فیمینزم تحریک کی بنیاد درست اور منطقی تھی۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں سنٹرل یورپ سے شروع ہونے والی یہ تحریک اپنے بنیادی نظریے کی سچائی کی طاقت کے بل پر پوری دنیا میں تیزی سے سرائیت کر گئی۔ مگر جس طرح سے لبرلزم اور ان تمام دوسرے نظریات، جنہوں نے جنم ہی انسانی حقوق کی برابری سے لیا، انتہا پسندی اختیار کرتے گئے۔ تقریباً ویسا ہی حال فیمینزم تحریک کا بھی ہوا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدرسوں، سکولوں، کالجز، ورک پلیس یہاں تک کہ گھروں کی چار دیواری کے اندر بھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔ یہ پریکٹیس کم و بیش ہر زمانے میں اور دنیا کے ہر ملک میں جاری ہے مگر کیا اس سب کی آڑ میں خواتین کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ جس شخص سے سکور برابر کرنا ہو، اس کے بارے میں بغیر ثبوت کے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ایک ٹویٹ کر دیا جائے؟ اس کے بعد وہ شخص ہر فورم پر تاحیات اپنی صفائیاں دیتا پھرے؟ “میرا جسم میری مرضی” اور “اپنا کھانا خود گرم کر لو” کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن کیا “می ٹو” تحریک کا مطلب یہ ہے کہ ہر عزت دار شخص کی سرعام پگڑی اچھالی جاتی رہے؟
ہو سکتا ہے میشا سچ کہہ رہی ہو اور علی ظفر نے واقعی ایسی حرکت کی ہو مگر کیا ایسے سنجیدہ مسئلے کا حل ایک “ٹویٹ” ہے؟ میشا نے جو کھیل شروع کیا ہے، اس کے اگلے مرحلے میں اب دونوں طرف سے الزام تراشی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہونے کا قوی امکان ہے جس میں کچھ لوگ علی ظفر کو پارسا تو کچھ میشا شفیع کو ایک بہادر کردار کے طور پر سامنے لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ مگر منطقی سوال یہ ہے کہ کیا ایک سپر سٹار کی پوری زندگی کی محنت سے کمائی ہوئی عزت پر بغیر کسی ثبوت کے ایک ہوائی حملہ کر کے میشا شفییع نے اپنے آپ کو عائیشہ گلالائی کی صف میں کھڑا نہیں کر لیا؟ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ اگر میشا شفیع پر کل کو کوئی ڈائریکٹر یا پروڈیوسر یہ الزام لگا دے کہ میشا نے کام کے بدلے جنسی تعلقات کی آفر کی تو میشا اپنے آپ کو کس فورم پر، کس طریقے اور کس منہ سے ڈیفینڈ کرے گی؟
آج کل یہ صورتحال ہے کہ ایک طرف اگر کوئی کسی عورت کے بارے میں متنازعہ بات تو دور کوئی ہلکی پھلکی جگت بھی کر دے تو خواتین کے حقوق کے چیمپئین اس کے خلاف واجب القتل ہونے کے فتوے دینے لگتے ہیں۔ اس کے فیملی بیک گراونڈ سے لے کر اس کی تربیت تک کو حدف تنقید بنایا جاتا ہے مگر دوسری طرف ایک خاتون سربازار کسی مرد کے کپڑے بھی اتار دے تو بھی خاتون ہی سچی اور پارسا۔
عزت اور ذلت خدا کے بعد انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے اور جب بھی ہم کسی پر کیچڑ اچھالنے کا سوچیں، ایک لمحے کے لئے رک کر یہ بھی سوچ لیں کہ وہی کیچڑ کسی نہ کسی صورت آج یا کل ہمارے اپنے منہ پر بھی واپس آ سکتا ہے۔ شطر بے مہار معاشرے کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں اور اس کی اڑ میں سیاسی، سماجی یا معاشی فائدہ اٹھانے والوں کے درمیان فرق سمجھنا چاہئیے۔ اب یہ ٹرینڈ ختم ہونا چاہئیے کہ ” میرا ٹویٹ، میری مرضی”۔