لوگوں نے مسجد کے احاطے میں اسے مار مار کر لہو لہان کر دیا تھا۔ جو آتا اسے ٹھوکر مارتا۔ کوئی اس کے منہ پر طمانچے مار رہا تھا اور کوئی اسے گریبان سے پکڑ کر جھنجوڑ رہا تھا اور وہ کسی سوکھی لکڑی کی طرح جھولتا ہوا کبھی ایک طرف گرتا کبھی دوسری جانب وہ سب کی مار کھا رہا تھا۔ اس کے منہ اور کانوں سے خون نکل رہا تھا۔
مریل، لاغر شخص کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن جونہی وہ منہ کھولتا، حاجی صاحب آگے بڑھ کر منہ پر مکا رسید کرتے ہوئے کہتے “اگوں بولنا اے؟”
اس اثنا میں مہر صاحب لات رسید کرتے اور یہ حکم صادر کرتے، “مارو اس کو خوب مارو۔ اس ناہنجار نے اللہ کے گھر سے ٹونٹی چوری کی ہے۔ ہن پتہ لگا اے۔ ٹونٹیاں کون چور ی کردا سی۔”
قریب کھڑے چوہدری صاحب نے پوچھا “ٹونٹی کتھے ہیگی اے؟”
مہر صاحب اور حاجی صاحب نے یک زبان ہو کر کہا “او تے ملی نیئں، پر شکلوں چور ای لگدا اے۔ مارو، اس کو خوب مارو۔”
کمزور شخص بولنے کے لئے جونہی منہ کھولتا۔ غصے میں بپھرا ہجوم پھر اس پر لاتیں اور مکے برسانا شروع کر دیتا اور مار کھانےوالا شخص پھر چکر ا کر گرجاتا۔
مجمع میں سے آواز آئی۔ “ایدھے مکر ویکھو۔ مارو اس کو خوب مارو۔”
مار کھانے والے کے چہرے بشرے سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کئی دنوں کا بھوکا ہو۔ چہرے پر خشخشی بال، سوجھے ہوئے آنکھوں کے پپوٹے، سر کے بڑے ہوئے بے ہنگم بال اور پھٹا ہوا لباس اس کی غربت کی گواہی دے رہے تھے۔
اس سے پہلے مسجد میں منبر پر براجمان مولوی صاحب چیخ چیخ کر خطبہ دے رہے تھے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بھوکے کو روٹی دے اور اس کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے۔ مولوی صاحب یہ بھی بیان کر رہے تھے کہ صاحب ثروت لوگوں پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ مالی طور پر کمزور عزیز و اقارب، بہن بھائیوں اور اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھیں۔ حاجی صاحب اور مہر صاحب اگلی صف میں بیٹھے مولوی صاحب کے اس بیان پر سر دھن رہے تھے اور سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے تھکتے نہیں تھے۔
مسجد کے احاطے میں شور سن کر ادھر ادھر بھٹکنے والی جیرے کی ماں بھی “وے نہ مارو۔ وے نہ مارو، مر جائے گا” کہتی پہنچ گئی۔ احاطے میں مجمع کو چیرتی ہوئی آگے بڑھی اور گرے ہوئے مفلوک الحال جیرے کا سر اپنی گود میں لے کر دیوانہ وار چلانے لگی “وے جیریا وے جیریا، توں کی کیتا اے؟”
جیرے نے آنکھیں کھولیں اور بوڑھی ماں کو دیکھ کر مسکرایا اور آنکھیں موند لیں۔ بوڑھی خاتون نے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا۔ “اے میرا پتر نذیر اے ایدھے پیو نے حلال دی روزی کما کر اینہوں لکھایا پڑھایا۔ پر اینہوں نوکری نہ ملی۔ جتھے وی جاندا لوکی پیسہ منگدے سن۔ مینوں کہن لگا۔ ماں ساڈی کسی نیئں سن نی۔ بس ناراض ہو کر “گھروں چلا گیا۔ بھکا بھانا سی چھ دناں دا پانی پین نوں آگیا ہونا رب دے گھار۔
مہر صاحب نے حاجی صاحب کی طرف دیکھ کر کہا۔ “چھڈو ایدیاں گلاں۔ مریم نواز دے اثاثیاں دی تفصیل چھپ گئی اے۔ ساڈی ہون والی لیڈرمریم نواز۔
اخبار میں ہے کہ وہ چودھری شوگر ملز۔ حدیبیہ پیپر ملز سمیت 5 دیگر ملز میں بھی شیئر ہولڈرز ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک ہزار 506 کنال زرعی زمین کی مالکن بھی ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق مریم نواز نے زیر تعمیر فلور ملز میں ساڑھے 34 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی۔ جبکہ 4 کروڑ 92 لاکھ 77 لاکھ روپے کے تحائف اور ساڑھے 17 لاکھ روپے کے زیورات ان کی ملکیت میں ہیں۔ ریکارڈ میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ مریم نواز اپنے بھائی حسن نواز کی 2 کروڑ 89 لاکھ کی مقروض بھی ہیں۔ گزشتہ 3 برسوں میں مریم نواز کی زرعی زمین میں 548 کنال کا اضافہ ہوا۔ جبکہ 3 برس کے “دوران مریم نواز نے غیر ملکی دوروں پر 64 لاکھ روپے خرچ کئے۔
مہر صاحب نے حاجی سے کہا، “لیکن مریم نواز تو کہتی تھی کہ میری بیرون ممالک تو کیا اپنے ملک پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں۔” آگے سے حاجی صاحب بولے، مہر صاحب، چھوڑیں ان باتوں کو۔””
مجمع چھٹ چکا تھا۔ دور فضائوں میں خواجہ غلام فرید کی شہرہ آفاق کافی کی آواز گونج رہی تھی، “میڈا عشق وی تُوں، میڈا یار وی تُوں۔ میڈا دین وی تُوں۔ ایمان وی تُوں۔ میڈا جسم وی تُوں۔ میڈا روح وی تُوں۔ میڈا قلب وی تُوں۔ جند جان وی تُوں۔
بوڑھی خاتون کسی بت کی طرح بے حس و حرکت پوری توجہ کے ساتھ کافی کے ان بولوں کو سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ جیرے کے سر کے بالوں میں اپنی گنٹھیا زدہ انگلیاں پھیرتے ہوئے کہہ رہی تھی “اٹھ میرا پتر۔ چل گھار نوں چلیے۔”
مجمع میں کھڑے مہر صاحب نے حاجی صاحب کی طرف دیکھا اور کہا۔ “مائی وی “مکر کردی اے۔