اسلام آباد(یس اردو نیوز)سپریم کورٹ نے سابق وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کی درخواست ضمانت خارج کردی ہے جبکہ سرکاری اشتہارات میں کروڑوں روپے کی بد عنوانی کے اسکینڈل کے شریک ملزمان نجی اشتہارت کمپنی کے مالک انعام اکبر اور محمد یوسف کابویو کی درخواست ضمانت خارج ہونے پر انھیں سپریم کورٹ کے احاطے سے نیب نے گرفتار کر لیا۔منگل کے روزجسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بد عنوانی کے مقدمات کا سامنا کرنیوالے ملزمان شرجیل میمن ،انعام اکبر ،یوسف کابویو ،عاصم حمید خان سکندر ،بشارت مرزا اور اقبال زیڈ کی درخواستوں پر سماعت کی۔شرجیل میمن کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا ا4160کے موکل کو ضمانت پر رہا کیا جائے اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جنرل فضل حق کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ضمانت بعد از گرفتاری کیلئے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع نہیں کیا جاسکتا ،متعلقہ فورمز سے رجوع کرنا لازم ہے۔ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ہمارا اعتر اض یہ ہے کہ احتساب عدالت ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتار ی جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔اس پرجسٹس آصف کھوسہ نے کہا شرجیل میمن کی گرفتاری ہوچکی ہے ،بعد ازگرفتاری کی درخواست ہم براہ راست نہیں سن سکتے۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ یہ نہ دیکھیں موکل ضمانت قبل از وقت گرفتاری یابعد ازگرفتاری آیاہے میراموکل یہاں ضمانت کے لیے آیاہے جسٹس دوست محمدخان نے کہاکہ آپ انگریزی والی بیل مانگ رہے ہیں یااردووالی!آپ کوجلد رہائی مل جائے ہمیں خوشی ہوگی لطیف کھوسہ نے کہاکہ مجھے اس عدالت کے پاس نہ بھیجیں جس نے میرٹ پر شرجیل کی درخواست خارج کردی جسٹس دوست محمدخان نے کہاکہ آپ کو ضمانت قبل ازوقت گرفتاری خارج کرنے والے بینچ کے سامنے نہیں بھیج رہے آپ کو سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کاکہہ رہے ہیں۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے بغیر کسی کا نام لیے کہا اسلام آباد کے ملزمان کو آسانی سے آجارہے ہیں ،
نواز شریف اور اسحاق ڈار کو جو ریلیف دیا گیا ہم بھی ا4146 کے حقدار ہیں،کسی اور صوبے سے گرفتاری نہیں کی گئی۔جسٹس دوست محمد خان نے کہا آپ جذباتی باتیں کر رہے ہیں ،لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور دیکھیں وہ ب4156 ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا شرجیل میمن کو ریلیف دیا جائے۔اس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ ہم بھی چاہتے ہیں شرجیل میمن کو ریلیف ملے ،سینکڑوں مریض ر4158 رہے ہیں شرجیل میمن نے ہسپتال کے پورے بلاک پر قبضہ کر رکھا ہے۔انعام اکبر کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا انعام اکبر دو پیشیوں میں عدالت حاضر نہیں ہوئے انھیں کیوں ضمانت دیں ،ضمانت قبل از گرفتاری مل جائے تو ہر پیشی میں حاضری ہوتی ہے۔حکومت سندھ کے گریڈ اٹھارہ کے افسر یوسف کابویو کی درخواست پر سماعت ہوئی تو ا4160کے وکیل ابراہیم ستی نے دلائل دیئے میرے موکل پر الزام ہے کہ ا4160ھوں نے اشتہاری کمپنی کو جاری کردہ ادائیگیوں کے چیک پر دستخط کیے ،میرے موکل کیخلاف ریفرنس زیر سماعت ہے ،میرے موکل نے کرپشن نہیں کی ،ا4160 پر اختیارات سے تجاوز کا مقدمہ ہے ،وزرا اپنے پی ایس کو جو حکم دیتے ہیں میرا موکل یا ا4160 پر عمل کرتا یا پھر استعفی دیکر چلاجاتا۔اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اسی سوچ کی وجہ سے ملک کا یہ حال ہے ،جب تک سرکاری اہلکار اعلی حکام کے غیر قانونی حکم پر انکار کرتے رہے ملکی حالات ٹھیک رہے۔ابراہیم ستی نے کہا یوسف رضا گیلانی ،راجہ پرویز اشرف اور نوا ز شریف کو نیب نے گرفتار نہیں کیا ،کیپٹن صفدر کو بھی ضمانت دی گئی،سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد لوگ تقریریں کر رہے ہیں ،گھوم پھر رہے ہیں۔جسٹس دوست محمد خان نے کہا نیب کی حراست میں رہنے سے ڈائیٹنگ ہو جائے گی ،صحت اچھی رہے گی،کنویں کی مٹی کنویں میں جاتی ہے۔نیب کے وکیل نے کہا انعام اکبر بد عنوانی اسکنڈل کے بینیفشری ہیں۔جسٹس دوست محمد نے کہا کسٹم کی طرح نیب کا انٹیلی جنس سسٹم کیوں نہیں ہے ؟۔بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد شرجیل انعام میمن کی درخواست ضمانت خارج کردی۔انعام اکبر ، یوسف کابویو ،عاصم حمید خان سکندر کی درخواست ضمانت بھی خارج کردی گئیں۔عدالت نے قرار دیا کہ گرفتاری کے بعد دونوں درخواستیں غیرموثر ہوچکی ہیں اورملزم ضمانت بعد ازگرفتاری کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے،عدالت نے قرار دیا نیب کورٹ کا بشارت مرزا اور اقبال زیڈ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کیخلاف درخواستیں اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے ،اس لئے اس مقدمہ کو الگ سے سنیں گے عدالت نے ان درخواستوں پر نیب سے 7 دن میں تحریر ی جواب طلب کرلیا ۔