اصغر خان کیس کے دوبارہ کھلنے پر میرے تخلیل میں ایک طوفان امڈ آیا۔ نواز شریف کے سیاسی کریئر کا جائزہ لیا جائے تویہ سمجھنا مشکل نہیں کہ نواز شریف جنرل ضیاء الحق مرحوم کے “سیاسی جانشین” ہیں۔ آمریت کی گود میں بیٹھ کر اپنی سیاست کی ابتداء کرنے والے نواز شریف ہمیشہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر رہے ہیں۔ جب اسلامی جمہوری اتحاد بنا تو نواز شریف نے امیر المومنین بننے کے لیے سیاسی محاذ سنبھالا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل تھی۔ یہ اتحاد بے نظیر بھٹو کی عوامی مقبولیت کا توڑتھا، کیونکہ ضیاء الحق آمریت کی باقیات کےلیے بے نظیر ناقابلِ قبول تھیں۔
جب بے نظیر نے مبینہ طوپر آزاد خالصتان تحریک کے سرکردہ سکھ رہنماؤں کی فہرستیں بھارت کو سونپ دیں تو بھارت آزاد خالصتان تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہوگیا۔ سکھ رہنماؤں کو چن چن کر بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یہ بے نظیر بھٹو کی ایک بڑی سیاسی حماقت تھی۔ جس کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کےلیے بے نظیر حکومت کا وجود ناقابلِ برداشت ہوگیا۔ اس کا بدلہ لینے کےلیے نواز شریف کو استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ چنانچہ نواز شریف کو رشوت دے کر اپنے ساتھ ملا لیا گیا۔ یوں نواز شریف بے نظیر حکومت کو گرانے کے لیے خوب استعمال ہوئے۔ اس کے صلے میں دومرتبہ بے نظیر بھٹو کو عام انتخابات میں شکست دینے میں کامیاب ہوئے حالانکہ عوامی طاقت اور ہمدردیاں بے نظیر کے ساتھ تھیں۔ ماضی میں نواز شریف ایک پسندیدہ ترین سیاسی مہرے رہ چکے ہیں۔ آج زمینی حقائق مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔
جب ڈان لیکس کا واقعہ ہوا تو لازماً ن لیگی حکومت گرفت میں آنی ہی تھی۔ ڈان لیکس معاملے پر جو کچھ ہوا، وہ یقیناً ایک سنگین مذاق تھا۔ پھر یوں ہوا کہ پاکستان میں نامعلوم سیارے سے ایک خلائی مخلوق “مشن نواز شریف کو نکالو ” کے لیے اتری۔ عدلیہ نے نواز شریف کا کڑا احتساب شروع کر دیا۔ نواز شریف کے جرائم ثابت ہوتے گئے اور عوام کی امنگیں پوری ہوتی گئیں۔ عوام نے تو بس سکھ کا سانس لیا کہ تاریخ میں پہلی بار عدالتیں بدعنوان سیاسی مافیا کا احتساب کر رہی ہیں جو ایک عرصے سے عوام کا خون نچوڑ رہے تھے۔
نواز شریف کے تخیل کے مطابق مبینہ طورپر عمران خان بھی خلائی مخلوق کے “انوکھے لاڈلے” مہرے ہیں۔ عوام کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ کسے کیوں نکالا گیا؟ یا کون کس کا انوکھا لاڈلا ہے؟ مگر ایک بات طے ہے کہ آمریت کی پیداوار نواز شریف نے خود کبھی اسٹیبلشمنٹ کے بغیر سیاست نہیں کی۔ جس کی وجہ سے آج موصوف کو ہر جج، ہر عدالت، ہر سیاسی حریف اور ہر سیاسی جماعت کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ نظر آرہی ہے۔ اگر نواز شریف نے اپنے سیاسی کریئر میں اصولوں کی سیاست کی ہوتی اور خود کو ایک نظریاتی رہنما ثابت کیا ہوتا تو ان کے حالات نسبتاً بہتر ہوتے۔
آج نواز شریف دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نظریاتی ہو چکے ہیں۔ مطلب ماضی میں وہ ایک مہرہ تھے اورآج وہ اس کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ آج نواز شریف کے پاس “نظریہ کیوں نکالا؟” کے علاوہ کچھ نہ تو کہنے کو بچا ہے اور نہ کچھ کرنے کو وقت بچا ہے۔ آج نواز شریف کو دکھ ہے تو اس بات کا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کا ساتھ دینے کی بجائے ان کے خلاف ہوچکی ہے۔ نواز شریف کا نظریہ “کیوں نکالا ؟ ” ہو یا عدلیہ و فوج مخالف انتخابی سیاست کوئی بھی چیز نواز شریف کو اللہ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتی۔ اگر قومی چور نے ووٹ کی عزت کا نعرہ دینے سے پہلے ووٹر کو عزت دی ہوتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔
2013ء کے عام انتخابات میں بھی ن لیگ نے مبینہ طور پر خلائی طاقتوں کی مدد سے 11 مئی 2013ء کی رات کو عوامی مینڈیٹ چوری کیا۔ اگر ن لیگ کے سیاسی حریفوں کا یہ دعویٰ سچ مان لیا جائے تو تیسرے عام انتخابات بھی نواز شریف اسی مخلوق کی مدد سے جیتتے۔ اور یوں نواز شریف بلاشرکت غیرے تین مرتبہ عام انتخابات کا مینڈیٹ چوری کرنے کا انوکھا ریکارڈ قائم کر لیتے۔ یہ ہی وجہ ہے آج نواز شریف کو ہرمعاملے میں خلائی مخلوق کا ہاتھ نظرآ رہا ہے۔ وہ کسی نے کیا خوب مصرع لکھا تھا، “آج جو بوئے گا , کاٹے گا کل”۔