دنیا کے سب سے پر اسرار کنویں میں سونے کی موجودگی کا انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق برقی آلات نے ثابت کر دیا ہے کہ اوک آئی لینڈ میں ہزاروں ٹن خالص سونا موجود ہے لیکن یہ سونا آج تک نکالا نہیں جا سکا۔ اوک لینڈ کا یہ خزانہ اتنی ہوشیاری اور مضبوطی سے کنوئیں میں گاڑا گیا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو سال کی تگ و دو کے باوجود بھی نہیں نکالا جاسکا۔ بہت سے لوگوں نے اس کو نکالنے کی کوششیںکی ہیں۔ اس مقصد کے لئے جدید ترین سائنسی آلات بھی استعمال کیے گئے ہیں لیکن کامیابی نہیں ہو سکی۔اوک آئی لینڈ نوواسکوٹا میں نیلے پانی کی خلیج ماؤں کے ساتھ ساتھ واقع ہے۔ اس میں چھوٹی چھوٹی چٹانیں اور ٹیلے ہیں۔ 1795 میں اتوار کی ایک روشن صبح کو سب سے پہلے تین آدمی ٹانی ڈوگن،ڈینی لگ کی نس،اور جیک سمتھ اس جزیرے میں داخل ہوئے انہیں بخوبی علم تھا کہ یہ جزیرہ جہازوں کے مسافروں اور بحری قزاقوں کا مسکن رہا ہے۔ بعض جہاز یہاں اس لیے ٹھہرتے تھے کہ ان کی صفائی کی ضرورت پڑتی تھی۔روایت کے مطابق اس جزیرے میں سب سے پہلے بحری قزاقوں نے خیم نصب کیے تھے یہ لوگ فاراسکوٹی کے باشندوں سے تجارت بھی کرتے تھے او پھر وہ پر اسرار طریقے سے اس جزیرے سے غائب ہو گئے۔ بعض کو پھانسی دے دی گی تھی اور بعض آپس میں لڑ جھگڑ کر مر گئے۔ اس بات کی تصدیق ساحل کی ریت میں دبےہوئے پستولوں چاقوؤں اور سونے کے سکوں سے ہوتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شراب پیتے تھے اور اسی بدمستی میں ایک دوسرے کو قتل کر دیتے تھے۔ ٹانی ڈوگن نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں کو شاہ بلوط کے ایک غیر معمولی درخت کی طرف متوجہ کیا جس کی شاخوں سے لمبے لمبے رسے لٹک رہے تھے۔ یہ رسے زمین میں گڑھے ہوئے تھے۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ کوئی چیز ان رسوں کی مدد سے کنوئیں میں لٹکائی گئی ہے جسے بعدمیں احتیاط سے بند کر دیا گیا ہے۔ جزیرے کے یہ تینوں مسافر کئی سالوں تک دن رات اس کنوئیں کو کھودنے میں مصروف رہے۔ ان کا خیال تھا کہ بحری لٹیروں نے یہاں پر اپنی دولت چھپا رکھی ہے۔ جب اتنی تگ و دو کے بعد بھی وہ خزانے کو نہ پا سکے تو انہوں نے ڈاکٹر جان لنڈز کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ چنانچہ اس نے کنوئیں کا معائنہ کیا اسے پنتیس فٹ کی گہرائی میں ناریل کے ریشوں کی ایک موٹی تہہ دکھائی دی۔ چنانچہ اسےیقین ہو گیا کہ اس کنوئیں میں کوئی نہ کوئی دفینہ ضرور موجود ہے۔اس نے اپنے طور پر اس کنوئیں کی مزید کھدائی شروع کر دی جب ڈاکٹر جان لنڈز کے مزدوروں نےکنوئیں کومزید دس فٹ تک کھودا تو انہیں شاہ بلوط کی لکڑی سے بنی ہوئی تختوں کی ایک موٹی تہہ تہہ ملی جس کے نیچے ناریل کے ریشوں سے بنی ہوئی ایک اور تہہ ملی۔ اس سے اندازہ لگایا گیا کہ کنوئیں کی یہ بھرت دو ہزار میل دور ویسٹ انڈیز سے لائی گئی تھی۔ آٹھفٹ کی مزید گہرائی پر ایک چپٹا پتھر ملا جس پر آڑھی ترچھی لکیریں تھیں۔ ابھی تک خزانے کی بازیابی کے کوئی آثار باقی نہیں تھے۔ ڈاکٹر لنڈز کا سرمایا بھی ختم ہونے کو تھا۔ چنانچہ آخری تدبیر کے طور پر اس نے ایک برما خریدا۔ جس کے استعمال سے کنواں ایک سو فٹ کی گہرائی تک پہنچ گیا۔ آخر کار برما پھوٹک پلستر اور سخت لکڑی سے راستہ بناتا ہوا ایک ایسی جگہ سے گزرا جہاں پر خالی کمرے کا گمان ہوتا تھا۔ مزیدسوراخ کرنے پر نیچے سے پانی نکلا۔یہ پانی کنوئیں میں آہستہ آہستہ چڑھنے لگا اس پانی کی سطح پر سونے کے چند ٹکڑے اور کاغذ کے پرزے ملے۔ یہ دیکھ کر جان لنڈز بہت خوش ہوا اور اس نے برمے کی مدد سے کنوئیں کی مزید کھدائی شروع کر دی۔ اس مرتبہ کنوئیں میں پانی اس قدر تیزی سے داخل ہوا کہ تین مزدور اس پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ڈکٹر لنڈز کا دیوالیہ نکل گیا تھا۔ تاہم نو سال کی پیہم کوششوں سے صرف اتنا پتہچل سکا کہ کنوئیں میں سونا موجود ہے۔برقی آلات سے یہ بات ثابت تو ہو گئی کہ کنوئیں میں سونا موجود ہے لیکن پانی نے خزانے تک پہنچنے کی ہر کوشش میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ یہ پان حیرت انگیز کاری گری سے بنی ہوئی زمین دوز سرنگوں کے ذریعے آتا تھا۔خیال کیا جاتا ہےکہ یہ سونا اسی کنوئیں میں پڑا رہے گا کیونکہ 1957 میں امریکہ کے انجینئروں نے پوری تحقیق اور تفتیش کے بعد یہ بیان دیا تھا۔“کنوئیں میں بے شکہزاروں ٹن خالص سونا موجود ہے لیکن یہ خزانہ کبھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا“۔اس بارے میںکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کنویں کی حفاظت پر ماورائی مخلوق تعینات ہے۔