شہباز شریف اور اسحاق ڈار کو بھی امیدوار مانا جا رہا تھا لیکن جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد ایسا ممکن نہیں ہورہا
لاہور: وزیر اعظم نواز شریف کی اپنے عہدہ پر موجودگی کے باوجود حکمران مسلم لیگ ن کے اندر بی پلان پر غیر محسوس انداز میں غور و خوض اور لابنگ کا سلسلہ جاری ہے اور حکومتی ذمہ داران ایک طرف نواز شریف حکومت سے اپنی کمٹمنٹ کا جرات سے اظہار کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کسی عدالتی فیصلہ کی روشنی میں نئے قائد ایوان کیلئے مختلف ناموں پر اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔ کابینہ کے اندر پیدا شدہ صورتحال بھی اس بی پلان کی جانب اشارہ کرتی نظر آ رہی ہے اور پارٹی کے اندر وزارت عظمیٰ کے ممکنہ امیدواروں کے طور پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ، وزیر ہائوسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ احسن اقبال ، وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف ، وزیر تجارت خرم دستگیر اور وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کے نام لئے جا رہے ہیں۔ بعض حلقوں میں سپیکر ایاز صادق کو بھی چھپا رستم قرار دیا جا رہا ہے جس کی بڑی وجہ ان سے ہارنے والے امیدوار عمران خان کے جلتے ارمانوں پر مزید تیل ڈالنا ہے۔
کچھ ذرائع کے مطابق چوہدری نثار علی خان کی اصل پریشانی ان کی راہ میں حائل دو اہم ترین وفاقی وزرا ہیں جو انہیں سینئر تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اس کا کھلا اظہار کر رہے ہیں ۔ اس حوالے سے کچھ حلقے اس امکان کو بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر کوئی ایسی صورتحال درپیش آئی جس سے وزیراعظم کو جانا پڑا تو اتحادی جماعتوں سے بھی کسی شخصیت کو بقیہ مدت کیلئے وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے ۔کچھ حلقے حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمن کی پھرتیوں اور بے باکیوں کو اس نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اب پارٹی کے اندر اقتدار کی اس کھینچا تانی میں سینئر کون کی بحث شروع ہے جس کا واویلا کابینہ کے اجلاس اور بعد ازاں اسلام آباد کے حکومتی حلقوں میں بھی ہوتا سنا گیا ہے۔
پارٹی کے حلقے جے آئی ٹی کی رپورٹ سے قبل پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی ممکنہ متبادل شخصیات کے طور پر دیکھتے تھے لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ کے ذریعے پورے خاندان کو ہی ناک آئوٹ کر دیا گیا ہے جس نے پارٹی اور حکومت کے اندر نئی صورتحال پیدا کر دی ہے اور اب یہ خود وزیراعظم نوازشریف کی قیادت اور شخصیت کا امتحان ہے کہ وہ آنے والے حالات میں کس طرح اپنی حکومت اور جماعت دونوں کو بچا کر رکھتے ہیں اور آنے والے انتخابی مرحلہ میں پارٹی کی روح رواں ان کی ذات ہو گی ۔ حکومت کے ایک ذمہ دار ذرائع نے وزارت عظمیٰ کی ریس کے حوالہ سے دنیا نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وزارت عظمیٰ کی دوڑ اور وفاقی وزرا کے مخالفانہ بیانات محض چائے کی پیالی میں طوفان کی مانند ہیں وزیراعظم نوازشریف کو اگر جانا پڑتا ہے تو وہ اپنے جانشین کا فیصلہ خود کریں گے ۔ وہ اسلام آباد میں ہوں لاہور یا رائیونڈ ، پارٹی اور حکومتی فیصلوں کا اختیار انہی کے پاس ہو گا اس لئے کہ عوام نے نواز شریف پر ہی اعتماد کا اظہار کیا تھا اور آنے والے وقت میں بھی نوازشریف کو ملکی سیاست سے آئوٹ کرنا مخالفین اور سازشیوں کی خام خیالی ہے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔