نجانے یہ موقعہ کیا تھا۔ عمران خان کی تقریر اچھی تھی مگر باتیں وہی تھیں جو وہ کرتے رہتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے بھی یہی باتیں ہوتی تھیں اور عمران نے شریف برادران سے حکومت چھین لی مگر عمران کو حکومت کرنا نہیں آیا۔ اب حکومت وہ اپنے آپ سے خود چھین لیں گے۔
پٹرول مہنگا ہو گیا ہے۔ فیصل واڈا فیصلہ کُن لہجے میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پٹرول اگر 200 روپے لیٹر ہو جائے تو بھی لوگ خرید لیں گے۔ اس پر برادرم مظہر عباس نے بہت زبردست بات کی کہ 200 روپے لیٹر لوگ اپنے اوپر بھی چھڑکنے کے لیے نہیں خرید سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موت بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ یعنی خودکشی کرنے کے مواقع بھی اس حکومت نے نہیں رہنے دئیے۔ لوگ زندہ رہنے کے لیے مواقع تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
اگر عمران خان ناکام ہوئے تو شریف برادران پھر آ جائیں گے اور کبھی نہیں جائیں گے۔ زرداری صاحب کو ایک موقعہ مل جائے گا۔ قائد اعظم کے بعد بھٹو آیا۔ اُسے پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا۔ اب کوئی آیا ہے۔ لوگ جس کا انتظار کر رہے تھے۔ انتظار ختم ہوا تو اضطراب شروع ہو گیا۔ ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ عمران خان چاہتے کیا ہیں۔ یہ تو نہیں کہ اقتدار ملنے کے بعد ان کا انتظار ختم ہو گیا ہے۔ اس کے بعد کونسا انتظار شروع ہو گا۔
محترمہ خاتون اول بشریٰ بی بی نے عمران خان کو وزیراعظم تو بنوا دیا۔ مگر اب کیا بنوانے کے ارادے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب پاکپتن کا ایک دورہ عمران خان کو اور کرنا چاہئے۔ اس بار بشریٰ بی بی ان کے ساتھ ہوں۔ مجھے امید ہے کہ کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہو گا اور شاید اس کے بعد کچھ نہ کچھ فائدہ عوام کا بھی ہو جائے۔ پہلے عمران خان حضرت بابا فریدؒ کے مزار پر گئے تھے۔ اب وزیر اعظم پاکستان بابا فریدؒ کے مزار پر حاضر ہو گا۔ وہ دروازے کی سیڑھیوں پر پہلے کی طرح اپنے سر کو جھکائیں کہ سجدہ کا گماں ہو ؟ لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اسی طرح کریں جو خاتون اول بشیریٰ بی بی کی ہدایت کے مطابق ہو۔
مجھے نازش یعقوب ملنے آئی۔
یاسمین حمید بھی اس کے ساتھ تھی۔ یہ وہ یاسمین حمید نہیں جو ایک مشہور اور ممتاز شاعرہ ہے۔ یہ کسی گرلزکالج میں پروفیسر ہیں۔ یاسمین حمید بھی یاسمین حمید کو جانتی ہے۔ میں نے نازش یعقوب اور یاسمین حمید کو بتایا کہ میں اپنی اہلیہ محترمہ کو خاتون اول کہتا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ اچھا تو خاتون دوئم‘ سوئم اور چہارم بھی ہیں۔ اس کے بعد میں نے اسے خاتون اول و آخر کہنا شروع کر دیا ہے تو میں بشریٰ بی بی کو کیا کہوں۔
آصف زرداری اور چیئرمین نیب آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ زرداری صاحب نے کہا ۔ نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب اور کرپشن ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ پاکستان میں حکمرانوں کا جو طرز حکومت ہے۔ اس میں معیشت اور کرپشن ایک چیز ہوتے جا رہی ہے۔ اب نیب کیا حکمت عملی اختیار کرے گا اور چیئرمین نیب کیا کہیں گے۔ پہلے تو ان کا جواب بہت پسند آیا۔ اب بھی چیئرمین نیب کی بات پسند آئے گی ہم منتظر ہیں۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال اور وزیراعظم پاکستان عمران خان دونوں مل کر کوئی پالیسی بنائیں۔ دیکھیں اب اپوزیشن کیا پوزیشن اختیار کرتی ہے۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے بعد اب آصف زرداری بھی گرفتار ہونے والے ہیں۔
کیا یہ سچ ہے کہ وہ زرداری جو صدر پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ وہ کوئی اور زرداری تھے اور اب کوئی اور زرداری ہے۔ میری ملاقات زرداری صاحب سے ہوئی تھی جب وہ ایوان صدر میں تھے اور جب وہ زرداری ہاؤس میں تھے۔ دونوں جگہوں پر ایک ہی زرداری سے میری ملاقات ہوئی ہے۔
’’دعا کے چراغ‘‘ کے نام ایک شعری مجموعہ شائع ہوا ہے۔ شہزاد تابش اس خوبصورت کتاب کے شاعر ہیں۔ اس کے لئے مجھے نجیب احمد اور انمول گوہر کی رائے پسند آئی ہے۔ انمول گوہر بزم انمول انٹر نیشنل کی چیئرپرسن ہیں۔ وہ خود ایک بہت اعلیٰ پائے کی شاعرہ ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہ شہزاد تابش کی پہلی تخلیقی کتاب ہے جو سراہے جانے کے قابل ہے۔ انہوں نے شاعری کے میدان میں سبقت لے جانے کا تہیہ کر لیا ہے۔ ایک دن ان کی شاعری ادب کے ماتھے کا جھومر بن جائے گی۔ مجھے ان کے کچھ اشعار نے بہت متاثر کیا ہے۔
جہان دشت کی تاریکیوں میں کھو جاتا
جو میرے ساتھ نہ ہوتے تری دعا کے چراغ
حروف علم و حکمت میں اثر یونہی نہیں آتا
کہ برسوں کی ریاضت سے صدف موتی اگلتے ہیں