سوچا ہی نہ تھا کہ پچھلے تیس برس میں زندگی کتنی آسان ہو جائے گی۔ میری نسل آخری پری ڈیجیٹل ایج نسل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دو ہزار چالیس یا پچاس کے کسی ایک دن آپ کی کلائی پر بندھے گھڑی کے سائز کی ایک ہزار ٹیٹرا بائٹ طاقت والی کمپیوٹر اسکرین پر یہ خبر ضرور چمکے گی کہ آج پری ڈیجیٹل دور کے آخری انسان جان سنو کا بفلو میں انتقال ہوگیا۔عین ممکن ہے کوئی عجائب گھر جان سنو کے جسد کو حنوط کر کے کانچ کے شو کیس میں رکھ دے۔بالکل ویسے جیسے قاہرہ کے عجائب گھر میں نو فراعینِ مصر کی لاشیں مصالحہ لگا کر رکھی گئی ہیں۔بالکل ایسے جیسے کوہ الپس کی اونچائیوں میں برف تلے دبے پتھر کے زمانے کے انسان کی محفوظ لاش کو محفوظ کر لیا گیا ہے۔تاکہ آج کی نسل اپنے پرکھوںکے بارے میں مزید جان سکے۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سوچا ہی نہ تھا کہ پچھلے تیس برس میں زندگی کتنی آسان ہو جائے گی۔بلکہ زیادہ بہتر یہ ہوگا اگر میں کہوں کہ کتنی بدل جائے گی۔زندگی بدلتی ہے تو اقدار بھی بدل جاتی ہیں۔جیسے میری نسل ڈیجیٹل دور کی جزوی اور میرے بچے کلی تبدیلی کے دور میں جی رہے ہیں۔
مثلاً جب پری ڈیجیٹل ایج میں اگر کوئی رشتے دار مر جاتا تو ہمیں چل کے جانا پڑتا۔انتظامات میں ہاتھ بٹانا پڑتا تھا۔رونے والوں کو اور پھر میت کو کاندھا پیش کرنا پڑتا۔قبرستان سے واپسی پر دعائے مغفرت کے بعد نیاز چکھنے کے بعد کہیں سرگوشی میں رخصت طلب کی جاتی۔ اب کتنا آسان ہوگیا ہے۔فیس بک یا ایس ایم ایس یا وٹس ایپ کے ذریعے کسی کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو ہم رئیل ٹائم میں اناللہ ٹائپ کر کے ورثا کے غم میں برابر کے شریک ہو جاتے ہیں۔مگر اناللہ تو ہم جیسے بڈھے توتے لکھتے ہیں۔آج کل ریسٹ ان پیس زیادہ ٹرینڈی اور آر آئی پی تو بہت ہی کول اور ڈینڈی ہے۔
ہم پری ڈیجیٹل ایج والوں کو سالگرہ میں چل کے جانا پڑتا تھا اور وہ بھی تحفہ لے کر۔عید پر کارڈ خرید کے پوسٹ کرنا پڑتا تھا اور یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔عید سے پہلے سجنے والے بیسیوں اسٹالز پر جا کے کارڈ پسند کر کے انھیں لفافے میں ڈال کر گیلے لبوں سے گوند سے آلودہ لفافے بند کر کے سپردِ ڈاک کرنا پڑتا۔یہ رسم بھی تھی اور سماجی مجبوری بھی۔ اب کتنا آسان ہے۔سالگرہ کا ڈیجیٹل کیک، کھلوے اور ہیپی برتھ ڈے کا جگل سب کچھ ایک کلک میں یہاں سے وہاں۔نہ بھیجنے والے کو کوئی خلش نہ وصول کرنے والے کے دل میں میل۔
پری ڈیجیٹل ایج میں تازہ اور فحش لطیفے تب نصیب ہوتے تھے جب بے تکلف دوست آپس میں مل بیٹھتے تھے۔پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ قہقہوں کے درمیان کب دوپہر سے شام ہوگئی۔آج چونکہ ’’ٹائم از منی‘‘ ہے لہذا کسی بھی اچھے جملے یا لطیفے پر کھل کے قہقہہ لگانا بھی وقت ضایع کرنے جیسا لگتا ہے۔اتنے وقت میں آدمی چار پیسے اور کمانے کے بارے میں کیوں نہ سوچے۔اب ایل او ایل (لول)کا زمانہ ہے۔ بلکہ لول لکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ایک ہنستے مسکراتے کارٹونی چہرے کا ٹمپلٹ جواباً بھیج دینا کافی ہے۔آپ بھی خوش لطیفہ بھیجنے والا بھی شاداں۔
پری ڈیجیٹل ایج میں کوئی کالم یا مضمون یا تبصرہ پڑھ کے ہم جیسے کھوسٹ اسے پسند یا مسترد کرتے تھے۔پڑھنے اور پھر اسے سمجھنے اور پھر لطف اندوز یا جز بز ہونے میں کچھ وقت لگتا تھا۔مگر ڈیجیٹل ایج میں ہر آدمی کی رفتارِ پڑھت روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز ہے۔ادھر میرا کالم فیس بک پر لگا نہیں اور صرف تین سیکنڈ بعد پہلا لائیک آیا نہیں۔میں حیران ہو جاتا ہوں کہ لائک کرنے والا کتنا لائق ہے کہ تین سیکنڈ میں پڑھا سمجھا اور رائے بھی دے دی۔میری نسل کے لوگ دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کیا ہم ایسا کر سکتے تھے؟ پھر بھی ہم ڈیجیٹل نسل کو کوسنے سے باز نہیں آتے کہ کم بخت پڑھتے نہیں۔
پری ڈیجیٹل ایج میں سے ہر ایک کے محض چار پانچ ہی قریبی دوست اور دس بارہ جاننے والے ہوا کرتے تھے۔کوئی پچاس اجنبی ایسے بھی تھے جو ہمارے اور ہم ان کے چہرہ شناس ہوتے تھے۔راہ چلتے یا بس میں مل گئے تو مسکرا کے دیکھ لیا۔اب اتنا کشٹ اٹھانے اور بھلمنساہٹ دکھانے کی ضرورت ہی نہیں۔بس کسی بھی سوشل سائٹ پر ایک اکاؤنٹ بنانا ہے۔دو چار مہینے میں چار لاکھ دوست بن جائیں گے۔جو ڈیجیٹلی وفادار ہوں گے، ڈیجیٹلی محبت کریں گے اور ان میں سے ہزاروں تو وقت پڑنے پر آپ کے ساتھ کھڑے ہونے حتی کہ جان نچھاور کرنے کا بھی وچن دیں گے۔لیکن جب سے پرویز مشرف کے ساتھ ڈیجیٹل دوستوں نے ہاتھ کیا ہے اس کے بعد کم ازکم ہم جیسے تو خاصے محتاط ہو گئے ہیں۔ غالبؔ ہم سے بھی زیادہ سیانا نکلا۔اس نے پونے دو سو برس پہلے ہی سوشل میڈیا کی دوستیوں پے تین حرف بھیج دیے تھے۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
پری ڈیجیٹل ایج میں ہمیں بھیس یا بہروپ بدلنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔اب کوئی مسئلہ ہی نہیں۔نذیر صاحب جب بیمار پڑے اور انھوں نے فیس بک پر لکھا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں تو پورے چوبیس گھنٹے میں صرف تین لوگوں نے لکھا ارے کیا ہوا؟ اپنا خیال رکھئے، گیٹ ویل سون وغیرہ۔نذیر صاحب کا دل ٹوٹ گیا۔انھوں نے اسی وقت نیلوفر زیرو زیرو سیون کے نام سے ایک ٹویٹ اور ایک فیس بک اکاؤنٹ بنایا اور اس پر لکھا آج میری طبیعت ٹھیک نہیں۔صرف تین گھنٹے میں دو سو بہتر لائکس، ایک سو نو عیادتی ون لائنرز اور پانچ سو اکیس ٹویٹس آئے اور وہ بھی ہیش ٹیگ نیلوفر از ناٹ ویل کے ساتھ۔کون کہتا ہے ہمارے معاشرے میں عورت کی قدر نہیں؟ اب نذیر صاحب کو جب بھی بیمار ہونا ہو نیلوفر کے نام سے ہی ہوتے ہیں۔
پری ڈیجیٹل ایج میں ہمیں فزیکلی منہ در منہ لڑائی کرنا پڑتی تھی۔ہاتھوں سے طرح طرح کے ناقابلِ بیان اشارے کرتے ہوئے گالیاں دینا پڑتی تھی اور اس کے نتیجے میں مار کٹائی اور زخما زخمی ہونے اور تھانے کچہری کی بھی نوبت آ جاتی تھی۔آج کتنی سہولت ہے آپ کسی بھی فرضی نام مثلاً راکٹ چار سو بیس رکھ کے بغیر سامنے آئے جس کو جو گالی دینا چاہیں ڈیجیٹلی دے سکتے ہیں۔حتیٰ کہ قتل بھی کروا سکتے ہیں۔
دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پے کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بس اب کچھ ایسا ہوجائے کہ بھوک لگے تو آدمی ڈیجیٹل بریانی و برگر کھا کے نچنت ہو جائے اور پیاس لگے تو گوگل سے ڈرنک ڈاؤن لوڈ کر لے۔جیسے آپ کتابیں ڈاؤن لوڈ کر لیتے ہیں۔۔۔
ارے ہاں۔ہماری وفات پر آر آئی پی لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کیجیے گا کہ گوگل پر قبرستان کا نام اور ہماری قبر کا نمبر ٹائپ کیجیے گا۔جب سامنے آجائے تو ویب پیج پر دائیں جانب اوپر سے دوسرا خانہ جس پر دو پھیلے ہوئے ہاتھوں کا نشان ہیں اس پر ماؤس کا کرسر لا کے کی بورڈ پر ایف دبا دیجیے گا۔ایف فار فاتحہ۔۔۔۔ایک کلک سے آپ کا کیا جائے گا۔ہو سکتا ہے اوپر والا آپ کے طفیل ہماری مغفرت کردے۔۔۔