کراچی (ویب ڈیسک) کراچی پولیس کی تین دن تک کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کلفٹن میں باپ بیٹے کے قتل کا معمہ حالت نہیں ہوسکا جسکے باعث تفتیش بند گلی میں داخل ہوگئی ہے۔پولیس یہ جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ لاش برہنہ کیوں تھی، مقفل دروازہ کیسے کھلا اور اطلاع 30منٹ بعکیوں دی گئی؟ پہلے پولیس کو جھگڑے کی اطلاع ملی تھی، پولیس 5 افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کے ساتھ ساتھ ہر ممکن زاویے سے تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن طارق دھاریجو اور تفتیشی ٹیم کے ارکان نے جمعہ کی سہ پہر اور رات کو کافی دیر تک مقتول ڈاکٹر فصیح عثمانی کے گھر کا تفصیلی دورہ کیا۔ واردات کے بعد گھر پہنچنے والی مقتول ڈاکٹر کی اہلیہ مسز عافیہ سے تفصیلی ملاقات کی۔پولیس کے مطابق خاتون صبح ساڑھے 6 بجے گھر سے اکیلے واک کرنے کیلئے روانہ ہوئیں۔ وہ 8 بج کر 10 منٹ پر گھر واپس پہنچیں تو دہرے قتل کی واردات ہوچکی تھی، اس دوران پولیس کو جھگڑے کے دوران دو افراد کے چھری کے وار سے زخمی ہونے کی اطلاع ملی۔پولیس اس واقعہ پر پہنچی تو آٹھ بجکر 19 منٹ پر اس دوسرے واقعہ کی اطلاع ملی۔ جبکہ خاتون کی جانب سے پولیس کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ خاتون نے گھر پہنچنے کے فوری بعد پولیس کو واقعہ کی اطلاع کیوں نہیں دی؟پولیس کے مطابق مددگار پولیس کو کال 8 بجکر 40 منٹ پر کسی اور طرف سے دہرے قتل کی اطلاع دی گئی۔خاتون خانہ کے بیان کے مطابق پولیس اس گتھی کو سلجھانے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ گھر کو چھوٹا بیرونی دروازہ کھلا ہونے پر ملزم گھر کے اندر تک تو آگیا مگر اس نے گھر کے اندرونی مقفل کمرے کا دروازہ کیسے کھولا؟ ان دروازوں کے ساتھ زور آزمائی یا لاک توڑنے کی کوئی کوشش بھی سامنے نہیں آئی۔
گھر سے کوئی قیمتی چیز غائب نہیں ہوئی تو دوہرے قتل کا مقصد کیا؟پولیس کے مطابق کچھ عرصہ قبل مقتول فصیح عثمانی اور ان کی فیملی کی اسی بنگلے کی بالائی منزل پر رہائش پذیر پٹھان کرایہ داروں سے معمولی تکرار ہوئی تھی۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دہرے قتل کی وجہ یہ معمولی جھگڑا نہیں ہوسکتا۔دوسری طرف پولیس توحید کمرشل اسٹریٹ پر مقتولین کی ایک دکان کے لگ بھگ 12 لاکھ روپے کے کرایہ کی عدم ادائیگی کے معاملے پر بھی تفتیش کر رہی ہے تاہم پولیس کے مطابق میمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے کچھ رقم ادا کردی تھی بقیہ رقم کے لئے اتنا سنگین جرم سرزد کیا جاسکتا ہو یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا۔پولیس کے مطابق خاندان کا امریکا آنا جانا تھا جس کیلئے انہوں نے کچھ عرصہ قبل گھریلو ملازمہ کو کام سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد سے کوئی چوکیدار یا گھریلو ملازمہ نہیں رکھی۔ پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے لاشیں اٹھانے کے دوران سامنے آنے والے ایک اہم نکتے کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ مقتول پروفیسر کا بیٹا 22 سالہ کامران عثمانی قتل کے وقت برہنہ کیوں تھا۔؟اس سلسلے میں مقتول کی والدہ کا کہنا ہے کہ امریکی شہریت کے حامل اور اس معاشرے میں پروان چڑھنے والے ان کے صاحبزادے کی برہنہ ہوکر سونے کی بچپن کی عادت تھی۔پولیس اس نقطے سے جڑے دوسرے معاملے کی گتھی بھی سلجھانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے کہ ملزم نے مقتول کامران عثمانی کو قتل کرنے کیلئے تیز دھار آلے کے غیرمعمولی 14 سے زائد وار کیوں کیے؟ جبکہ مقتول فصیح عثمانی پر تیز دھار آلے کے محض 4 وار کئے گئے۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن طارق دھاریجو اور ان کی ٹیم کے ارکان نے شوہر اور بیٹے کے قتل کے صدمے سے دوچار خاتون آسیہ کا تفصیلی انٹرویو لیا تاہم تفتیش کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔دوسری طرف بنگلے کے اطراف سے 5 مشکوک افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جن سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔