تحریر : شاز ملک
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کے احساسات کے پھول رویوں کی گرم اور جھلستی دھوپ میں کمھلا جاتے ہیں جذبے دشت درد میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتے ہیں جیسے خشک پتے شجر سے ٹوٹ کر زمین بوس ہو جاتے ہیں جذبات لہجوں کے سرد گلشیرس تلے دب جاتے ہیں اور الفاظ لہجوں کے سرد تنفس کو سہ نہیں پاتے اورچپ کی خنکی اوڑھ کر خاموش ہو جاتے ہیں الفاظ خاموشی کی دبیز تہ تلے دفن ہو جاتے ہیں ، اور پھر زندگی چپ کے دائروں میں سمٹ جاتی ہے ، مگر پھر یوں بھی ہوتا ہے کے یہی خاموشی دھیرے دھیرے احساسات کا ہاتھ پکڑ کر گفتگو کا آغاز کرتی ہے اندھیروں کے پردے چاک کرتی ہے مبہم روشنی کے دایرے میں لا کر کھڑا کر دیتی ہے جہاں زندگی پھر سے دھیرے دھیرے آنکھیں ملتی ہویی اٹھتی ہے تو اپنے ارد گرد خاموشی کے سحر کو محسوس کرتی ہے ایسا سحر جو الفاظ کی حد سے باہر ہے جو سوچ سمجھ کے پیمانوں میں سما نہیں سکتا بلکل ایسے جیسے دن کی نسبت رات پنے اندر ایک فسوں و سحر چھپایے ہے
تاروں بھرا آسمان اور چاند قدرت کی صنا یی کا عجیب شاہکار ہیں انکے باہمی ربط میں جہاں خاموشیوں کا احساس جانفزا ہوتا ہے وہیں یہ احساس بھی ہوتا ہے کے قدرت کی خاموشیاں بھی بول بول کر اپنی موجودگی کا پتا دیتی ہیں سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی ہیں ، سیاہ شب چاند کا ٹیکا لگا کرجب تاروں کی چنر اوڑھتی ہے تو ہر شے سحر زدہ ہو جاتی ہے خاموشی جب ہوا کے پروں پر سوار ہو کرساری فضایوں سے سرگوشیاں کرتی ہے تو فضایوں میں چپ اک سحر گھولتی ہے سمندر ماہ اکامل کی چاہ سے مخمور ہوتا ہے
آسمان سمندر کے آیئنے میں جب اپنا عکس دیکھتا ہے تو سمندرکے وجود میں اپنے عکس سے دن کی روشنی میں نیلاہٹ تو شب کی تاریکیوں میں سیاہیاں گھول دیتا ہے اور پھر چاند کادودھیا عکس اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے سمندر کی شوریدہ سر لہریں شور مچاتے ہویے آسمان پر ماہ کامل کو چھونے کی ناکام کوشش کرتی ہیں مگر صرف چاند کے عکس کو اپنے اندر جذب کر کے اور پھر محبت کا نوحہ سناتی ہویی ساحل سمندر پر دم توڑ دیتی ہیں ساحل کی پیاسی ریت لہروں کے درد کو خاموشی سے اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اورعجیب بات یہ ہے کے خاموشی سے اپنے اندر جذب کیا ھوا زندگی کا درد اسے نرم کردیتا ہے
مطلب یہ کے زندگی کی سچایئوں کا درد جب انسان اپنی روح کی گہرایی میں اپنے من کے سمندر میں جذب کر لیتا ہے تو اسکے دل کی سختی نرمی میں بدل جاتی ہے خاموشی کا درد بھی یونہی انسان کے دل کو نرمی بخش دیتا ہے خاموشی احساس و شعور کے بند در پر دستک دیتی ہے اور پھر وجدان کی بند کھڑکیوں کو ہولے سے کھولتی ہے تو پھر عرفان کی روشنی سے روح منور ہوتی ہے خاموشی عرفان ہے وجدان سے آگاہی کا وجود سے ذات تک کی رسایی کا ذریعہ ہے من کی دنیا کھوجنے کا ذریعہ ہے جب تک انسان بولتا رہتا ہے اسے آگہی نہیں ملتی ذات کا عرفان نہیں ملتا ، وقت کے ٹوٹے پروں پرڈولتی ہے خاموشی کو گر سنو تو بولتی ہے
جب انسان خاموش ہوتا ہے تو چپ اسکے وجود کا احاطہ کر لیتی ہے تب خاموشیاں بولتی ہیں انسان خاموشی کو محسوس کرنا شروع کرتا ہے تو اس سے ہمکلام ہونے لگتا ہے اسے اپنی ذات میں جھانکنے کا ادراک ہوتا ہے اپنی روح کے ہونے کا احساس ہوتا ہے
خود اپنی ذات میں ایک وسیع و عریض دنیا کو دیکھتا ہے خاموشی درحقیقت مراقبہ کی قسم ہے دھیان و گیاں کی وہ سیڑھی ہے جس سے آگے ذھن و دل ذات اور روح ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتے ہیں پھر ہر شے پرت در پرت کھلنے لگتی ہے کیوں کے
خاموشی راز بھی ہے ہمراز بھی ہے
زندگی کے سروں کا اک انوکھا ساز بھی ہے
تحریر : شاز ملک