تحریر : سید انور محمود
قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام قومی احتساب آرڈینینس کے تحت 16 نومبر1999ء کوعمل میں لایا گیا۔ نیب کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے نہ صرف اقدامات کئے جائیں بلکہ بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کروائی جائے اور ان کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، جہاں ان کو قانون کے مطابق سزا دی جاسکے۔نیب کا دائرہ کار پورے ملک بشمول فاٹا اور گلگت بلتستان تک ہے، نیب کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہے جبکہ کراچی، لاہور، ملتان، راولپنڈی، سکھر، پشاور اور کوئٹہ میں اس کے علاقائی دفاتر ہیں۔ نیب کے پہلے چئیرمین لیفٹینینٹ جنرل سید محمد امجد تھے جبکہ موجودہ چیئرمین قمرزمان چوہدری ہیں۔ قمر زمان چوہدری اس لحاظ سے وہ واحد چیئرمین ہیں جن کو حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر اس اہم عہدے پر تعینات کیا ہے۔
ویسے تو پاکستان میں کوئی بھی اپنے احتساب کے لیے تیار نہیں اور خاصکر وہ سیاسی جماعتیں جو اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ کہتی ہیں۔ ملک میں نیا سیاسی کلچر پروان چڑھتا نظر آرہا ہے، حکمراں جماعت اور اپوزیشن جماعتیں سب کے سب احتساب سے بھاگ رہے ہیں، سب احتسابی عمل کو متنازع بنارہے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن کینسر کی طرح ہر شعبے میں پھیل چکا ہے اور یہ سارئے ملک کو کھوکھلا کررہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف اورپیپلزپارٹی نے تواتر کے ساتھ مختلف اوقات میں موجودہ احتسابی طریقہ کار کے خلاف بات کی۔ کچھ عرصہ قبل پیپلزپارٹی کی جانب سے نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیوں پر بہت زیادہ شور مچایا گیا تھا۔
دو ہفتے قبل وزیر اعلیٰ خیبر پختو نخوا پرویز خٹک نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی منظوری سےاحتساب کے صوبائی ادارے کے چیئرمین لیفٹنینٹ جنرل(ر)حامد خان کے اختیارات میں کمی کرکے انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ وزیراعظم نواز شریف بھی منگل 16 فروری 2016ء کو نیب پر برس پڑے اور کم و بیش وہی الزامات لگائے جو پہلے پیپلز پارٹی لگاچکی ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ نواز شریف نے پی آئی اے کی ہڑتال کے وقت اور اب نیب کے خلاف جو باتیں کی وہ ان کے اپنے اندازِ بیاں کے خلاف نظر آئیں، عام طور پر نواز شریف اس لہجہ میں بات نہیں کرتے ہیں لیکن پی آئی اے کی ہڑتال اور نیب کے حوالے سے ان کی طرف سے سخت لہجہ میں بات کی گئی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بہاولپور کے عوامی اجتماع میں نیب کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ معصوم اور بےگناہ لوگوں کے گھروں اور دفتروں میں گھس کر انھیں ہراساں کرتے ہیں۔ نواز شریف نے نیب کی کارروائی کے طریقہ کار پر برملا غصے کا اظہار کرتے ہوئے، اسے متنبہ کیا، کہ اگر چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے ان کے تحفظات کا نوٹس نہ لیا تو وہ صورتحال کی درستی کیلئے قانونی ذرائع استعمال کرسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مشترکہ طور پر قمر زمان چوہدری کو چیئرمین نیب کو لگایا تھا لیکن اب سب ان سے ناراض ہورہے ہیں۔ نواز شریف کی ناراضگی کی ایک وجہ یہ ہے پنجاب میں بہت سے پروجیکٹ چل رہے ہیں اور کافی نئے پراجیکٹس لگائے جارہے ہیں جنہیں نواز شریف اور شہباز شریف جلد از جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
تماشہ یہ ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے لوگوں پر ہاتھ پڑتا ہے تو وہ چیخیں مارتے ہیں اور جب مسلم لیگ (ن) کے بیوروکریٹس پر ہاتھ پڑتا ہے تو وہ چیخیں مارتے ہیں، کرپشن روکنے کیلئے بے انتہا قوانین بنادیئے گئے ہیں لیکن کرپش تاحال جاری ہے، اگر یہ قوانین بھی نہ ہوتے تو شایددس گنا سے بھی زیادہ کرپشن ہورہی ہوتی ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرف سے نیب پر تنقید کی گئی ہو، کچھ عرصہ قبل وزیراطلاعات پرویز رشید اس وقت نیب پر گرجے تھے جب نیب کی طرف سے شریف فیملی کیخلاف کیسز دوبارہ کھولنے کی خبریں آئی تھیں۔
اسوقت سوال یہ ہے کہ آخر نیب نے ایسا کیا کردیا کہ وزیراعظم نواز شریف اپنے اندازِ بیاں کے برعکس بولے، کیا وزیراعظم کی نیب پر تنقید کی وجہ شریف فیملی کے خلاف نیب کی تفتیش ہے یا پھر نیب کے اجلاس میں وزارت پانی و بجلی کے ماتحت ادارے آئیسکو میں غیرقانونی بھرتیوں کی شکایت کی تصدیق کے عمل کو شروع کرنے کا فیصلہ ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے زمانے میں وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کیخلاف کرپشن کی تحقیقات شروع کی گئی تھیں، لیکن ابتک اسکا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا، فیصلہ کرنے کیلئے اب ایک نئی تاریخ 31 مارچ 2016ء مقرر کی گئی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کیخلاف دو اور کیسوں میں تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔
ایک کیس میں وزیرعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دیگر پر رائیونڈ سے جاتی امرا تک سڑک کی تعمیر کے معاملے میں اختیارات کے ناجائز استعمال الزام کے ساتھ ساتھ 125 ملین روپے کی خرد برد کا بھی الزام ہے۔ دوسرے کیس میں وزیراعظم پر ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کا الزام ہے۔ شریف برادران کے علاوہ کرپشن کے بڑے کیسوں میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام بھی سامنے آیا تھا، نیب نے ان کے مقدمات نمٹانے کیلئے بھی ڈیڈلائن 29 فروری 2016ء مقرر کی ہے۔ اسحاق ڈار پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور وسائل سے زیادہ اثاثے رکھنے کا الزام ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ فہرست پیش کیے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے شدید رد عمل کا اظہار کیا اور نیب کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔7 جولائی 2015ء کو نیب نے ملک میں بدعنوانی کے زیر تفتیش 150 مقدمات کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کروائی جس کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف سمیت چار سابق وزرائے اعظم کےخلاف اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ماضی میں شروع کی جانے والی تفتیش مختلف مراحل میں ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے مخالفین نیب کے بارے میں انکے بیان کو ایک دھمکی قرار دے رہے ہیں، جس میں وزیر اعظم نے نیب کے خلاف قانونی اور آئینی اقدامات کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں نیب کے خلاف اپنے اپنے انداز میں شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔ آج جو صورت حال ہے اس میں تمام جماعتیں نیب سے نالاں نظر آتی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو نیب اپنا کام ٹھیک طریقے سے کررہا ہے یا اس کی ڈوریں کہیں اورسے ہلائی جا رہی ہیں۔
اس لیےنیب کے قوانین میں سخت قواعد و ضوابط وضع ہونا چاہییں کہ کن حالات میں کسی شخص کے خلاف کارروائی شروع کی جانی چاہیے۔دراصل نیب کی طرف سے پنجاب کے حکمرانوں کےکیخلاف انکوائری وزیر اعظم کی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے 16 فروری کو بہاولپور میں ایک عوامی اجتماع میں نیب کو ہدف تنقید بنایا اور جہاں وہ اپنےاندازِ بیاں کے برعکس سخت لہجہ میں بات کرتے دکھائی دیئے ، لگتا ہے اس مرتبہ نیب کا پیر شیر کی دم پر کچھ زیادہ ہی سخت پڑگیا ہے۔
تحریر : سید انور محمود