تحریر: علی عمران شاہین
پنجاب اسمبلی کی جانب سے ”تحفظ خواتین بل” کی منظوری اور اسے باقاعدہ قانونی شکل دینے کے بعد ملک بھر کی دینی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے جو ردعمل دیکھنے میں آیا ہے، اس نے ملک و بیرون ملک بیٹھے لبرل و سیکولر حلقوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ اس بل میں جس طرح سے حقوق خواتین کے نام پر خاندانی نظام کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی ہے اس کی ہر کوئی مذمت کرنے پر مجبور ہے۔ بل کا حیران کن ترین پہلو یہ ہے کہ بل خاندان سے متعلق ہے لیکن اس میں خاندانی رشتوں کا ذکر ہی نہیں کیا گیا یعنی جس طرح مغربی معاشرہ رشتوں کے تعلق اور بندھن سے آزاد ہو چکا ہے، بعینہ ہمیں اسی طرح سے آزاد کرنے کی خفیہ چال چلی گئی ہے۔ بل کے پاس ہونے اور قانون بننے کے بعد جب دینی حلقوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تو حکومتی حلقوں کو یہ بھی کہتے سنا گیا کہ ”علمائے کرام کے پاس کیا کوئی اور مسئلہ نہیں رہ گیاکہ وہ بس اس ایک مسئلہ پر متحد ہو گئے ہیں” یہ تک کہا جا رہا ہے کہ اس میں کوئی غیر اسلامی شق ہی نہیں ہے۔
پھر جب ردعمل حد سے بڑھا تو حکومت نے دینی حلقوں، مذہبی قائدین اور ممتاز علمائے کرام کو خطوط، اشتہارات اور بیانات کے ذریعے سے دعوت دینا شروع کی کہ وہ بتائیں کہ اس بل میں کیا کچھ غیر اسلامی ہے تاکہ اسے تبدیل کیا جائے۔ یہ حکومتی بیان ہی اس بات کی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا تھا۔ اگر حکومت دینی حلقوں اور علمائے کرام کے حوالے سے غلطی پر تھی تو اسے چاہئے تھا کہ وہ بل کی منظوری سے پہلے رابطہ و رہنمائی لینے کا کام کرتی لیکن سودی نظام کی طرح پہلے یہ قانون قوم کی گردنوں پر سوار کر کے بعد میں سوال بھیج دیا گیا۔ یعنی اب جیسے سودی نظام ہماری گردنوں پر ایک زمانے سے سوار ہے اور دینی حلقے اسے مسترد کر کے عدالتوں میں مقدمات لڑتے، بیانات دیتے اور اسی کا حل پیش کرتے رہیں، لگتا ہے کہ ویسا ہی اب اس بل پر بھی ہو گا۔ جیسے سودی نظام اپنی جگہ توانا کھڑا ہے اور کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا، حکومت کا خیال یہی ہے کہ بعد کے ردعمل، بیانات یا متبادل نعروں سے کچھ نہیں ہونے والا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے ہمارا معاملہ صرف اس ایک بل تک محدود نہیں ہے۔ ملک کو لبرل، سیکولر اور روشن خیال بنانے کا عمل گزشتہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔ ملکی تعلیمی نصاب سے اسلامی تعلیمات کو خارج کیا گیا تو سبھی حلقے خاموش رہے۔ اب صورتحال یہاں تک پہنچی ہے کہ سیرت النبیۖ، سیرت صحابہ کرام و امہات المومنین تک کو نصاب سے خارج کر کے اس کی جگہ نیلسن منڈیلا، راہبہ ٹریسا، ملالہ جیسے مضامین شامل کر دیئے گئے ہیں۔ اسلامیات کا تعلیمی نصاب میں حصہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور جو موجود ہے وہ بھی انگریزی میں منتقل کر کے اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ اس کی حیثیت بھی نہ ہونے جیسی ہے۔ دنیا میں اسلام کے ہر پہلو پر سب سے زیادہ اردو زبان میں لکھا گیا جبکہ انگریزی جیسی بدیسی زبان جو دو صدیوں کی بے پناہ کاوش کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں معمولی جگہ نہیں بنا سکی، اردو میڈیم کو ختم کر کے اول جماعت سے نظام تعلیم انگریزی میڈیم کر دیا گیا ہے جو اس ملک کی اساس پر بہت بڑا حملہ ہے۔ اس حوالے سے کسی کو نہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے ارشادات یاد آئے اور نہ آئین پاکستان… حکومت کے حریص سبھی جانتے ہیں کہ غیر ملکی آقائوں کی خوشنودی کیسے حاصل کرنی ہے۔ انگریزی نظام تعلیم قوم کو جاہل اور دین سے بے بہرہ رکھنے کی بہت بڑی سازش تھی جسے ہمارے لوگ اب بھی سمجھ نہیں پا رہے اور نہ اس کی کوئی بات کرتا نظر آتا ہے۔
معاملہ آگے بڑھا تو دینی جماعتوں اور علمائے کرام کو بدنام کرنے کا سلسلہ چل نکلا۔ دہشت گردی کے الزامات مدارس اور دینی حلقوں پر لگنا شروع ہوئے حالانکہ بیشتر دہشت گرد دینی مدارس کے نہیں بلکہ جدید عصری تعلیمی اداروں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ نکلے۔ وہی ملک کہ جس کے میڈیا میں خواتین کے حوالے سے کچھ عرصہ پہلے تک انتہائی شرم و حیا کا معاملہ روا رکھا جاتا تھا، اب اس کے تعلیمی اداروں میں ناچ گانے اور ڈانس کروا کر لڑکیوں، لڑکوں کی انتہائی بیہودہ ویڈیوز اور تصاویر چلائی اور شائع کی جاتی ہیں۔ میڈیا آزاد ہندوانہ ثقافت دکھا رہا ہے لیکن کسی کو پروا نہیں۔ اس ملک میں جماعة الدعوة اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے، تبلیغی جماعت کے تعلیمی اداروں میں داخلے پر پابندی لگتی ہے، بیرونی دبائو پر ممتاز حسین قادری کو پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے۔ جنازہ و احتجاج دکھانے پر پابندی عائد کر کے احتجاجیوں کو پیٹا جاتا ہے اور لبرل ازم اور سیکولرازم کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ ہمارا ملک دنیا کا شاید وہ عجیب و غریب ملک بن چکا ہے کہ جس کی اسمبلیوں میں جبراً خواتین کا بھاری کوٹہ مختص کرنے کے بعد مخلوط ماحول کو پروان چڑھانے کے لئے اب ہر محکمہ اور ہر مقام پر مردوں سے بڑھ کر عورتوں کو تعینات کر کے چادر و چاردیواری کے ہر تقدس کو پامال کر کے آزادانہ ماحول قائم کیا جا رہا ہے۔
عوامی حلقے سخت اضطراب میں ہیں کہ ہمارا ماحول و معاشرہ کتنی تیزی سے تبدیل کیا جا رہا ہے اور کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے۔ صورتحال صرف یہیں تک محدود نہیں ہے ۔ حدود آرڈیننس ختم کروانے اور نت نئے بل منظور کروانے والی غیر ملکی طاقتیں حرمت رسولۖ کے دفاع کے لئے بنائے گئے قوانین تک کو ختم کروانے پر تلی ہوئی ہیں اور جس طرح ان کے ہاں توہین رسالت کے واقعات ایک تماشا بن چکے ہیں، ویسے ہی (اللہ نہ کرے) ہمارے ہاں بھی رونما ہونا شروع ہو جائیں۔ ان سنگین ترین حالات میں اگر آج بھی دینی قیادت و جماعتیں اور عوام اکٹھے ہو کر اس ملک کے نظریہ اسلام کو بچانے کے لئے آگے نہیں آتے تو (اللہ نہ کرے) کہ وقت کہیں ہاتھوں سے نکل ہی نہ جائے۔ دشمن بہت چالاک، ہوشیار، مستعد و متحرک ہے، سو اگر مقابلہ کی قوت اس سے بہتر طور پر کھڑی نہ ہو پائی تو حالات سنبھالنا مشکل نہیں، ناممکن ہو جائے گا۔ ملک کا دینی تشخص انچ بائی انچ اجاڑا جا رہا ہو تو وقت ڈھیلا رہنے کا نہیں بلکہ مستعد ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کی اساس اسلام ہے۔ سرزمین پاکستان سے ساری دنیا کی اسلام دشمن طاقتیں آج بھی تھرتھر کانپتی ہیں کہ اس نے کتنی تہذیبوں اور نظاموں کو روندا ہے۔ اس ملک کے اس نظریہ اسلام اور اس کی سرحدات و جغرافیہ کی حفاظت کی ذمہ داری دینی قوتوں پر عائد ہوتی ہے کہ جنہیں اب اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکات پر جمع ہونا ہو گا۔ اگر ایک دینی طبقے کے خلاف کارروائی ہو تو دوسرے کو خوش ہونے کے بجائے فکر کرنا چاہئے کہ معاملہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ اس سرزمین پر تحریک ختم نبوت چلی جس نے قادیانیوں کا قلع قمع کر کے رکھ دیا۔
جب تحریک نظام مصطفیۖ چلی تھی تو ملک کے اسلامی تشخص کو مٹانے کے حوالے سے اقدامات کہیں زیادہ تھے، مقابل قوتیں کہیں زیادہ طاقتور تھیں لیکن جب اسلامیان پاکستان یک زبان ویک جان ہوئے تو حالات نے فوری پلٹا کھایا اور ملک کا نظریہ اسلام محفوظ ہو گیا۔ آج پھر سے اسی جذبے کو زندہ کرنے اور ملک کو اسلامی نظریے پر چلانے اور مضبوط و مستحکم کر کے اس کی دنیا میں مخصوص پہچان قائم رکھنے کی ضمانت ہے۔ ہمارے اسلاف کا طریقہ کار دعوت تھا، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا تھا۔ یہی روش و رویہ اختیار کر کے بغیر کسی معمولی نقصان کے، ہم نے آگے بڑھنا ہے کیونکہ نظریہ اسلام رکھنے والے ہی اس ملک کے اصل محافظ ہیں۔ اب وقت سونے یا سوچنے کا نہیں، قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کا ہے، اس کے بعد ہی منزل ہماری منتظر ہے۔
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ:0321-4646375