تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
صدیوں سے نعت لکھی ، پڑھی اور سنی جا رہی ہے نعت تخیل کے نرم و نازک آبگینے عشق و محبت ، عقیدت کے بے بہا خزینے ریشمی حروف کے رواں دواں سفینے اور اظہار بیاں کے خوبصورت قرینے کا دوسرا نام ہے ۔ کہنے والوں نے عقیدت و احترام میں ڈوب کر زبان مشک سے دھو کر نعت لکھی ۔ پڑھنے والوں نے لحن ِ داودی مستعار لے کر نعت پڑھی اور سننے والوں نے نوائے سروش سمجھ کر نعت سنی ۔ نعت کہنا عظیم اور لازوال عطیہ خداوندی ہے خالق ارض و سما اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ عام کر نے کے لیے کچھ ایسے افراد گراں مایہ کا انتخاب کر لیتا ہے جن کا دل و دماغ اور روح کے عمیق ترین گوشوں میں سرور ِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو ٹ کوٹ کر بھری ہو تی ہے۔ جن کی زندگی کا مقصد اور جینے کی آرزو صرف یہی ہو تی ہے کہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو چار دانگ عالم میں اِس طرح پھیلایا دیا جائے کہ کائنات کے چپے چپے میں آقائے دو جہاں کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فکر و سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو مہک جائے معطر ہو جائے۔
انسانی ذہن جب نقطہ عروج پر پہنچتا ہے تو نعت کے ذریعے اظہار کر تا ہے صبح سعادت جب طلوع ہو تی ہے تو نعت بن جاتی ہے طلب صادق جب موج بن کر کروٹ لیتی ہے تو نعت بن جاتی ہے اور شاعری جب پیکر التجا میں ڈھلتی ہے تو نعت بن جاتی ہے نعت سے روح کی کثافتیں لطافتوں میں ڈھلتی ہیں باطن سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چشمے پھوٹتے ہیں گلشن ِ ایمان تازہ ہو تا ہے قلب کون و مکان دھڑکتا ہے زندگی کے تمام رنگ نکھرتے ہیں ایسی سر شاری مستی اور سرور کے سُوتے پھوٹتے ہیں جن کا نشہ جنت سے بھی بڑھ کر ہو تا ہے مدینہ کی گلیاں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور اور گنبدِ خضرا کا تصور ہی روح پرور ہو تا ہے نعت سے دل و دماغ اور روح کو روشنی قلم پاکیزگی افکار تازگی خیالات زندگی الفاظ رنگینی اور لہجے رعنائی پاتے ہیں مضمون کو لا زوال عزت عنوان کو عروج و شہرت اسلوب کو ندرت بیان کو وسعت اور کلام کو قوت عطا کرتی ہے۔
نبوت کے بعد جب قریش کے ہجو گو شعرا نے جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی شروع کی تو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مشرکین کے مقابلے کے لیے حضرت حسان بن ثابت ، حضرت کعب بن مالک اور حضرت عبداللہ بن رواحہ کو لسانی اور شعری معرکوں کے لیے حکم دیا اور پھر ان تینوں صحابہ کے اشعار کے بارے میں فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو قریش کے تیروں کی بو چھاڑ سے بھی زیادہ سخت ہیں ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت سے فرمایا :ترجمہ: اِن کی ہجو کر اللہ کی قسم تیری ہجو ان کے لیے تاریکی شب میں تیر لگنے سے بھی سخت تر ہے تیرے ساتھ جبرائیل القدس ہیں ان شاعرانِ اسلام نے ایک تو مشریکن کو تابڑ توڑ جواب دیا اور دوسری طرف اِن کے قلم نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و مدح و نعت میں ایسی جو لائیاں دکھائیں کہ سامعین کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و الفت کے ناپید ا کنار سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتے اُس دور کے شعراء میں حضرت احسان بن ثابت کا فن آسمان کی بلندیوں پر نظر آتا ہے انہوں نے شہنشاہِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کئی اشعار کہے جو آج بھی اپنی سحر انگیزی اور تابا نیوں کے ساتھ زندہ جاوید ہیں۔
ترجمہ : چشم فلک نے اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں بھی اور کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کو ئی نہیں دیکھا اور کسی عورت نے کسی زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین و جمیل بچہ نہیں جنا پیدا کر نے والے نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر عیب و نقص سے مبرا منزہ پیدا فرمایا ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خالق نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِس طرح تخلیق کی جیسی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی تھی عا شقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشعار سن کر محبت عشق ، عقیدت کے سمندر میں غوطہ زن تھے اور محبوب کدا و نے فرمایا ” تم نے درست کہا ” حضرت سیدنا کعب بن مالک بھی آپ ۖ کے مشہور شاعر تھے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال پر تڑپ اٹھے اور بے ساختہ ان کے لبوں پر درج ذیل اشعار مچل گئے ۔ ترجمہ: اے آنکھ اچھی طرح اشکبار ہو کیونکہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوقات میں سب سے اعلی و برگذیدہ تھے ۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سردار تھے بزرگ تھے اور تمام جہاں میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھے۔
محبوب پر وردگار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے حق میں بشیر بھی تھے نذیر بھی تھے اور ایسے نور تھے جن کی شعاع نے ہم کو روشن کر رکھا تھا۔ اللہ تبارک و تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کے طفیل میں ہمیں محفوظ رکھا اور رحم فرما کر آتشِ دوزخ سے نجات دی ۔ بلاشبہ انسانی آنکھ اِس اہلیت سے محروم ہے کہ وہ رسول ِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید المشتا قین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا مشاہدہ کر سکے عاشقِ رسول صدیقِ اکبر کو بھی تاب نظارہ نہ تھی کہ نظر بھر کر روئے تاباں کے حسن بے مثال سے کیف حاصل کر سکیں ہماری اماں جان حضرت عائشہ صدیقہ جنہوں نے اپنے محبوب سر تاج صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک سے طلوع ہو نے والے نور میں اپنی گمشدہ سوئی کو تاریکی میں تلاش کر لیا تھا آپ فرماتی ہیں اگر زنان مصر میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نظر دیکھ لیتیں تو اپنی انگلیاں کاٹنے کی بجائے چھریاں اپنے سینوں میں اتار لیتیں اور انہیں خبر تک نہ ہو تی ۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کے بعد آج تک ہر محب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کے ذکر میں رطب اللسان ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن بے مثال کی یکتائی و کمال کا حق ادا کر نے سے قطعی قاصر و بے بس ہے۔
پھر نور اسلام کی شعاعیں جب عرب سے نکل کر اطراف ِ عالم تک پہنچیں تو اہلِ عجم نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے عربی کے بعد فارسی شعراء نے اِس فن کو نقطہ عروج تک پہنچایا فارسی میں سعدی ، جامی ، اور قدسی نے بہت بلند پایہ کی نعتیں لکھی ہیں برصغیرپاک و ہند میں حضرت امیر خسرو کا نام فارسی میں سند کی حیثیت رکھتا ہے اردو میں پہلی نعت فخرلدین نظامی کی بتائی جاتی ہے پھر اردو نعت قلی قطب شاہ ملا و جہی نصرئی ہاشمی ، میر محمد باقر اور کرامت علی شہدی تک کا سفر طر کر تی ہو ئی محسن کا کو ری تک پہنچی ، محسن کاکوری اردو نعت کے وہ اولین شاعر مانے جاتے ہیں۔
جنہوں نے نعت کو ایک مستقل صنف کے طور پر پیش کیا پھر امیر مینائی مولانا الطاف حسین حالی اور اقبال نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو نشاہِ ثانیہ کے محرک کے طور پر پیش کیا پھر مولانا احمد رضا خان کو اللہ تعالی نے اِس عظیم کام کے لیے چُنا پھر مولانا ظفر علی خان بیدم وارثی اور بے شمار مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شعرا نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں لازوال قسم کے اشعار کہے بقول سردار بشن سنگھ
گر مسلمانوں کا اک پیغمبر ِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو
اپنی آنکھوں میں بھی اِک اوتار سے کب کم ہے تو
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956