ مشرکین و کفار قریش اپنے جتھوں کے باوجوداس وقت تک آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ،جب تک میں زمین کے اندر دفن نہ کر دیا جائوں۔ آپ اپنی بات زور و شور سے کہئے، کوئی آپ کو گزند نہیں پہنچا سکتا،آپۖ خوش رہیں، آپ کی آنکھیں ٹھنڈ ی رہیں۔ آپ ۖ نے مجھے دعوت دی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ مخلص بھی ہیں،سچے بھی اور امانتدار بھی۔ اور آپ ۖ نے تو ایسا دین پیش کیا ہے جس کے بارے میںمجھے علم ہے کہ یہ کائنات کے ادیان و مذاہب کے درمیان سب سے اچھا دین ہے۔
قریش مکہ کی سنگین مخالفت کے دوران فرمایا؛

رات کے آخری حصہ میںجو فکر و اندیشہ مجھے لاحق ہوتا تھا وہ بہت سخت تھاکیونکہ قوم پراگندہ ہو چکی تھی اور ہمارے اپنے قریش ہی کے لوگ ہمارے ساتھ ناانصافی کر رہے تھے۔ اور لوئی بن غالب کے لوگوں میںمجھے یہ نظر آرہا ہے کہ اخلاقی بیماریاںبہت زیادہ پھیل چکی ہیںیہاںتک کہ ان کے صحیح لوگ بھی بیمار ہو رہے ہیں۔ جب قوم کے درمیان دعوت ِالٰہی پیش کرنے والا کھڑاہواتو سب اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو کرچیخ وپکار کرنے لگے۔ لیکن جو شخص لوگوں کو خداوند ِعالم کی وحدانیت کی طرف بلا رہا ہے اس کا گناہ کیا ہے؟جبکہ دین قدیم ہے وہ بھی جانا پہچانا ہے۔ اس وقت جبکہ ہر طرف برائیاں عام ہو چکی ہیں،جوشخص نیکی و تقویٰ اور پرہیزگاری کی دعوت دے رہا ہے اس نے کوئی ظلم تو نہیں کیا ہے۔ اور یہ لوگ وہ ہیں جن کا اس سے پہلے بھی تجربہ کیا جا چکا ہے اور جو شخص تجربہ کی منزل سے نہیں گزراوہ نہیں سمجھ سکتا۔ ان لوگوں کویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حلف نامہ کی جو دستاویزدرحقیقت اپنی عداوت اور تنگ نظری کی وجہ سے ان لوگوں نے تیار کی تھی اس میں بھی ان کے لیے نصیحت کا کافی سامان موجود ہے۔ خداوند عالم نے کفار ِقریش کی نافرمانی اور عناد پہ مبنی تحریر کو مٹا دیااور یہ لوگ محمد ۖجیسے صادق القول سے جو عداوت کر رہے تھے یہ اپنی دشمنی پر جمے رہے۔ چنانچہ انہوں نے جو باتیں کہی تھیںسب لغو ثابت ہو گئیںاور یہ بات واضح ہے کہ جو شخص بھی حق کے خلاف کوئی بات ایجاد کرے گا اس کا جھوٹ واضح ہو جائے گا۔ عبداللہ کے فرزند ارجمند ۖہمارے درمیان صادق اور امین رہے ہیںاور قوم کی تمام ناراضگیوںکے باوجود وہی بات سچ ہوئی جو انہوں نے فرمائی تھی۔ تم لوگ کبھی یہ وہم و گما ن بھی نہ کرناکہ ہم لوگ محمد ۖ کا ساتھ چھوڑ دیں گے چاہے ہم میں سے کوئی نزدیک ہو یا دور۔

سَتَمْنَعَہُ مِنَّا ید ھَاشِمِیَّةُ، مُرَکَّبُھَا فِیْ الْمَجْدِ خَیْرُ مُرَکَّبٍ
وَیَنْصُرُہُ اللّٰہُ الَّذِیْ ھُوَ رَبُّہُ، بِاَھْلِ الْعُقَیْرِ اَوْ بِسُکَّانِ یَثْرَبٍ
فَلاَ وَالَّذِْ یَخْدِْ لَہُ کُلَّ مُرْتَمٍ،طَلِیْحٍ بِجَنْبِیْ نَخْلَةٍ فَالْمُحَصَّبٍ
یَمِیْناً صَدَقْنَا اللّٰہُ فِیْھَا وَلَمْ نَکُنْ، لِنَحْلِفَ بُطْلاً بِالْعَتِیْقِ الْمُحَجَّبٍ
نُفَارِقُہُ حَتّٰی نُصَرَّعَ حَوْلَہُ، وَمَا بالُ تَکْذِیْبِ الْنَّبِِّ الْمُقَرَّبٍ
فَیَا قَوْمَنَا لاَ تَظْلَمُوْنَا فَاِنَّنَا، متی مَا نَخَفْ ظُلْمَ الْعَشِیْرَةِ نَغْضَبٍ
وَکُفُّوْا اِلَیْکُمْ مِنْ فُضُوْلِ حُلُوْمِکُمْ، وَلاَ تَذْھِبُوْا مَنْ رَایِکُمْ کُلَّ مَذْھَبٍ
وَلاَ تَبْدُوْنَا بِالْظَّلاَمَةِ وَالاذِیْ، فَنَجْزِیْکُمُو ضِعْفاً مَعَ الْاُمِّ وَالْاَبٍ

خاندان ِبنی ہاشم کے مضبوط وتوانا بازو ان کا بھرپور دفاع کریںگے جنہیںشرف و بزرگی میںاس ذات ِپروردگار نے سنوارا ہے جوبہترین سنوارنے اور آراستہ کرنے والا ہے۔ اور پھر یہ کہ خداوند ِعالم جو ان کا پالنے والا ہے وہی دنیا کے لوگوں کو حضور کی طرف راغب کرے گاپھرعقیر( بحرین کاایک قصبہ) کے لوگ یا مدینہ منورہ کے باشندے ان کا بھر پورساتھ دیں گے۔ ذات واجب کی قسم!مکہ معظمہ کے قرب و جوار کی وادیاں،محصب کا علاقہ اور دور دراز کی جگہیںان کے سامنے سرنگوں ہوں گی اور ہم لوگ ایسے نہیں ہیںکہ خانہ کعبہ بیت اللہ کی بلاوجہ قسم کھائیں اور جب ہم قسم کھاتے ہیں تو پروردگارِ عالم اس کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔ خدا کی قسم !ہم حضور کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے یہاں تک کہ ان کی حمایت و نصرت کرتے ہوئے قتل کر دیے جائیںاور ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ مقرب نبی ِ اکرم کوجھٹلاتے ہیں۔ اے قریش!ہم پر ظلم و ستم مت کروکیونکہ اگر ہمیںقبیلہ کے ظلم سے ڈرایا گیاتو ہم غضبناک ہو جائیں گے۔ اپنے لغو و باطل خیالات اور بے جا امیدیں ختم کر دو،اِدھر اُدھر کی باتیں مت سوچو۔ ہم پر ظلم کی ابتدا مت کرواور نہ ہمیںاذیت پہنچانے میںپہل کرو۔کیونکہ اگر تم نے ہمارے ساتھ ظلم و ستم جاری رکھاتو چاہے تم ہمارے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو،ہم تمہیں دُھرامزا چکھائیں گے۔

ایک دفعہ کفار کے بڑ ے سرداروںکے بگڑے تیور دیکھ کر دوٹوک فرمایا؛
رب کعبہ کی قسم !یہ نہیں ہوسکتاکہ ہم لوگ حضور نبی کریم ۖکا ساتھ چھوڑدیں،چاہے ہمیں اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ شعب ِابی طالب میںرہنا پڑے۔
حضور پرنور کی زیارت کرتے فرمایا کرتے؛
اَنْتَ الْاَمِیْنُ ، اَمِیْنُ اللّٰہِ لاَ کَذِبْ
وَالْصَّادِقَ الْقَوْلِ لاَ لَھْو وَّ لاَ لَعِبْ
اَنتَ الرّسُوْلُ، رَسُوْلُ اللہِ نَعْلَمُہُ
عَلَیْکَ َنزَلَ مِنْ ذِالْعِزَّةِالْکِتٰبْ

لاریب آپ امین ہیں،امانت دار ِخداوند ِتعالیٰ ہیں اور بات کے سچے ہیں کبھی آپ کو غیر ضروری وبے معنی گفتگو کرتے نہیں پایا
ہم جانتے ہیںآپۖاللہ کے برحق رسول ہیںجنہیںخداوند ِعالم نے مبعوث بہ رسالت فرمایاہے اور اس صاحب ِعزت وجلال رب کی جانب سے آپۖپر کتاب نازل ہوئی ہے۔
پھرفرماتے ؛
اَلَمْ تَعْلَمُوْااَنّاوَجَدْنَامُحَمّداً
نَبِیّاً کَمُوْسٰی خُطَّ فِیْ اَوَّلِ الْکُتُبْ

کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے محمد کوویسا ہی نبی پایا جیسے کہ موسیٰ تھے اور یہ بات سب سے پہلے نوشتہ میں لکھی ہوئی ہے ۔
ٰ ان افکار میں نقیب ِمصطفٰی کے گہرے مشاہدے ،انبیائے ماسبق وادیان ِعالم کا عمیق مطالعہ ،ایمان ِبرحق موجزن ہے ۔سرکار ِدوعالم ۖسے مخاطب ہو کر فرمایا کرتے ؛
اَنْتَ الْاَمِیْنُ مُحَمَّدٍ، قَرْماَعَزُّمُسَوَّدْ
لِمُسَوّدِیْنَ اَطَائِبٍ،کَرَمُوْاوطَابَ الْمُوْلَدْ
آپ امین ہیں ،محمد ہیں ،سب سے زیادہ عزت دار سردار ہیں ۔آپ کریم الاصل ،پاک دامن سرداروں کے فرزند ہیں ،آپ کی جائے ولادت بہت اچھی ہے
اَنْتَ الْسَّعِیْدُمِنَ الْسُّعُوْدِ، یُکَنِّفَنْکَ الْاَسْعَدْ
مِنْ بَعْدِآدَمَ لَمْ یَزَلْ، فِیْنَاوَصِیّمُّرْشِدْ
آپ نیک بختوں کے سعید فرزند ہیں اور سعادت مند ہی آپ پر سایہ کیے ہیں ۔آدم کے بعد سے لے کر اب تک ہمارے خاندان میں کوئی نہ کوئی ہدایت کرنے والا وصی برابرچلاآتا ہے
فَلَقَدْعَرَفْتُکَ صَادِقاً، بالْقَوْلِ لاَتَتَفَنَّدْ
مَازلْتَ تَنْطِقُ بالْصَّوَابِ، وَاَنْتَ طِفْلاَمْرَدْ

میں آپ کو خوب پہچانتا ہوں کہ آپ کی ہر بات سچی ہے ،خلاف ِعقل نہیں اور آپ تو اس وقت سے جبکہ آپ بچے تھے حق ہی حق بات کہتے رہے
ایک جگہ فرماتے ہیں؛میںپیکر ِ ہمت وجرأت اخولا کی جدائی پر گریہ کر رہا ہوںجس کے ایام بہت لائق تعریف تھے اور میںوہ معزز انسان ہوںجس نے سر پر خودپہن رکھا ہے اور میدان جنگ میں
بھرپور شمشیر زنی کرنے والا ہوں۔ اپنے عظیم المرتبت صاحبزادے ،امیر المو منین سیدناعلی کو خصوصی تاکید کرتے فرمایا؛ نورِنظر!یاد رکھوکہ سب سے زیادہ پراعتماد بات یہی ہے کہ حضرت محمد ۖ کے دامن سے وابستہ رہا جائے۔لہٰذاتم ہمیشہ ان کے ساتھ رہواور جس طرح سے بھی ہو سکے ، ان کی مدد و نصرت کرتے رہو۔
کفار و مشرکین کی بڑھتی ہوئی مخالفت کے پیش نظر اپنے عزم و ہمت اور متوقع حالات کامقابلہ کرنے پر آمادہ فرماتے ہیں؛
یا رسول اللہ ۖ!چاہے جس قسم کی بھی آزمائش پیش آئے میرا ہاتھ آپۖ کے ہاتھ میںہو گااور اگر کوئی بھی معرکہ پیش آیاتو میںآپ کوبچانے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دوںگا۔
نَبِیّ اَتَاہُ الْوَحِِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہْ
فَمَنْ قَالَ: لاَ یُقَرِّعُ بِھَاسِنَ نَادِمْ

نبی ِبرحق کہ جن پر اُن کے رب تعالیٰ کی جانب سے وحی کانزول ہوتاہے ،پس جو بھی اس کی تکذیب کرے وہ خجل وخوار رہے گا
حضور نبی کریم ۖکا اشعارِ ابوطالب کو یاد کرنا

عہد ِنبوت میں ایک دفعہ شدید قحط پڑا۔ایک اعرابی حاضر ہوکرعرض گذار ہوا،”یا رسول اللہ ۖ!خشک سالی کے باعث ہم بھی ہلاک ہو گئے اور ہمارے مویشی بھی ہلاک ہو گئے۔” حضور ۖ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ پیشترکہ دست ِمبارک نیچے آتے،بارش شروع ہوگئی اور اس کی بوندیںریش مبارک تر کر کے نیچے ٹپکنے لگیں۔پورا ہفتہ بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ کوپھر اسی اعرابی نے آکر بارش کی کثرت سے ہلاکت کی شکایت کی ۔حضور ۖنے اشارہ فرمایاتو اسی وقت بادل چھٹ گئے اوربارش رک گئی۔حضور ۖنے تبسم فرمایا کہ دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔پھر فرمایا،لَوْاَدْرَکَ اَبُوْطَالِبٍ ھٰذَا الْیَوْمَ لَسَرَّہُ،”اگر ابوطالب ،زندہ ہوتے تو یہ منظر دیکھ کر ان کی نگاہوں میں طراوت ہوتی،کون ہے جو ان کا شعر سنائے”،اصحاب نے عرض کی،کَأنَّکَ تُرِیْدُ قَوْلِہ، وَاَبْےَضَ ےُسْتَسْقَی الْغَمَامَ بِوَجْھِہ، کیاحضور کی مراد،آپ کے یہ اشعار ہیں،اُن کی سفید رنگت،رخ انور کا واسطہ دے کربارش کی بھیک مانگی جاتی ہے۔حضور ۖنے فرمایا بے شک؛

وَاَبْےَضَ ےُسْتَسْقٰی الْغَمَامَ بِِوَجْھِہ
ثِمَالَ الْےَتَامیٰ عِصْمَةً لِلْاَرَامِلِ
ےَلُوْزُ بِہِ الْھَلاَّکُ مِنْ اٰلِ ھَاشِمٍ
فَھُمْ عِنْدَہُ فِْ نِعْمَةٍ وَ فَوَاضِلِ

جو ایسے روشن چہرے والے ہیں کہ ان کے رخ ِا نورکا واسطہ دے کر بارش کی التجاکی جاتی ہے ۔وہ یتیموںکی پناہ اور بیوائوں کی عصمت کے محافظ ہیں۔خاندان ِہاشم کے مسکین ، ہلاک ہونے سے ان کے دامن ِکرم میںپناہ لیتے ہیں۔پس وہ ان کے پاس نازونعم میں بلند مراتب سے مالامال ہیں۔
حاصل ِمطالعہ
حَمَّاہُ اَبُوْنَا اَبُوْطَالِبٍ وَاَسْلَمَ وَالْنَّاسُ لَمْ تُسْلِمْ
وَقَدْکَانَ یُکْتِمُ اِیْمَانِہ وَاَمَّ الْوَلاَئِ فَلَمْ یَکْتَمْ

ہمارے جد ابوطالب نے اسلام لاکراُن کی حمایت کی جب کہ لوگ ان کے اسلام کوجھٹلا رہے ہیں۔ وہ اُن کے ایمان کو تو چھپا سکتے ہیں مگر الفت ومحبت کا بحر بیکراں کیسے چھپائیں گے؟

Makhdoom Ali Abbas

Makhdoom Ali Abbas

نقیب الاشراف جناب ڈاکٹرمخدوم پیر سید علی عباس شاہ
پیرآف منڈی بہاء الدین
darbarshareef@gmail.com