بد گمانی کے دامنِ شب میں
ہر لمحہ گلاب ہو کر بھی
خار ہی خار بس اُگاتا ہے…
کل کا دن کہنے کو تو عام دنوں کی طرح تھا لیکن بڑے چپکے سے میرے لیے سوچوں کے بہت سے در وا کر گیا۔ رانیہ سے ملنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ دن بھر میں بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنا بہت نارمل سی بات ہے۔ پہلی مرتبہ رانیہ مجھے ایک نجی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں کاؤنٹر پر دکھائی دی۔ اس ریسٹونٹ پر میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس میں ایسی کشش تھی کہ گاہک وہاں سے ہلنے کو تیار نہ تھے۔ ایسا بے داغ حسن کہ آنکھیں چندھیا جائیں۔ پہلی بار پڑنے والی سرسری سی نگاہ میں اس نے مجھ پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ مجھے لگا کہ اسے وہاں نہیں ہونا چاہیے، اتنے ہوش ربا حسن کی مالک ہونے کے باوجود یہ لوگوں کا ایمان متاثر کرنے کو یہاں کیوں موجود ہے؟
بہت سے دن گزرے اور اس خوبصورت ویٹرس کا خیال میرے ذہن سے محو ہوگیا لیکن درمیانی عرصے میں جب بھی کسی ریسٹورینٹ یا شاپنگ مال میں میری نظر کسی سیلز گرل پر پڑی تو مجھے اس کا خیال ضرور آتا رہا۔ نہ صرف یہ بلکہ میں نے نہایت فراخ دلی سے اس کے بارے میں اور لوگوں کو بھی بتایا، اپنی مرضی کے مفہوم و معنی کے ساتھ۔ غرضیکہ جب جب میں نے اس کے بارے میں سوچا، تب تب اپنی ناپسندیدگی کا برملا اظہار بھی کیا۔ میں لاشعوری طور پر معاشرے کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں میں سے ایک بن گئی جنہوں نے ازخود بھلائی کا بوجھ اپنے نازک کاندھوں پر اٹھا رکھا ہوتا ہے۔ حقیقت سے قطع نظر میں نے بھی اپنا فرض بھرپور طریقے سے ادا کیا۔
اسی مغلئی طرز کی حسینہ سے کل میری ملاقات بڑے ہی عجیب انداز میں ہوئی۔ ہوا کچھ یوں کہ مجھے ایک کولیگ کی عیادت کےلیے اسپتال جانا پڑا۔ وہاں سے واپسی پر راہداری سے گزرتے ہوئے میرا فون بجنے لگا۔ فون تو بیگ سے نکالتے ہوئے ہی بند ہوگیا لیکن راہداری کی دوسری جانب سے کچھ غیرمعمولی آوازوں نے میرا دھیان اپنی جانب کھینچ لیا۔ میں بے چین ہو کر تیزی سے آگے بڑھی اور سامنے کا منظر میرے ہوش اڑانے کو کافی تھا۔ ایسی جگہ پر ایسا کچھ سوچنا بھی ناممکن تھا، کم از کم میرے لیے…
نظارہ کچھ یوں تھا کہ اس حسینہ کی چوٹی ایک بڑی عمر کے شخص کے ہاتھ میں تھی اور اس کے منہ سے مغلظات کا ایک طوفان امڈ رہا تھا۔ پری کی دبی دبی سسکیاں ظالم دیو کی گالیوں کی آواز میں دب رہی تھیں۔ میں جیسے مسمریزم کے اثر سے باہر آئی اور دو قدم آگے بڑھی۔ مجھے اپنی جانب آتے دیکھ کر وہ شخص اسے بینچ پر دھکا دے کر چلتا بنا۔ پتا نہیں میں نے ایسا کیوں کیا، لیکن میں کسی انجان طاقت کے زیرِ اثر اس کا سر اپنے کندھے پر ٹکانے پر مجبور تھی۔ اس لمحے جس خود احتسابی کے عمل سے میں گزری، وہ بیان سے باہر ہے۔ اس کی خوبصورت متورم آنکھوں سے ہنوز برسات جاری تھی لیکن حبس میرے اندر بڑھتا جارہا تھا۔
ظالم دیو پری کا سوتیلا باپ تھا، سگی ماں مرچکی تھی۔ ہر دم ایک تلوار سر پر لٹک رہی تھی کہ اگر ہر مہینے ایک مخصوص رقم ہاتھ میں نہیں دی تو بیچ دی جائے گی، سودا کردیا جائے گا۔ سوتیلا باپ اسپتال میں چپڑاسی ہے اور رانیہ پر لازم ہے کہ مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ پہنچانے وہاں آئے۔ اس بار گناہ یہ ہوا تھا کہ اپنی مرضی سے تین سو روپے خرچ کرنے کی جرأت کر بیٹھی تھی۔
پچھلی رات کو سونے سے پہلے میرے ذہن میں بے انتہا شکوے موجود تھے۔
بس میں آفس جانا پڑتا ہے… کار نہیں ہے…
ڈیڑھ سال پہلے خریدا گیا موبائل پرانا ہوگیا… بچت نہیں ہورہی کہ نیا لے سکوں…
برانڈڈ پرس، جوتے، ڈریسز، جیولری… اور نہ جانے کیا کیا…
اس لمحے مجھے خود سے عجیب سی بیزاری محسوس ہوئی۔ ہم ارد گرد سے اتنے بے خبر ہو چکے ہیں کہ ہمیں خود سے زیادہ کسی کا دکھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔ میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ انسانیت ہم سے ہمارے انسان ہونے کا خراج مانگ رہی ہے… اپنے حق کےلیے کُرلا رہی ہے۔ احساس کی آکسیجن کی شدید کمی ہے، بے حسی کے کیکٹس نے محرومیت کو مزید دردناک کردیا ہے۔ ارے مدد تو خاک کرنی ہے، ہم تو جینا بھی حرام کردیتے ہیں!
وہی حسینہ اگر کسی ٹی وی سیریل میں نظر آجاتی تو میں یقین سے کہتی ہوں کہ میں اس جیسی بننے کی تمنا ضرور کرتی۔
میرا خود سے اور آپ سے سوال صرف یہ ہے کہ کیا ہم اس مہینے اپنے ذاتی خرچ میں سے صرف سے ایک جوڑے یا پرس کی خریداری ملتوی کرکے وہ رقم کسی رانیہ کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں؟
اچھا! رقم نہیں شئیر کرسکتے تو کیا کسی سے دو بول تسلی کے بول سکتے ہیں؟
اچھا وہ بھی نہیں بول سکتے! تو کیا اپنے کام سے کام رکھ سکتے ہیں؟