لیجیے صاحب! ’مجلس‘ تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے۔ اب آپ اعتراض کریں گے کہ مجلس منعقد کی جاتی ہے، بنائی نہیں جاتی، مگر جس مجلس کی بات ہم کر رہے ہیں وہ بنائی گئی بلکہ دُہرائی گئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ تاریخ خود کو دُہراتی ہے، لیکن ہمارے ہاں سیاست کا تو یہ مشغلہ ہے۔
سیاست داں اپنے اقوال و اعمال کی تکرار کرکے پُرانی تاریخ کو نیا روپ دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اِس کوشش میں کبھی کبھی اپنی ہی صورت کو بگاڑ دیتے ہیں۔ نوازشریف صاحب کی مثال سامنے کی ہے، جب حکومت میں آئے تو سبق کی طرح یاد کرکے اپنے افعال دُہرائے، نتیجہ یہ کہ اب مقدمات کے بوجھ سے کمر دُہری ہوگئی ہے۔ اپنے الطاف بھائی کو بھی الفاظ دُہرانے کا شوق ہے، چناں چہ کارکنوں اور حامیوں کو ہر کچھ دن بعد اُن کی باسی تقریر سننا پڑتی تھی، آخر پکانے والے کے یہ الفاظ پک پک کر سَڑ گئے اور اُنہیں مضرِ صحت قرار دے کر اُن کے سماعتوں میں انڈیلنے پر پابندی لگادی گئی۔
دُہرانے کی کیفیت مذہبی جماعتوں پر طاری ہونے کے باعث متحدہ مجلس عمل کا نزول ہوچکا ہے۔ پانچ مذہبی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی)، تحریک جعفریہ اور جمعیت اہلِ حدیث (ساجد میر) اِس اتحاد کا حصہ ہوں گی۔
یہ اتحاد جب 2002ء میں تولد ہوا تو انتخابات کی آمد آمد تھی، مگر ظاہر ہے مذہبی جماعتوں کے پاک طینت قائدین انتخابات جیتنے جیسے دنیاوی فائدے کے لیے ایک تھوڑی ہوئے تھے۔ ہوس اقتدار جیسی نجاست پاکیزہ جبہ و دستار کو چھو بھی کیسے سکتی ہے! توبہ توبہ ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔
درحقیقت ہوا یہ تھا کہ یہ مذہبی جماعتیں امریکا سے لڑنے نکلی تھیں، نیت اور ارادہ یہ تھا کہ امریکی فوج کو افغانستان سے نکال باہر کریں گے، جس کے بعد بیت المقدس آزاد کرانا تھا، مسلم دنیا سے امریکا کے فوجی اڈے ختم کرنا تھے، راستے میں کشمیر آزاد کراتے ہوئے اسرائیل جاکر اُسے نیست و نابود کرنا تھا، لیکن ابھی اتحاد کرکے چلے ہی تھے کہ سرِراہ ملنے والے ایک دیہاتی نے اُنہیں تیز رفتاری سے جاتے دیکھ کر پوچھا، ’مولبی صاب! کہاں چلے؟‘ انہوں نے تُنک کر جواب دیا، ’مسلمانوں کے دشمنوں کو مٹانے جارہے ہیں، تُو بھی ساتھ چل۔‘ وہ بولا، ’میں تو نہ جاوں، مجھے تو اپنے ملک میں ہونے والی انتخابی لڑائی دیکھنی ہے۔‘ تب اِن سادہ لوح بزرگوں کو پتا چلا کہ ملک میں بھی کوئی لڑائی ہورہی ہے۔ اُنہوں نے سوچا کہ چلو پہلے لڑائی کی مشق کرلیں، پھر جنگ پر جاویں گے۔ اب پہلے اِس دنگل میں کودے، اورجب پورے صوبے کی حکومت ہاتھ آگئی، تو سوچا حکومت چلانے کی ذمے داری چھوڑ کر جانا فرائض سے غفلت شمار ہوگا، جو عصیاں ہے، سو حکومت چلانے میں مگن ہوگئے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ اِن مذہبی جماعتوں نے ٹوٹے ہوئے اتحاد کو جوڑ جاڑ کر کھڑا کرنے کا قصد یہ سوچ کر کیا کہ ’ہم چھوٹے چھوٹے لڑکے ہیں پر کام کریں گے بڑے بڑے، جتنے بھی لڑاکا لڑکے ہیں ہم سب کو نیک بنائیں گے، ہم چاروں طرف لے جائیں گے، ’اسلام‘ نے جو پیغام دیا، بے کار گزاریں عمر بھلا کیوں اپنے گھر میں پڑے پڑے۔‘ دیکھیے کتنا نیک اور کیسا اعلیٰ مقصد تھا۔ اِنہیں اچانک خبر ملی کہ ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں، تو سوچا چلو الیکشن بھی لڑلیں، کیوں کہ یہ بھی ایک عمل ہے اور مجلس عمل ہر عمل کرے گی، کیوں کہ عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی۔
تو آپ کو یقین رکھنا چاہیے کہ متحدہ مجلس عمل اِس بار بھی انتخابی عمل میں شرکت اِسے بس ایک عمل سمجھتے ہوئے کرے گی، ورنہ درحقیقت وہ کچھ اور اعمال کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔ اِن میں سے دو اعمال اِس اتحاد میں شامل جمیعت اہلِ حدیث کے سربراہ علامہ ساجد میر نے یہ بیان کیے ہیں، ’اسلامی اقدار اور مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی۔‘
اب بعض بدتمیز یہ گستاخانہ سوال کریں گے کہ حضور پُرنور! اگر اسلامی اقدار اور مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی اب کریں گے تو اِس سے پہلے تک آپ کس کی ترجمانی کر رہے تھے؟ اور یہ ترجمانی تو پہلے کی طرح الگ الگ رہ کر بھی کی جاسکتی تھی، اِس کے لیے مجلس برپا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ہمارے خیال میں اِس سوال کا بڑا سیدھا، مدبرانہ اور مہذبانہ جواب ہے، ’تَینوں کی، ساڈی مرضی۔‘
مجلس عمل کا ایک اور عمل امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق کے مطابق ’ظلم اور جبر کے مقابلے میں متبادل نظام لانا‘ ہے۔ جیسا کہ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ ظلم اور جبر کا نظام حال ہی میں نافذ ہوا ہے، اِس سے پہلے ملک میں عدل کی حکم رانی تھی، شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے، بلکہ بعض دفعہ تو ساتھ چائے پیتے بھی پائے گئے۔ انصاف کی یہ فراوانی دیکھ کر مذہبی جماعتوں کے راہنما فارغ بیٹھے سوچتے رہتے تھے کہ یہی صورتِ حال رہی تو ہم بیٹھے بیٹھے بے عمل ہوجائیں گے، پھر بڑے ہوکر مجلس عمل کیسے بنائیں گے؟ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مملکتِ خداداد میں ظلم اور جبر کا دور دورہ ہوگیا اور اِن راہنماوں کو مجلسِ عمل بناکر میدان عمل میں اترنے کا موقع مل گیا۔
سراج الحق نے یہ بھی فرمایا کہ،’ہمارا مقصد ہم خیال لوگوں کو جمع کرنا ہے، کیوں کہ اِس اتحاد کے اعلیٰ و ارفعٰ مقاصد ہیں۔‘ لیجیے، ایک عمل اور بڑھ گیا یعنی ہم خیال لوگوں کو جمع کرنا۔ واقعی اتنے سارے اعمال کرنا اکیلے بندے کے بس میں نہیں، اِسی لیے یہ حضرات متحد ہوئے ہیں اور عمل کاری کی ابتداء فاٹا کے معاملے پر حتمی فیصلے سے کی جائے گی۔
ہم اِسے اِن مذہبی جماعتوں کے زعما کی کسرِ نفسی سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے اتنے سارے بیان کردہ اور پوشیدہ اعمال کی ذمے داری اپنے سر لینے کے باوجود اپنے اتحاد کا نام ’متحدہ مجلس عمل‘ رکھا ہے، حالاں کہ اِس کا نام ’متحدہ مجلسِ عملیات‘ ہونا چاہیے۔ ہماری مانیں تو اِس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اتحاد کو ہمارا تجویز کردہ نام دے دیں، تاکہ عوام کو پتا چلے کہ یہ حضرات ملک و قوم اور دین و امت کی خاطر کتنی ساری ذمے داریاں اپنے سر لے چکے ہیں۔
یوں بھی ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ مشکلات میں عاملوں اور عملیات کا سہارا لیتا ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہ طبقہ اِس اتحاد کا پکا سچا ووٹ بینک ثابت ہوگا، لیکن مشکل تب پیش آئے گی جب متحدہ مجلس عملیات کے قائدین ایسے لوگوں سے ووٹ مانگیں گے اور جواب ملے گا،’بابا! پہلے اولاد نہیں کوئی تعویز لکھ دیں، ساس ظالم ہے کوئی عمل بتا دیں، شادی نہیں ہورہی پڑھ کے پھونک دیں‘، ایسے میں انکار ممکن نہیں ہوگا اور یہ قائدین تعویذ لکھتے اور پھونکتے مارتے نظر آئیں گے۔