ممبئی: پاکستان کا ہمسائیہ ملک بھارت آج کل اپنے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ اور دھمکی پر دھمکی دے رہا ہے۔ بھارت میں ان دنوں جنگی جنون چھایا ہوا ہے عالمی شہرت یافتہ ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے سماجی میڈیا پر محتاط ردعمل دیا ہے۔
ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کا کہنا تھا کہ یہ پوسٹ ان لوگوں کیلئے ہے۔ جو سوچتے ہیں کہ مشہور ہستیوں کے طور پر ہمیں کسی حملہ کی مذمت ٹویٹر اور انسٹاگرام پر کرنی چاہئے ۔ یہ ثابت کرنے کیلئے ہم محب وطن ہیں اور ہمیں ملک کی پروا ہے ، کیوں ۔ آپ میں سے کچھ ایسے مایوس لوگ ہیں جو نفرت پھیلانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑ رہے ہیں مجھے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کیلئے میڈیا کی ضرورت نہیں ہے ۔ ثانیہ مرزا نے مزید لکھا کہ میں اپنے ملک کیلئے کھیلتی ہوں اور ملک کی خدمت کرتی ہوں ، میں اپنے سی آر پی ایف کے جوانوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑی ہوں ۔ یہ ہمارے لیے سیاہ دن تھا، دعا ہے یہ دن ہمیں دوبارہ نہ دیکھنا پڑے۔کئی بھارتیوں کو ان کی امن کی اپیل پسند آئی اور انہوں نے روایتی انداز میں انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا ہے۔تفصیلات کے مطابق ٹینس سٹار ثانیہ مرزا نے پلوامہ حملے کے معاملے پر معروف شخصیات پر تنقید کرنے والے بھارتیوں کو کھری کھری سنادیں۔اپنے پیغام میں ثانیہ مرزا نے ان لوگوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جو سلیبریٹیز کو سوشل میڈیا پر پلوامہ حملے کے حوالے سے پیغامات جاری نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنارہے تھے۔
ثانیہ مرزا نے کہا کہ میری یہ پوسٹ ان لوگوں کیلئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سلیبریٹیز کو ایک حملے کی ٹوئٹر ، انسٹاگرام سمیت سوشل میڈیا پر مذمت کرنی چاہیے ، کیوں کیونکہ ہم معروف شخصیات ہیں اور بہت سے لوگ ہیجان کا شکار ہیں جنہیں اپنا غصہ نکالنے کا کوئی موقع نہیں ملتا تو وہ مزید نفرت پھیلانا شروع کردیتے ہیں ۔ ثانیہ مرزا نے کہا کہ مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ میں عوام میں آکر دہشتگرد حملے کی مذمت کروں، چھت پر چڑھ کر چیخیں ماروں یا سوشل میڈیا پر یہ کہتی پھروں کہ ہم دہشتگردی کے خلاف ہیں، بلاشبہ ہم دہشتگردی اور دہشتگردی پھیلانے والوں کے خلاف ہیں۔ٹینس سٹار نے کہا کہ میں اپنے ملک کیلئے کھیلتی ہوں ، اس کیلئے پسینہ بہاتی ہوں، میرا اپنے ملک کی خدمت کرنے کا یہی طریقہ ہے ، میرا دل اپنے سی آر پی ایف کے جوانوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ ہے ، 14 فروری پورے بھارت کیلئے سیاہ دن تھا اور میں امید کرتی ہوں کہ ہمیں دوبارہ یہ دن نہ دیکھنا پڑے، میں کہتی ہوں کہ نہ تو ہم اس حملے کو بھول سکتے ہیں اور نہ ہی معاف کرسکتے ہیں لیکن میں پھر بھی نفرت پھیلانے کی بجائے امن کی دعا کروں گی۔