لاہور: قومی اسمبلی کے حلقے این اے 130 کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں یہ لاہور کا وہ واحد حلقہ تھا جہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس حلقے میں نون لیگ کے خواجہ حسان اور شفقت محمود میں کانٹے دار مقابلہ دیکھنے کو ملا تھا مگر کامیابی نے ناصرف قومی بلکہ اس کے دونوں ذیلی صوبائی حلقوں میں بھی تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں کے قدم چومے تھے۔
پنجاب اسمبلی کے سابق قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید کا تعلق بھی اسی حلقے کے ذیلی صوبائی حلقے سے ہے۔2017ء کی مردم شماری کے تناظر میں ہونے والی حالیہ حلقہ بندیوں سے قبل اس کا نمبر این اے 126 تھا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس کی کل آبادی 8 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جبکہ یہاں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 3 لاکھ سے اوپر ہے۔ماضی کے انتخابات میں یہاں سے تحریکِ انصاف کے علاوہ پیپلز پارٹی، متحدہ مجلسِ عمل اور نون لیگ کے اُمیدوار جیت چُکے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لاہور کے دیگر حلقوں کے برعکس یہ حلقہ نون لیگ کا مضبوط قلعہ نہیں رہا۔یہ حلقہ گلبرگ، ماڈل ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، برکت مارکیٹ، فردوس مارکیٹ، وحدت روڈ اور شادمان جیسی مہنگی اور اشرافیہ کی جدید کالونیوں پر مشتمل ہے۔جبکہ اقبال ٹاؤن، اچھرہ، فیصل ٹاؤن اور مسلم ٹاؤن جیسے درمیانے طبقے کے علاقے بھی اس حلقے میں شامل ہیں۔یہاں ناصرف لاہور کے بیشتر حلقوں کے مقابلے میں شرح خواندگی زیادہ ہے بلکہ بیورکریسی سے تعلق رکھنے والے بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔2013ء کے عام انتخابات میں شفقت محمود کی کامیابی میں بھی مذکورہ علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوانوں اور درمیانے طبقے کی بالائی پرتوں نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔مگر حیران کُن طور پر 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار اس حلقے کی محض ایک یونین کونسل میں ہی کامیابی حاصل کر سکے تھے جبکہ مسلم لیگ نون کے امیدوار بآسانی کامیاب ہو گئے تھے۔2018ء کے انتخابات میں بھی ایک بار پھر تحریک انصاف کے شفقت محمود اور مسلم لیگ نون کے خواجہ احمد حسان کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔اس وقت تک حلقے میں بظاہر تحریکِ انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کی پوزیشن مستحکم دکھائی دیتی ہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہے۔پہلی وجہ یہ کہ مقامی ووٹر شفقت محمود کی جانب سے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران حلقے میں رابطہ نہ رکھنے کی وجہ سے نالاں نظر آتے ہیں جبکہ دوسری وجہ بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کے اُمیدواروں کا تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں کے مقابلے میں بآسانی کامیابی حاصل کرنا ہے۔ظاہر ہے کہ آئندہ انتخابات میں لیگی چئیرمین اپنے اُمیدوار کی ہی حمایت کریں گے جس کے باعث شفقت محمود کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔علاوہ ازیں خواجہ احمد حسان نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران حلقے کے ووٹروں سے قریبی رابطہ رکھا ہے اور حلقے میں زیادہ وقت گزارنے کے باعث ان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔اس حلقے کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کا مرکزی سیکرٹریٹ اور تحریک انصاف کا لاہور میں چئیرمین سیکرٹریٹ یہیں واقع ہیں۔25 جولائی کے انتخابات میں کون کامیاب رہتا ہے، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا مگر یہ بات طے ہے کہ شفقت محمود کو جیت کے لیے اس بار زیادہ محنت کرنا ہوگی۔